ذوالفقار علی بھٹو سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد اقتدار میں آئے۔ بچے کھچے پاکستان میں انہیں اقتدار بہ امرِ مجبوری دیا گیا۔ جی ایچ کیو میں فارمیشن کمانڈروں کی میٹنگ کے موقع پر نوجوان فوجی افسروں نے جس ردِعمل کا مظاہر ہ کیا تھاجنرل یحییٰ اور ان کے حواریوں کو خطرہ پیدا ہو گیا کہ اگر نچلے درجے کے افسران کے جذبات کا احترام نہ کیا گیا تو خونی انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔ یہاں بھی جرنیل شاہی نے اپنا مفاد دیکھا۔ اسے معلوم تھا کہ اگر نچلے درجے کے فوجی افسران نے بغاوت کی تو جی ایچ کیو کا مرکزی گیٹ پھانسی گھاٹ کا منظر پیش کرے گا۔ لہذا بھٹو صاحب کو بیرون ملک سے بلوایا گیااور جنرل گل حسن سمیت سینئر جرنیلز نے ان سے ملاقات میں درخواست کی کہ وہ ملک کی قیادت سنبھالیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلزپارٹی ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں مغربی پاکستان سے قومی اسمبلی کی دو تہائی سے زیادہ نشتیں جیت چکی تھی۔ پنجاب اور سندھ کی صوبائی اسمبلیوں میں بھی ان کی واضع اکثریت تھی۔ انہوں نے بطور صدر پاکستان اور سول مارشل لأ ایڈمنسٹریٹرحلف اٹھایا۔ ذوالفقار علی بھٹو سنٹرل لبرل خیال کے باشعورعوامی رہنما تھے۔ ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ بھٹو ہی تھے جنہوں نے اس وقت کے مغربی پاکستان میں بالادست طبقات اور فوجی اشرافیہ کے ہنی مون کو چیلنج کیا۔ بھٹو پہلی بار صدر سکندرمرزا کی کابینہ میں بطور وفاقی وزیر شامل ہوئے۔ کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان اس کابینہ میں وزیر دفاع تھے۔ یہ فوج کی ملکی سیاست میں پہلی باقاعدہ انٹری تھی۔ بعدازاں وزیرِ دفاع نے اپنے صدر کوچلتا کیا اور ریاست کا کُلی اقتدار فوج کو مل گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو،ایوب خان کے ساتھ سکندر مرزا کی کابینہ میں رہے تھے۔ ایوب خان نوجوان بھٹو کی صلاحیتوں کے معترف تھے۔ انہوں نے بھٹو کو اپنی کابینہ میں شمولیت کی دعوت دی ۔ یوں بھٹو صاحب کی سیاست کا دوسرا دور شروع ہوا۔ اگلے مرحلے میں جب ایوب خان نے کنونشن لیگ بنائی تو بھٹو صاحب اس کے سیکرٹری جنرل بنے۔ مگراصل شہرت انہیں پاکستان کے نوجوان وزیرِ خارجہ کی حیثیت سے ملی۔
بھٹو صاحب نہ تو تنگ نظر مسلمان تھے اور نا ہی کوئی نظریاتی سوشلسٹ ۔ وہ ہر دو نظام اسلام اور سوشلزم کے سیاسی مرکب سے اسلامی سوشلزم کا تصور لے کرآئے۔ ان کے اس تصورکو مقبولیت اس لئے ملی کہ 14 اگست 1947ء یا پھر قائداعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد سے پاکستان میں بالادست طبقات اور سول ملٹری اشرافیہ کی ساجھے داری سے پنپتے نظام سے عوام الناس کو کچھ نہیں مل پایا تھا۔ بطور وزیرِ خارجہ انہوں نے پاکستان کے لئے اقوام کی برادری میں باوقار مقام حاصل کرنے کے لئے جو خدمات سرانجام دیں اس سے اس وقت کے مغربی پاکستان کے پڑھے لکھے نوجوان بہت متاثر تھے۔ ایوب خان سے اپنے اختلافات کی بدولت ان سے الگ ہوئے اور عملی سیاست میں بھرپور شرکت کے لئے روشن خیال نظریات کی بنیاد پر پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی۔