دھوپ کو ضد ہے ہر اک پھول کی خوشبو سوکھے
گلستانوں کی دعا ہے،لبِ بد خُو سوکھے
خاک اور صبر کا رشتہ بھی عجب رشتہ ہے
لاش مٹی میں گئی آنکھ سے آنسو سوکھے
کِھلنے والوں کا مقدر کہ سرِ دشت کھلے
سوکھنے والوں کی قسمت کہ لبِ جُو سوکھے
دھوپ سے بڑھ کے تھی اس تشنہ لبی کی تبخیر
خون میں تر جو ہوئے حلق سے چاقو سوکھے
پی گیا کون سا سورج میرے تھل کا پانی
کال ہی کال ہے دھرتی پہ ہیں ہر سُو سوکھے
دور تک نہر کے چہرے پہ دراڑیں آئیں
ایک درویش نے بس اتنا کہا” تُو "سوکھے
حسبِ خیرات پہ تھی حسبِ ضرورت کی نظر
باٹ بھیگے ہوئے تھے اور ترازو سوکھے شاعر حسنین اکبر
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn