سڑک پر چل رہے ہوں بس میں بیٹھے ہوں گاڑی روک کر اشارہ کھلنے کا انتظار کر رہے ہوں یاگھر میں آرام دہ حالت میں ہوں- جھکی ہوئی گردنیں اور اٹھے ہوئے ہاتھ عام مشاہدے میں آتے ہیں – نہیں جناب کسی دعا کا ذکر ہے نہ سزا کا یہ تو سوشل میڈیا کی بات ہو رہی ہے جو ہماری زندگیوں میں کچھ اس طرح در آیا ہے کہ کھانے کی میز پر دوسری طرف بیٹھے انسان کی بات کا ہوں ہاں میں جواب دیتے ہوئے ہم سات سمندر پار بیٹھے شخص کو دو میٹر لمبا جواب لکھ رہے ہوتے ہیں -انگلیاں تیزی سے سیل کی سکرین پر حرکت کرتی ہیں اور نت نئے واقعات ، خبریں ، فیشن ، ادب سیاست ،کھیل ،موسیقی اور اپنی اپنی دل چسپی کی دیگر باتوں کے متعلق پل پل تازہ ترین صورت حال سے آگاہی مل رہی ہوتی ہے-
یوں لگتا ہے کہ ایک لمحے کے لئے بھی موبائل ہاتھ سے رکھا تو دنیا الٹی گھومنے لگے گی- اس لئے دنیا کو سیدھارکھنےکے لئے ہی جیسے اس دائرے کے ساتھ جڑے رہنا پڑتا ہے -جہاں یہ سوشل میڈیا رابطہ اور معلومات کی ارسال و ترسیل کا تیز ترین ذریعہ ثابت ہوا ہے وہیں اس کے کچھ نقصانات بھی سامنے آئے ہیں –
اگر دیکھا جائے تو یہ سوشل میڈیا بھی ایک منڈی کی طرح ہی ہے جہاں ہر شخص اپنے اپنے مال کی چھابڑی سجائے آوازیں لگا رہا ہے اس کا موازنہ اگر ایشیا کی کسی بھی عام سے عام منڈی سے کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ ان دونوں میں بہت مماثلت یے –
اب اس بات کو ہی لے لیں کہ ادھر کوئی چیز مارکیٹ میں آئی ادھر کھٹ سے اس کی نقل تیار ہوگئی اور اصل سے پہلے نقل ہر طرف پھیل جاتی ہے –
چیزیں تو چیزیں انسانوں کی نقل تیار کرنے کے ماہر بھی موجود ہیں – کبھی آپ کی نظروں سے بھی ایشیا کا آئن سٹائن یا پاکستان کی مدر ٹریسا گزرے ہوں گے -عدم اعتمادی کی انتہا ہے کہ لگتا ہے اصل نام سے سامنے آئے تو شاید پہچان ہی نہ مل سکے
یہ تو رہا احوال ان لوگوں کا جو گزر گئے اور اب ان کے ہی دوم سوم سامنے آ رہے ہیں مگر اصل مسئلہ تو تب درپیش ہوا جب سوشل میڈیا نے اس منڈی میں نقلی غالب اور اقبال کی بھرمار کردی ہے بالکل اسی طرح جیسے بازار جا کے شیمپو خریدتے ہوئے سوچنا پڑتا ہے اصل بھی ہو گا یا نہیں. اسی طرح کسی شعر پر غالب یا اقبال کا نام لکھا دیکھ کر یہ خیال آتا ہے کہ کون سے والے ہیں اصل والے یا ____ کوئی بھی بے وزن اور گھٹیا قسم کا دو سطری شعر لکھ کر اس میں غالب یا اقبال تخلص کے طور پر لکھ دیا جاتا ہے -ایک بار تو حد ہی ہوگئی جب ایک انتہائی فضول نظم نام کی چیز کے ساتھ علامہ اقبال کی تصویر اور بانگ درا سے انتخاب لکھا گیا تھا-
ان پر واہ واہ کے ڈونگرے برسانے والوں نے بانگ درا کبھی کسی لائبریری میں بھی کھولنے کی زحمت نہیں کی ہو گی -صرف نام پڑھ کر ہی واہ جی واہ، بہت خوب ،شاندار، کمال کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں -یہ سوچے بنا کہ جس طرح نقلی دودھ بچوں کی رگوں کے لئے زہر ہے یہ دو چار نمبر کا ادب ہماری تہذیب کے لئے زہر قاتل ہے –
ایک بار کسی سے کہا کہ جناب یہ اقبال کا شعر تو نہیں تو کمال مستقل مزاجی سے ( ویسے ڈھٹائی موزوں لفظ ہے لیکن کچھ غیر ادبی سا ہے سو مستقل مزاجی سے ہی کام چلا لیتے ہیں ) بولے کہ ایک نام کے اور لوگ نہیں ہو سکتے کیا ؟-اب ہم سوچ میں پڑ گئے کہ چلیں ایک نام کے اور لوگ تو ہو سکتے ہیں مگر ایسا ہی ملتا جلتا سوچ میں گم چہرہ اور نام کے ساتھ علامہ اور رحمت اللہ علیہ کے سابقے لاحقے اور بھی ہو سکتے ہیں -کمال ہے !