اسلام ہمار دین ہے۔ سوشلزم ہماری معیشت اور طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں کے سلوگنز نے مجبورو محکوم طبقات میں روح پھونک دی اور دیکھتے ہی دیکھتے او مغربی پاکستان کے حقیقی بڑے عوامی رہنما کے طور پر ابھر کرسامنے آئے۔ بھٹو صاحب پر مشرقی پاکستان کے سانحہ میں ملوث ہونے کا الزام لگانے والے نجانے کیوں یہ بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے شیخ مجیب الرحمان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کرنے کا فقط عندیہ ہی نہیں دیا تھا بلکہ اس کے لئے عملی کوششیں بھی کیں۔ مگرتاحیات صدر اور کمانڈر انچیف رہنے کے خواہش مند جنرل آغامحمد یحییٰ خان جس سول وملٹری بیورکریسی کے نرغے میں تھے وہ ٹولہ پاکستان کو اپنے پرکھوں کی جاگیر سمجھتا تھا۔ جو انہیں ملکہ برطانیہ نے عطا کی تھی۔ایوب خان کے دور میں ایک منظم منصوبے کے تحت بنگالیوں کو بزدل، چھوٹے قد والے، عقل سے کورے کہا جاتا رہا۔ تاریخی قومیت سے محبت تو لیاقت علی خان کے دور سے ہی جرم تھی لہذا فوج کے اندر ہمیشہ سے یہ تصور رہا (اور آج بھی بدرجہ اتم موجود ہے) کہ بنگالی، سندھی، سرائیکی، پنجابی، پشتون اور بلوچ قومیت کی بات، حقوق کا مطالبہ اور اپنے قومی تشخص پر فخراسلام اور نظریۂ پاکستان سے غداری ہے۔
یہ وہ ذہنیت تھی جس نے فوجی قیادت کو معاملات مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی سنجیدہ کوششوں میں حصہ ڈالنے کی بجائے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کرنے پر آمادہ کیا۔اس آپریشن کے نتائج سقوطِ مشرقی پاکستان کی صورت میں برآمد ہوئے۔ بدقسمتی سے بھٹو صاحب نے سانحہ مشرقی پاکستان کی تحقیقات کرنے والے حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ کو شائع نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کا خیال تھا کہ اس رپورٹ کے شائع ہونے سے فوج کا مورال کم ہوگا۔ تاریخ اور سیاسیات کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میری آج بھی یہ رائے ہے کہ بھٹو صاحب کو حمودالرحمٰن کمیشن کی رپورٹ شائع کروانی چاہیے تھی تاکہ جماعت اسلامی اور اس کے ہمنوا بھونپھوں کے اس منظم پروپیگنڈے کاتدارک ہو سکتاکہ سقوط مشرقی پاکستان میں بھٹو کا بھی کردار تھا۔ بھٹو صاحب کے اقتدار میں آنے 1977ء کے مارشل لأ کے گیارہ برس اور پھر آج تک مذہبی طبقات اور جرنیل شاہی کے پاپوش بردار جھوٹ کی ناؤ چلانے میں مصروف ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے روشن خیال ترقی پسند اور سنٹرل لبرل نظریات کے حامل اہلِ دانش نے بھی اس موضو ع پر کام نہیں کیا محض نعرے بازی سے بھری چند تحریریں رجعت پسندوں کے منظم پروپیگنڈے کا توڑ نہیں ہوسکتیں۔
