وحشیانہ تشدد سے ملے زخموں کے ٹانکے تو کھل گئے لیکن ہفتہ بھر گزر جانے کے باوجود میری حالت یہ تھی کہ سیدھا ہو کر کسی سہارے کے بغیر بیٹھنا دوبھر تھا۔ شاہی قلعے کے دو اعلیٰ افسران ڈاکٹر کے ہمراہ تقریباََ روزانہ ہی قیدی کی حالت کا جائزہ لینے کے لئے کوٹھڑی کا دورہ فرماتے۔ اس موقع پر مجھے تو جو کہتے سناتے لیکن ڈاکٹر کی کمبختی آئی رہتی۔ کرنل لغاری کا ڈاکٹر سے ایک ہی سوال ہوتا کہ یہ کب تک تندرست ہو جائے گا؟ ڈاکٹر کہتا،’’سر اس کا بخار نہیں ٹوٹ رہا۔ ایک ہفتے میں بخار 104سے 103 پر آیا ہے۔ میں تو پوری کوشش کر رہا ہوں‘‘۔’’کوشش کیا ہوتی ہے ؟ اسے فوری طور پر ٹھیک کرو تاکہ تفتیش شروع ہو‘‘۔ ڈاکٹر بے بسی کی تصویر بنا جی سر جی سر ہی کہتا رہتا۔ بخار تھا کہ 103 سے نیچے آنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ شاہی قلعے والے ڈاکٹر کے سارے ٹوٹکے دم توڑ گئے۔ غالباََ آٹھویں یا دسویں روز اس ڈاکٹر کے ہمراہ دو اور ڈاکٹر صاحبان قلعہ کے عملے کی نگرانی میں میری کوٹھڑی میں آئے۔ دونوں ڈاکٹروں نے تفصیل کے ساتھ معائنہ کرکے اپنی رائے دی کہ ایک تو گردن والا زخم کچھ خراب ہو چکا ہے اور دوسرا بخار نہ ٹوٹنے کی وجہ اولاََ سردی سے محفوظ نہ رہنے کے لئے کم بندوبست ہے اور دوسرا یہ کہ ’’سرسام‘‘ بھی ہو سکتا ہے۔
بہر طور بلڈ ٹیسٹ لازمی ہے اور دیکھ بھال کے لئے ہسپتال لے جانا ضروری ہو گا۔ ہسپتال منتقل کرنے سے پھر شاہی قلعہ کی انتظامیہ نے انکار کر دیا۔ ان کا مؤقف تھا کہ اس قدر خطرناک اور ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث قیدی کو شاہی قلعہ سے باہر لے جانا ممکن نہیں البتہ بلڈ ٹیسٹ کروانے اور کچھ دنوں کے لئے ایک قدرے بڑی کوٹھڑی میں منتقل کرنے کی منظوری دے دی گئی۔ جس دن صبح کے وقت ڈاکٹر صاحبان آئے تھے اسی دوپہر مجھے اس کوٹھڑی سے نکال کر ایک دوسری کوٹھڑی میں منتقل کر دیا گیا۔ تقریباََ الگ تھلگ جگہ پر قائم اس کوٹھڑی کا ماحول اس لئے بہتر تھا کہ یہ زیرِ زمین تہہ خانے والی کوٹھڑیوں کی بجائے کھلی فضا میں تھی۔ تازہ ہوا اور سورج کی روشنی دونوں کو محسوس کیاجاسکتا تھا۔
آج یہ لکھنا اورممکن ہے کچھ لوگوں کے لئے یقین کرنا اتنا آسان نہ ہوکہ تقریباََ ایک ماہ تہہ خانے میں بنی کوٹھڑی میں بند رہنے کے بعد اس کوٹھڑی میں منتقل ہوتے تازگی کا احساس تو ہوا لیکن دن کی روشنی اور آنکھوں میں یکجائی پیدا کرنے میں دو تین گھنٹے لگ گئے۔ کافی دیر تو حالت یہ تھی کہ اگر کوٹھڑی کے دروازے کی طرف منہ کر کے باہر روشنی کو دیکھنے کی کوشش کرتا تو آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھانے لگتا۔ دو تین گھنٹے تک یہی صورتحال رہی۔ لیکن سورج طلوع ہونے سے پیدا ہونے والی روشنی کو صحیح طور دیکھنے میں کئی دن لگ گئے۔ تہہ خانے والی کوٹھڑی سے یہاں منتقل کرے وقت اہلکار ایک چارپائی پر ڈال کر لائے تھے۔آج بھی یاد ہے جب اہلکاروں نے مجھے کوٹھڑی سے اٹھا کر باہر پڑی چارپائی پر لٹایا اور چارپائی اٹھائی تو میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہیں یہ چارپائی کاندھوں پر نہ اٹھا لیں اور کسی جانب سے کلمہ شہادت کی صدا بلند نہ ہو۔ نئی کوٹھڑی میں نیچے بچھانے کے لئے ایک کی بجائے تین کمبل دئیے گئے جبکہ اوڑھنے کے لئے ایک پرانی سی رضائی بھی۔ کوٹھڑی کا باقی نقشہ ویسا ہی تھا۔ پانی کا ایک گھڑا ، ضروریات حوائج کا پاٹ اور بس۔ چھت کافی بلند تھی۔ اندازاََ 15 سے 18 فٹ۔ چھت پر ایک بلب لٹک رہا تھا جو مغرب کی اذان کے بعد جلایا دیا جاتا۔ لیکن بٹن باہر کی طرف لگا ہوا تھا۔ البتہ یہ کوٹھڑی پہلی کوٹھڑی سے کافی کشادہ تھی۔ البتہ تنہائی تھی۔ سنتری بادشاہ کوٹھڑی کے باہر رائفل پکڑے یوں تن کر کھڑے رہتے جیسے کسی آفت کے ٹوٹنے پر اس نے فوراََ مقابلہ کرنا ہے۔
پہرے دار سنتریوں کا تعلق پنجاب ریزرو پولیس (پی آر پی) سے ہوتا تھا۔ پی آر پی کا ہیڈ کوارٹر لاہور کے قریبی ضلع شیخوپورہ کے قصبے چوہڑ کانہ میں تھا۔ چوہڑ کانہ اب فاروق آباد کہلاتا ہے۔ جیسے لائل پور فیصل آباد اورمنٹگمری ساہیوال، کراچی میں ڈرگ کالونی بھی مشرف بہ اسلام ہوئی اور فیصل کالونی کہلاتی ہے۔ ہم بھی بڑے عجیب لوگ ہیں۔ بیگانوں کے قائم کردہ شہروں، قصبوں اور کالونیوں کی ’’مسلمانی‘‘ کر کے ان کے نام تبدیل کر لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بہت تیر مار لیا۔ اپنی تاریخ سے ناطے توڑ کر عربوں کی تاریخ اور کلچر کو بطور اسلام اپناتے ہوئے رتی برابر دکھ نہیں ہوتا ہمیں۔ کبھی کوئی سوچنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا کہ صدی بھر یا صدیوں سے موجود ناموں کی ’’مسلمانی و تبدیلی‘‘ سے اسلام کی کیا خدمت ہوئی۔ اچھا اگر قصبوں اور شہروں کے اسلامی نام ضروری ہیں تو نئے آباد کیجیئے۔ تاریخ کو مسخ کرنے کا کیا فائدہ؟ لیکن اپنی اصل سے کٹے کم اصلوں کو کون سمجھائے۔ شہروں اور قصبوں کی ’’مسلمانی‘‘ اور ناموں کی تبدیلی سے بیٹھے بٹھائے آپ نے اس شہر اور قصبے کو اپنی تاریخ سے محروم کر دیا۔ فائدہ کیا ہوا؟ بہت پہلے کہیں پڑھا تھا، ذات کا کمی ہونا برائی نہیں یہ تو محنت کر کے کھانے کا اعزاز ہے۔ ذہن کا کمی ہونا اصل برائی ہے۔ انسان زندگی بھر دوسروں کا منہ لال دیکھ کر اپنا تپھڑوں سے لال کرتا رہتا ہے۔