اور تو اور بہت بے کار قسم کے اقوال کو بھی بنا تحقیق و تصدیق کئے مختلف خلفاء کے نام سے خوبصورت تصویری شکل میں لکھا جاتا ہے -پڑھنے والے صرف فرمان پڑھتے ہیں اور ساتھ لکھے ہوئے نام کی وجہ سے سبحان اللہ کہہ کر تعریفوں کے پل باندھ دیتے ہیں –
ایسا کرنے والوں کو صرف وقتی طور پر اپنی تحریر پر واہ واہ تو مل جاتی ہے لیکن اس کے دور رس نتائج کیا ہونگے کوئی نہیں سوچتا – خیر ہمارا کیا ہے ہم تو
بدنام ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا
کے قائل ہیں –
یہاں ایک واقعہ یاد آگیا ،
ایک دفعہ کسی مارکیٹ میں دکاندار سے ہیڈ اینڈ شولڈر خریدتے ہوئے محض اپنی تسلی کے لئے کسی نے پوچھا کہ بھائی شیمپو اصلی ہے نا دو نمبر تو نہیں ؟ شاید ان صاحب کو یہ خوش فہمی تھی کہ دکاندار کہے گا نہیں بھائی صاحب دو نمبر ہی ہے -( اب بے ایمانی کے دھندے میں کچھ تو ایمانداری ہو ) –
مگر اس دکاندار کے جواب سے ان صاحب کی حیرت کی انتہا نہ رہی – دکاندار کہنے لگا ” بھائی صاحب دو نمبر بھی مل جائے گا تو شکر کرنا یہاں دو سے دس نمبر تک سب مل رہا ہے – خیر چلو سچ تو بولا –
ایک زمانہ تھا لوگ گھروں میں چھپا کر بناسپتی گھی لاتے تھے کہ محلے والے دیکھ کہ یہ نہ کہیں کہ یہ بناسپتی گھی کھا رہے ہیں دیسی نہیں -لیکن اب تو بناسپتی بھی خالص نہیں ملتا- یعنی نا خالص چیز بھی پوری طرح سے نا خالص نہیں رہی یعنی اسکی ناخالصیت میں بھی خالص پن نہیں یعنی ………آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے –
بات تو ہو رہی تھی اقبالوں اور غالبوں کی جن کی سب سے بڑی منڈی سوشل میڈیا ہے – ایسے ایسے اشعار ان کے نام سے پڑھنے کو ملتے ہیں کہ اگر غالب نمبر ایک اور اقبال محترم اصل والے زندہ بھی ہوتے تو مرنے کی خواہش ہی کرتے –
ان شعروں کو پڑھ کر اتنا دکھ یوتا ہے جتنا شاید نقلی ہیڈ اینڈ شولڈرز شیمپو سے بال جھڑ جانے کا بھی نہ یوتا –
فراز صاحب کا تو ذکر ہی چھوڑیں ان کو تو شاعر مانتے ہی نہیں حضرات سو ان کے اصل اشعار کی نسبت ان کے مزاحیہ اشعار(پیروڈی) زیادہ مشہور ہیں –
یہ سب دیکھ کر اگر کوئی ذرا بھی درد مند ہو تو یہی کہتا ہے "اللہ ہمارے حال پر رحم کرے -”
اللہ تو رحم کرے گا ہی وہ تو ہے ہی رحمان اور رحیم بندے خود بھی تو رحم کریں اپنے حال پر اور دوسروں کے حال پر بھی –
خیر کیا کہا جا سکتا ہے ؟ سوائے اس کے کہ "اللہ ہمارے حال پر رحم کرے -”
بس آنے والی نسلوں کے لئے یہی دعاہے کہ انہیں ہیڈ اینڈ شولڈرز شیمپو اصل ملے نہ ملے اقبال اور غالب اصل ضرور مل جائے ____ اللہ ہمارے حال پر رحم کرے-
آمین


دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn