Qalamkar Website Header Image
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

کبھی اس طور سوچ اور عمل کرکے دیکھئے

صاحبو یہ دعائیں اور بدعائیں تقریباً ہر مذہب و عقیدے میں ہوتی ہیں۔ البتہ جس بات پر ان دونوں کے شوقین یا یوں کہہ لیجئے ان پر ہی اکتفا کرنے والے غور کرنے کی زحمت نہیں کرتے وہ یہ ہے کہ کیا عمل کے بغیر دعا کافی ہے یا بدعا دے کر فرض یا بدلہ پورا ہوجاتا ہے؟ مثال کے طور پر میں پچھلے مہینہ بھر سے گھٹنے کی تکلیف میں مبتلا ہوں۔ ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد جو ادویات تجویز کیں وہ باقاعدگی سے کھارہا ہوں۔ دوستوں اور عزیزوں سے دعا کے لئے بھی کہتا ہوں، یہ ممکن نہیں کہ میں ادویات استعمال نہ کروں اور یہ سمجھ لوں کہ دوستوں اور احباب کے وسیع حلقے کی دعائیں میری تکلیف کو دور کردیں گی۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دعا ضرور کیجئے لیکن بیماری اور مسئلہ دونوں سے نجات کے لئے جس بنیادی چیز کی ضرورت ہے (یعنی ادویات اور حکمت عملی) اس پر بھی توجہ دیجئے۔

اس تمہید کی وجہ ایک نہیں بلکہ دو ہیں. اولاً او آئی سی کی مسئلہ فلسطین پر قرارداد اور ثانیاً سوموار کو قومی اسمبلی میں اسرائیل فلسطین تنازع پر ہوئی دھواں دھار تقاریر اور پھر متفقہ طور پر منظور کی گئی قرارداد۔ اس قرارداد میں جمعہ 21مئی کو پاکستان میں اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس سے قبل 16مئی کو جمعیت علمائے ہند نے ہندوستان کے مسلمانوں سے فلسطینیوں کے حق میں یوم دعا منانے کی اپیل کی تھی۔ مجھے تو یقین بالکل نہیں کہ یوم دعا سے صیہونیوں کی منجیاں الٹ جائیں گی یا پھر یوم سیاہ سے یہودیوں کا مشہور عالم حسن ماند پڑجائے گا اوروہ ارباب رحیم کی طرح ایسے ہوجائیں گے کہ کوئی پیر پگاڑا مرحوم کی طرح انہیں کالے کوئوں کا غول قرار دے گا۔

آپ نے آج کے کالم پر ناراض نہیں ہوناکہ ایک سنجیدہ عالمی یا "مسلمانی” مسئلہ پر طنزومزاح کیوں؟ ارے بھیا ! دیکھئے یہ دنیا ہے اس میں رہنے سہنے کے اور طریقے ہوتے ہیں اسی طرح احتجاج کے بھی سنجیدہ اور موثر طریقے یقیناً ہوں گے۔ اب اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ او آئی سی اور ہماری قومی اسمبلی کی قراردادوں، وزرائے خارجہ یا ہمارے لیڈروں کی دھواں دھار تقاریر سے صیہونی دہشت گرد گھبراکر بھاگ کھڑے ہوں گے تو یہ محض آپ کی خام خیال ہے۔ آپ غور کیجئے اس وقت دنیا کی طاقتور ترین ریاستوں میں سے چین اور روس کے علاوہ سبھی ریاستوں کے حکمران اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہی نہیں بلکہ ’’دیسی زبان‘‘ میں ہلہ شیری بھی دے رہے ہیں۔ مثلاً ایک ایسے وقت میں جب دنیا بھر کے امن پسند صیہونی دہشت گردی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں عالمی سامراج امریکہ بہادر نے اسرائیل کو 73کروڑ ڈالر کے گائیڈڈ میزائل اور سمارٹ بم فروخت کرنے کی منظوری دیدی ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  تعلیم سب کے لیے ۔۔۔!!!