نئی کوٹھڑی میں پہلی شب سوتے جاگتے گزری۔ ہر تین گھنٹے بعد پہرے پر موجود سنتری تبدیلی کے وقت اپنے زندہ و موجود ہونے کی باآوازِ بلند گواہی لازم تھی تو دوسری طرف ہر چھ گھنٹے بعد سنتری بادشاہ آواز دے کر کہتا،’’شاہ دوائی لے کے کھا لا‘‘ (شاہ دوائی لے کر کھا لو)۔اگلی صبح کوٹھڑی کی صفائی کے لئے آنے والا جمعدار ایک خالی بوتل لے کر آیا اور بولا،’’تیرا پیشاب وی ٹیسٹ ہونا اے۔ ناشتے تو پہلاں ایندے وچ پیشاب دا نمونہ بھر دئیں‘‘(تمہارا پیشاب بھی ٹیسٹ ہونا ہے۔ ناشتے سے پہلے اس میں پیشاب کا نمونہ بھر دینا) یورن ٹیسٹ کے لئے ہدایت نامہ تھا۔ کچھ دیر بعد چائے اور آدھی روٹی کا ناشتہ مل گیا۔ دوسرے سنتری کی تبدیلی کے بعد ڈاکٹر اور اس کا معاون دو اہلکاروں اور ایک نامعلوم افسر کے ہمراہ کوٹھڑی میں آئے۔ ڈاکٹر نے ماتھے اور گردن کے زخموں کا معائنہ کیا۔ دونوں پر مرہم سی لگائی۔ گردن پر البتہ پٹی کر دی۔ اس کے بعد اس نے بلڈ ٹیسٹ کے لئے دو سرنجوں میں خون لیا۔ اور کوٹھڑی سے چلے گئے۔کافی دیر کے بعد مجھے کوٹھڑی کی طرف آتی آوازیں سنائی دیں۔ پھر سنتری کے سیلیوٹ نے یقین دلایا کہ کوئی آرہا ہے۔ آنے والے نمودار ہوئے تو ایک تو فلک شیر اعوان تھا۔ دوسرا وہی پنجاب پولیس کا ایڈیشنل آئی جی۔ ان کے ساتھ ایک اور شخص بھی تھا۔ میں اسے پہلی بار دیکھ رہا تھا۔
فلک شیر نے پوچھا،’’کیسے ہو شاہ جی!‘‘ ’’اچھا ہوں‘‘، میں نے جواب دیا۔’’دوائیاں مل رہی ہیں‘‘؟’’جی ہاں‘‘ دوسرا جواب تھا۔ ابھی وہ پوچھ ہی رہا تھا کہ ڈاکٹربھی آگیا۔ ڈاکٹرکے آتے ہی تیسرے شخص نے اس سے سوال کیا’’ڈاکٹر صاحب! کتنے دنوں میں تندرست ہو گامریض‘‘؟ ’’خون لے لیا ہے۔ ٹیسٹ رپورٹ شام تک یا کل ملے گی۔ کل ہی ڈاکٹر صاحبان دوبارہ آئیں گے‘‘۔ قلعہ کے ڈاکٹر نے جواب دیا۔ اس نے اگلا سوال کیا،’’اب بخار کتنا ہے‘‘؟ ڈاکٹر نے کہا،’’کچھ دیر قبل چیک کیا تھا تو 103 سے کچھ اوپر تھا‘‘۔’’ہوں‘‘( اس ہوں کو اس نے کھینچ کر طویل کیا۔پھر وہ فلک شیر اعوان سے مخاطب ہوا، ’’مسٹر اعوان! اس کی سکھر والے مقدمات میں بھی گرفتاری ڈلوا لیں۔ مقدموں کے کاغذات لے کر ایک آدمی سکھر سے آیا ہوا ہے‘‘۔ ’’جی بہتر سر‘‘اعوان نے جواب دیا۔ اس کے بعد وہ سارے لوگ چلے گئے۔ دوپہر کے وقت اعوان ایک بار دوبارہ آیا۔ اس کے ساتھ دو اہلکار بھی تھے۔ کوٹھڑی کے دروازے پر پہنچ کر انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا، ’’شاہ جی! ادھر آؤ‘‘۔ فرش پر خود کو گھسیٹ کر بڑی مشکل سے کوٹھڑی کے دروازے کی سلاخوں کے پاس پہنچا تو انہوں نے تین یا چار کاغذات پر میرے انگوٹھے لگوائے۔ پھر خود ہی کہنے لگا’’ یہ سکھر کی فوجی عدالت سے جاری ہوئے تمہارے وارنٹ گرفتاری ہیں جن کی تعمیل کروانے وہاں سے آدمی آیا ہوا ہے‘‘۔ ’’جی بہتر‘‘، میں نے جواب دیا۔ اعوان نے ساتھ آنے والوں کو اشارہ کیا تو دونوں اہلکار کاغذات لے کر چلے گئے۔ چندہی لمحوں میں ایک اور اہلکار کرسی لے کر آگیا۔ کوٹھڑی کے دروازے کے باہر اس نے کرسی رکھی۔ اعوان اس پر بیٹھ گیا۔
جاری ہے۔۔۔
پچھلی اقساط پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn