Qalamkar Website Header Image

دھوپ کو ضد ہے ہر اک پھول کی خوشبو سوکھے

دھوپ کو ضد ہے ہر اک پھول کی خوشبو سوکھے
گلستانوں کی دعا ہے،لبِ بد خُو سوکھے

خاک اور صبر کا رشتہ بھی عجب رشتہ ہے
لاش مٹی میں گئی آنکھ سے آنسو سوکھے

کِھلنے والوں کا مقدر کہ سرِ دشت کھلے
سوکھنے والوں کی قسمت کہ لبِ جُو سوکھے

دھوپ سے بڑھ کے تھی اس تشنہ لبی کی تبخیر
خون میں تر جو ہوئے حلق سے چاقو سوکھے

پی گیا کون سا سورج میرے تھل کا پانی
کال ہی کال ہے دھرتی پہ ہیں ہر سُو سوکھے

دور تک نہر کے چہرے پہ دراڑیں آئیں
ایک درویش نے بس اتنا کہا” تُو "سوکھے

حسبِ خیرات پہ تھی حسبِ ضرورت کی نظر
باٹ بھیگے ہوئے تھے اور ترازو سوکھے شاعر حسنین اکبر

Views All Time
Views All Time
1607
Views Today
Views Today
2
یہ بھی پڑھئے:  اس راہِ شوق میں میرے ناتجربہ ِشناس

حالیہ پوسٹس

حسنین اکبر - شاعر

وہ جنگ کر رہے تھے رسالت مآبﷺ سے

منسوب رہ کے مدحِ شہِ بوترابؑ سے خود کو بچا رہا ہوں خدا کے عذاب سے صدیاں جُڑی ہوئی ہیں ترے انقلاب سے سب نے دیے جلائے ہیں اس آفتاب

مزید پڑھیں »