Qalamkar Website Header Image

دھوپ کو ضد ہے ہر اک پھول کی خوشبو سوکھے

دھوپ کو ضد ہے ہر اک پھول کی خوشبو سوکھے
گلستانوں کی دعا ہے،لبِ بد خُو سوکھے

خاک اور صبر کا رشتہ بھی عجب رشتہ ہے
لاش مٹی میں گئی آنکھ سے آنسو سوکھے

کِھلنے والوں کا مقدر کہ سرِ دشت کھلے
سوکھنے والوں کی قسمت کہ لبِ جُو سوکھے

دھوپ سے بڑھ کے تھی اس تشنہ لبی کی تبخیر
خون میں تر جو ہوئے حلق سے چاقو سوکھے

پی گیا کون سا سورج میرے تھل کا پانی
کال ہی کال ہے دھرتی پہ ہیں ہر سُو سوکھے

دور تک نہر کے چہرے پہ دراڑیں آئیں
ایک درویش نے بس اتنا کہا” تُو "سوکھے

حسبِ خیرات پہ تھی حسبِ ضرورت کی نظر
باٹ بھیگے ہوئے تھے اور ترازو سوکھے شاعر حسنین اکبر

یہ بھی پڑھئے:  بہت قریب سے آئی ہوائے دامنِ گُل

حالیہ بلاگ پوسٹس

وہ جنگ کر رہے تھے رسالت مآبﷺ سے

منسوب رہ کے مدحِ شہِ بوترابؑ سے خود کو بچا رہا ہوں خدا کے عذاب سے صدیاں جُڑی ہوئی ہیں ترے انقلاب سے سب نے دیے جلائے ہیں اس آفتاب

مزید پڑھیں »

حسین ع کا ہے پسر اور حسن ع کی زینت ہے

حسین ع کا ہے پسر اور حسن ع کی زینت ہے جبینِ زینِ عبا ع پنجتن کی زینت ہے اے دوست کھل کے عزا خانے کی زمین پہ بیٹھ یہ

مزید پڑھیں »

ایک بستی رات دن جس کا مقدر آفتاب 

ایک بستی رات دن جس کا مقدر آفتاب روشنی در روشنی جیسے بہتر آفتاب دھوپ میں ماتم کے عادی ہیں ہمیں کیا خوف ہو کیا سوا نیزے پہ ہو گا

مزید پڑھیں »