اب آپ ہی بتایئے کہ فلسطینیوں کے حامیوں کو اسرائیل کی طرف منہ کرکے اللہ سئیں سے یہ دعا کرنی چاہیے کہ ’’اللہ سائیاں اسرائیل کے گائیڈڈ میزائلوں اور سمارٹ بموں میں کیڑے پڑجائیں۔ ان میزائل اور بموں کو بنانے والی فیکٹریوں میں زلزلہ آجائے یا صدر جوبائیڈن کو ایک ہی باری میں کورونا اور ٹی بی ہوجائے؟” عزیزو! ایسا نہیں ہے بلکہ کرنے کا کام یہ ہے کہ اسرائیلی دہشت گردی کے مخالفین ان ریاستوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں جو اس دہشت گردی کی حمایت میں پیش پیش ہیں۔ مثلاً اگر لوگ امریکہ، فرانس، برطانیہ اور آسٹریلیا کی صرف کھانے پینے کی اشیاء اورمیک اپ کے سامان وغیرہ کا ایک ماہ کے لئے بائیکاٹ کردیں یا ان ممالک سے اسلحہ خریدنے والے تیسری دنیا کے ممالک ایک سال ان سے اسلحہ نہ خریدیں، جنہوں نے خریداری کے آرڈر دے رکھے ہیں وہ معطل کردیں تو ان بدمعاش ریاستوں کی طبیعت بہتر بنائی جاسکتی ہے۔

خالی خولی بڑھکوں، مردہ باد کے نعروں، الماس بوبی برانڈ قراردادوں سے کچھ نہیں ہونے والا۔ دنیا بھر کے امن پسندوں کو ایک تحریک منظم کرنی چاہیے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ویٹو پاور کی بدمعاشی ختم کی جائے۔ یہ ویٹو پاور کی بدمعاشی بھی اصل میں سامراجی عزائم کے تحفظ کا ہتھیار ہے۔ یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ جب تک بدمعاش ریاستوں کو نکیل نہیں ڈالی جاتی، دنیا میں امن قائم ہوسکتا ہے نہ مظلوم و محکوم اقوام کو تحفظ اور آزادی مل سکتی ہے۔ اچھا اگر آپ مسئلہ فلسطین کا انسانی بنیادوں پر نہیں بلکہ مذہبی بنیادوں پر حل چاہتے ہیں تو پھر پہلے اپنے اپنے دوغلے حکمرانوں کا محاسبہ کیجئے جو امریکہ اور دوسری بڑی طاقتوں کے غلام بنے ہوئے ہیں البتہ میری رائے یہی ہے کہ زیادہ بہتر اور مثبت نتیجہ انسانی بنیادوں پر شروع کی جانے والی مہم سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔کالے گورے اور مسلم و غیر مسلم کی تمیز کے بغیر دنیا بھر کے انسان متحد ہوکر ان بدمعاش ریاستوں کے بالادست طبقات اور حکمرانوں کو سبق سکھائیں۔

یہ بھی پڑھئے:  پاکستان پر حملہ کی سازش میں تیسرا کون؟

یوم فلسطین یا یوم سیاہ منانے سے کچھ نہیں ہونا اچھا وہ پہلے جو ہم کشمیریوں کے لئے جمعہ کے جمعہ نصف گھنٹہ کھڑے ہوکر احتجاج کیا کرتے تھے اس سے نریندر مودی کی منجی اُلٹ گئی کیا؟ منظم اور حکمت عملی سے عبارت احتجاج ہی نتیجہ خیز ہوا کرتے ہیں۔ مثلاً ان مسلم ممالک کے عوام جن ملکوں کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ہیں، اپنی ریاستوں پر اتحاد کی طاقت سے زور دیں کہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کئے جائیں۔ ان ساری معروضات کا مقصد یہ ہے کہ جب تک اسرائیل کی سرپرست ریاستوں کے دماغ درست کرنے کی حکمت عملی نہیں اپنائی جاتی، صیہونی دہشت گردی کو روکنا مشکل ہے۔
’’شاید آپ کے دل میں اتر جائے میری بات‘‘۔

روزنامہ ” بدلتا زمانہ ” ملتان

حالیہ بلاگ پوسٹس