Qalamkar Website Header Image

یزید تھا اور حسینؑ ہے

جب کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ کربلا میں جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے، کتنا سچ ہے اور کتنا من گھڑت یہ بھی معلوم نہیں تو بس اللہ توبہ کیجیئے۔ اور بہتر ہے معاملہ خدا پر چھوڑ دیجیئے کیونکہ دونوں طرف یعنی دونوں لشکروں میں کلمہ گو مسلمان ہی تھے ، تو مجھے حیرانی نہیں ہوتی۔ سید یاحسینی یا مسلمان کی حیثیت سے بلکہ تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے ۔ اس لئے کہ کلمہ، مسلمانی اور خطائے اجتہادی کے ساتھ ساتھ معاملہ اللہ پر چھوڑ دینے کی منطقیں اس اموی دور میں گھڑی گئیں جس میں معرکہ کربلا برپا ہوا، خانہ خدا پر حملہ ہوا، اموی لشکر نے کعبہ کو تاراج کیا اور خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ کے نواسے عبداللہ بن زبیر اور چند دیگر صحابہ کرام کے بچوں کو بے دردی سے قتل کیا۔

ہم کچھ زیادہ آگے بڑھ گئے اس سے بہت پہلے خالد بن ولید نے صحابی رسول ﷺ حضرت مالک بن نویرہؓ کے ساتھ کیا کیا اور ان کی اہلیہ کے ساتھ شب باشی فرمائی۔ جناب ابوذر غفاریؓ کے ساتھ کیا ہوا۔ فقط دو بار مدینہ بدر ہوئے۔ رسالت مآب ﷺمؤذن حضرت بلالؓ مدینہ سے کیوں چلے گئے؟ گئے تھے یا نکالے گئے ؟ مروان کے باپ حکم کو رسول اکرم ﷺ نے مدینہ بدر کیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے مدینہ کی حدود بڑھا دیں۔ حضرت عمرؓ نے اضافہ کردیا مگر جیسے ہی خلافت اموی خاندان میں بذریعہ حضرت عثمانؓ داخل ہوئی واحد گواہی پر رسول اللہ ﷺ اور شیخینؓ کے فیصلے منسوخ ہوے۔ مروان کو حضرت عثمانؓ کا پرسنل سیکرٹری مقرر کردیا گیا۔ ہم آگے بڑھتے ہیں۔ تاریخ کے یہ چند حوالے بہت ہیں جو خطائے اجتہادی کی سند پا کر پاک صاف ہوئے۔ مجھ طالب علم کو ان مسلمانوں پر بہت افسوس ہوتا ہے جو رسول اکرم ﷺ کے نواسے حضرت امام حسین ؑ پر گریہ کرنے والوں پر باتیں کرتے ہیں۔ بندگانِ خدا آپ سمجھتے کیوں نہیں اگر آج یزید کی محبت کا شکار لوگ آپ کے ساتھ مل کر یزید پر لعنت کریں گے تو کل آپ مجبور کریں گے کہ مسلمانوں کے خلیفہ اول حضرت ابوبکرؓ کے دو صاحبزادوں محمد بن ابوبکر اور عبدالرحمٰن کے قاتلوں پر بھی لعنت کرو۔

یہ بھی پڑھئے:  سوائے ابلیس کے سبھی تو خوشیاں منا رہے ہیں

ارے بھیا! اسی لئے تو خطائے اجتہادی اور جھوٹے قصوں والی بات گھڑ کر سچ سے منہ موڑا جاتا ہے۔ ہاں اگر محمد بن ابی بکرؓ، عبدالرحمٰن بن ابوبکرؓ اور امام حسین ؑ کے قتل میں معاویہ اور یزید کے علاوہ کوئی اور باپ بیٹا ملوث ہوتے تو پھر آپ مسلمانوں کی پھرتیاں دیکھتے۔ مگر اللہ جانے حضرت حمزہ ؑ کا کلیجہ چبانے والی کے بیٹے اور پوتے میں کیا خصوصیت ہے کہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ نہ صرف ان دونوں کے جرائم کی پردہ پوشی پر ڈٹ جاتا ہے بلکہ ہر اس سانحے اور قتل کے حوالے سے تاویلات گھڑنا شروع کر دیتا ہے جس کے متاثرین آلِ محمد ﷺ ہوں یا ان کے بہی خواہ۔

سادہ بات یہ ہے کہ جن میں حضرت ابوبکرؓ کے دو صاحبزادوں کے قاتل پر بات کرنے کی جرأت نہیں ان سے یہ توقع کرناکہ وہ حضرت ابوذر غفاریؓ پر تشدد یا ان کی مدینہ بدری پر احتجاج کریں یا پھر نواسۂ رسول ﷺحضرت امام حسین ؑ ، ان کے احباب و انصار کے ساتھ کربلا میں ہوئے وحشیانہ سلوک پر جرأت مندانہ رائے کا اظہار کریں، عبث ہے۔ اموی خلافت کی پوری صدی میں احادیث اور روایات گھڑنے اور ۹۰ سال تک منبر رسول ﷺ سے امام علی ؑ پر سب وشتم کرنے والوں کا دفاع دراصل انعامات و اکرامات کی بدولت ہے۔ جس کی لذت آج بھی ایک طبقہ محسوس کرتا ہے۔ مسلمانوں کے اس طبقے پر حیران ہونے کی ضرورت نہیں جو درحقیقت محمدی ﷺ اسلام کی بجائے اموی اسلام کا پیرو کار ہے اور اپنے بزرگوں کے جرائم کو قبائلی تعصب میں چھپا کر اس انداز میں دفاع کرتا ہے کہ اذہان متاثر ہوتے ہیں۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ فتح مکہ کے وقت آزاد کردہ غلاموں کی نسل نے دینِ مبین کا حلیہ بگاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اسلام کو بادشاہت کی عمارت کی بنیادوں میں دفن کرنے والوں کے وارث اصل میں ضد سے دوچارہیں۔ چودہ سو سال گزر جانے کے باوجود انہیں یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ کیا وجہ ہے کہ حسین ؑ آج بھی ہے اور یزید گالی بن کر تاریخ کے کوڑے دان میں پڑا ہے۔ سادہ لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ

یہ بھی پڑھئے:  سماجی روابط اور نوجوان | حمیرا اسلم

یزید تھا اور حسینؑ ہے

حالیہ بلاگ پوسٹس