اقتدار کے لئے جو پاکستان بھٹو صاحب کو ملا وہ سرزمینِ بےآئین تھا۔1956ء کے آئین کو ایوب خان نے روندا تھا۔ ان کے بنائے صدارتی نظام والے 1964ء کے دستور کو جنرل یحییٰ خان نے مارشل لأ نافذ کرتے وقت کوڑے دان میں پھینک دیا ۔ انہوں نے اپنے بنائے ہوئے لیگل فریم ورک آرڈر (ایل ایف او) سے امورِ مملکت چلائے۔ ون یونٹ اسی آرڈر سے ختم ہوا۔ صوبے بحال ہوئے۔ پرانی ریاستیں صوبوں کا حصہ قرار پائیں۔ جیسے ریاست بہاولپور پنجاب کا، سوات سرحد کا،قلات بلوچستان کا، 1970ء کے انتخابات بھی اسی لیگل فریم فرک آرڈر کے تحت ہوئے تھے۔ سو جن حالات میں بھٹو صاحب نے اقتدار سنبھالاتھا اس میں تین کام بہت اہم تھے۔ اولاََ بھارت کی قید میں پڑے 90ہزار پاکستانیوں کی وطن واپسی، دوئم تباہ حال ریاستی ڈھانچے کی ازسرِ نو تعمیراور سوئم ملک کے لئے ایک متفقہ جمہوری پارلیمانی آئین۔ بلاشبہ انہوں نے تینوں کام تندہی اور فراست سے سر انجام دیئے اور محض دو برسوں میں نہ صرف پاکستان کو آئین مل گیا بلکہ بھارت سے موجودہ پاکستان کے سرحدی تنازعات طے ہوئے، جنگی قیدی وطن واپس آئے۔ تباہ شدہ سول و ملٹری ڈھانچے کو انہوں نے جدید خطوط پر استوار کیا۔ اس کے باوجود پاکستان کے مذہبی حلقے خصوصاََ جماعت اسلامی ان کے خون کی پیاسی رہی۔ جماعت اسلامی کے ہم خیال صحافیوں نے اپنے اخبارات کا جرائد کا مذہبی فریضہ یہ طے کر لیاکہ ہر حال میں بھٹو، ان کے خاندان اور پیپلز پارٹی کو اسلام کے لئے خطرہ بنا کر پیش کرناہے۔ اور وہ اس میں کامیاب بھی رہے۔
اسلامی صحافت کے علمبرداروں کے جرائد میں بھٹو صاحب کی والدہ مرحومہ کے لئے جو توہین آمیز الفاظ لکھے گئے ویسے الفاظ بازارِ حسن میں پیدا ہونے والے بھی اپنے محلے کی عورتوں کے لئے استعمال نہیں کرتے۔ لیکن اگر ہم مسلمانوں کی تاریخ جسے ہمارے یہاں اسلام کی تاریخ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے (جو کہ صریحاََغلط ہے)کو دیکھیں تو پوری تاریخ اس تلخ حقیقت سے عبارت ہے کہ حکمران طبقات نے اپنے مخالفین کے لئے اور مخالفین نے حکمرانوں کے لئے کیا زبان استعمال کی۔عباسی اور مصر کے فاطمی حکمرانوں کو ہی لے لیں۔ دونوں نے ایک دوسرے کے شجروں پر رکیک حملے کئے۔ اموی حکمرانوں نے بنوہاشم اور آلِ فاطمہؑ کے بارے میں جو زبان استعمال کی وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ اسی تاریخ کے خمیر سے گندھے ہندوپاک کے مسلمان بھلا کہاں پیچھے رہنے والے تھے۔ بھٹو صاحب کو گھاسی رام کہا لکھا گیا۔اسلامی صحافت و اقدار کے علمبرداروں نے تو یہاں تک لکھا جب جنرل ضیاء الحق نے مارشل لأ لگایا اور بھٹو کو قتل کے مقدمے میں جیل بھیجا گیا تو ان کے طبی معائنہ میں انکشاف ہوا ’’ذوالفقارعلی بھٹو کی مسلمانی نہیں ہوئی ہوئی تھی‘‘۔ اس بے پر کی کے ساتھ گھاسی رام والا فلسفہ پھر جوڑا گیا۔ مجھے شاہی قلعہ میں اکثر حیرانی ہوتی تھی جس بھٹو نے فوج کو اپنے چند ساتھیوں کی شدید مخالفت کے باوجود دوبارہ سے منظم کروایا، بھرپور وسائل فراہم کئے۔ ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی شاہی قلعہ میں موجود تفتیشی فوجی افسران اس بھٹو کا ذکر اتنی نفرت و حقار کے ساتھ کرتے تھے جیسے بھٹو پاکستان کے نہیں بھارت کے وزیرِاعظم رہے ہوں اور انہیں جنگی قیدی کے طور پر سزائے موت دی گئی ہو۔
جاری ہے۔۔۔
پچھلی اقساط پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn