جو نعمتیں ، فضیلتیں، رفعتیں حضراتِ حسنین کریمین علہم السلام کے حصے میں آئیں وہ کسی اور کے حصے میں نہ آسکیں۔ باپ، رسولِ خدا ؐ کا وصی، ماں رسولِ خداؐ کی دخترِ نیک اختر، دادا محافظِ نبوت۔ دادی، رسولؐ جسے اپنی ماں کا درجہ دیں۔ نانی محسنۂ اسلام۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ دوشِ نبوتؐ کے سوارہیں حسنین کریمینؑ ۔ مرتبے گھٹائے نہیں گھٹتے۔ دفتر کے دفتر لکھ ڈالے جائیں تو بھی اس واحد فضیلت کا مقابلہ ممکن نہیں کہ خود سرورِ کونینؐ فرماتے ہیں ’’حسنؑ و حسینؑ میری بیٹی کے بیٹے ہیں ۔ میرے بیٹے ہیں‘‘۔ ابن عباسؓ فرماتے ہیں رسولِ اکرمؐ حسنؑ بن علیؑ کو کاندھے پر سوار کرائے مدینہ کے بازار سے گزرے تو ایک شخص نے کہا’’لڑکے!تجھے خوب سواری ملی‘‘ رسولِ اکرمؐ نے مسکراتے ہوئے فرمایا ’’سوار کو بھی دیکھو وہ بھی خوب ہے‘‘۔حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں حسن ؑ گفتگو کرتے تو ایسا لگتا کہ جنابِ رسولِ خداﷺ گفتگو فرما رہے ہیں۔ جمالِ مصطفی ؐ، کلامِ علیؑ اورصبرِ فاطمہ ؑ کا شاہکار تھے امام حسن مجتبیٰ ؑ ۔
حسن ؑ بن علیؑ بن ابوطالبؑ بن عبدالمطلبؑ بن ہاشمؑ ۔ پہلا نام ’’حرب‘‘ رکھاگیا۔مسند احمد بن حنبل میں امام علیؑ سے روایت ہے کہ ہمارے ہاں پہلا بیٹا پیدا ہوا تو ہم نے حرب نام رکھا۔ کچھ دیر بعد رسول مقبولؐ ہمارے گھر تشریف لائے اور بولے علیؑ لاؤ تو میرے بیٹے کو میں دیدار کروں اس کا۔ کیا نام رکھا ہے؟ میں نے کہا یارسول اللہؐ!حرب نام رکھا ہے۔ رسولِ خداؐ نے فرمایا میرے اس بیٹے کا نام حسنؑ ہے۔ بعض کتب میں اولین نام حمزہ بھی موجود ہ ہے مگر زیادہ روایات حرب کے نام کی ہیں۔ اوریہ حضور اکرمؐ نے حسن نام رکھا۔ صرف نام نہیں رکھا بلکہ اذان مبارک بھی نومولود کے کانوں میں خود دی۔ 15 رمضان المبارک3ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ گلشنِ فاطمہ ؑ کے پھول نے 47 بہاریں دیکھیں۔ صفر 50 ہجری میں زہر دیئے جانے سے شہید ہوگئے۔ معروف کنیت ابو محمد تھی۔ امام حسنؑ نے چار عقد کئے۔8 صاحبزادے اور 7 صاحبزادیاں تھیں۔ تواریخ کی بعض کتب میں امام حسن علیہ السلام کی شادیوں کے حوالے سے گھڑی گئی کہانیوں کے راوی کہانیاں تو بیان کر گئے لیکن ان کہانیوں کی صداقت کی تصدیق نہ تو کبھی صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے کی اور نہ ہی آلِ فاطمہؑ نے۔ کردار کشی سے عبارت شادیوں کے فسانے مجہول النسب سیف بن عمر تمیمی نے گھڑے اور یہ لگ بھگ 125ہجری میں یعنی شہادت امام حسن ؑ کے 75 سال بعد پیدا ہوا۔سیف بن تمیمی عمر کو اس کے مجہول نسب اور دروغ ہونے کی بنیاد پراس دور کے فقہأ نے زندیق قرار دیا۔عجیب بات ہے کہ مسلمانوں کا ایک طبقہ اس زندیق کی گھڑی ہوئی کہانیوں اور امام حسنؑ کی شادیوں کے قصے نہ صرف روایت کرتا ہے بلکہ منبروں پر بیان بھی کرتا ہے۔وقتِ بیان یہ بھلا دیا جاتا ہے کہ امام حسن مجتبیٰ ؑ کے بارے خود رسالت مآبؐ کا ارشاد موجود ہے۔ میرا بیٹا حسنؑ حیا وپاسداری کا ’’امین ‘‘ہے۔
آغوشِ رسالتؐ کے تربیت یافتہ گلشنِ فاطمہؑ کے اس چاند کے ساتھ دوہرا ظلم ہوا۔ بیگانوں نے جی بھر کے کردار کشی کی اور اپنوں نے نظر انداز کیا۔ تین رشتوں سے علم وزہد، سخاوت ومسکین پروری ورثے میں پانے والے امام حسن مجتبیٰ ؑ شہادتِ امام علیؑ کے بعدمسلمانوں کے پانچویں خلیفہ منتخب ہوئے۔ امام علیؑ کی جمہوری خلافت کے باغی حاکم شام امیر معاویہؓ نے یہ کہہ کر آپؑ کی خلافت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیاجس کے باپ کی خلافت ہم نے نہیں مانی اس کے بیٹے کی خلافت کیسے تسلیم کرلیں؟ مسلمانوں کے خلیفہ اور حاکم شام کے درمیان جنگوں سے پیدا ہونے والے مسائل اور لوگوں کا دین پر دنیا پر تقدم دینے کے رجحان کو دیکھتے ہوئے حاکم شام سے اپنی شرائط صلح کر لی اور خلافت سے دستبردار ہو گئے۔ فریقین میں ہوئے معاہدہ کے دو نکات بہت اہم ہیں۔ اولاََ یہ کہ حاکم شام اپنے بعد کسی کو خلیفہ نامزد نہیں کرے گا۔ بلکہ جمہور مسلمانوں کی ایک نمائندہ جماعت خلیفہ کا انتخاب کرے گی۔ ثانیاََ یہ کہ اس وقت کی مملکت شام کی حدود میں امام علیؑ پر کئے جانے والے سب وشتم کا سلسلہ روک دیا جائے گا۔ افسوس کے حاکمِ شام نے معاہدہ کے دو بنیادی نکات کی صریحاََ خلاف ورزی کی۔ان کے دورِ اقتدار میں نہ صرف منبروں سے امام علیؑ پر سب و شتم کا سلسلہ جاری رہا بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر بسربن ارطا نامی اپنے کمانڈر کی قیادت میں حاکم شام نے 500 سواروں کا خصوصی دستہ قائم کیا جو عراق، یمن، حجاز اور دوسرے علاقوں میں امام علیؑ کے حامیوں کی’’ گرفت ‘‘کرتا رہا۔اپنے بعد خلیفہ نامزد نہ کرنے کی شرط کی بھی خلاف ورزی کی اور اپنی زندگی میں ہی اپنے بیٹے یزید کو خلیفہ نامزد کر دیا۔
خلافت سے دستبردار ہونے کے بعد امام حسن مجتبیٰ ؑ کوفہ سے اپنے خاندان اور دیگر ہاشمی خاندانوں کے ہمراہ واپس مدینہ منورہ چلے گئے۔ اگلے دس برسوں(جب تک آپ زندہ رہے)آپ ؑ نے وعظ و تلقین کو مقصدِ حیات بنائے رکھا۔ اس دوران آپ کی آنکھوں کے سامنے آپ کے والدِ گرامی امام علیؑ کے بارے مسجدِنبوی ﷺکے منبر سے نازیبا کلمات کہے جاتے رہے۔ ایسے ہرموقع پر آپ نے شجاعتِ حیدری ؑ کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف بدزبان کو ٹوکا بلکہ بھرپور انداز میں والد گرامی کا دفاع کیا۔ ایسے ہی ایک موقع پرامام حسن مجتبیٰ ؑ نے فرمایا ’’لوگو! یاد کرو تم پست تھے میرے نانا جان نے تمہیں بلند کیا۔ تم جاہلیت کے گرداب میں نسل در نسل پھنسے ہوئے تھے میرے نانا نے تمہیں شرفِ انسانیت سے منور کیا۔تم بھائیوں کا خون بہانے پر فخر محسوس کرتے تھے میرے نانا نے تمہیں اعلیٰ اخلاقی اقدار سے روشناس کرواتے ہوئے تعلیم دی۔ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ وائے ہو تم پر آج تمہارے سامنے تمہارے نبی مکرم حضرت محمدؐ کے وصی برحق اور میرے بابا علیؑ کے بارے بدزبانی کی جاتی ہے تو تم خاموشی سے سنتے ہو تاکہ حاکمِ وقت تم سے ناراض نہ ہو جائے۔ کیا خدا اوراس کے صادق رسوالؐ کی ناراضگی کا درجہ تمہارے دنیاوی حاکم سے کم ہے‘‘؟ ایک اور موقع پر امام حسن مجتبیٰ ؑ نے ارشاد فرمایا’’لوگو! یادرکھوجس نے حلف توڑا اس کا ٹھکانہ جہنم اور اثاثہ دنیا کی رسوائی ہے۔ تم میں سے بہترین انسان وہ ہے جو اپنے قول کو نبھانے کے لئے زندگی قربان کر دے مگر حلف پر آنچ نہ آنے دے‘‘۔ وقتِ آخر اپنے برادرِ عزیز امام حسین ؑ کومخاطب کر کے فرمایا ’’ اے میری ماں جائے! عنقریب آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ دنیا آپ کو رسول اللہ کی قرابت سے ستائے گی۔ میرے بھائی صابروشاکر رہنا اور عدل الٰہی کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنا‘‘۔ امام حسن مجتبیٰ ؑ کے جنازے کو مرقدرسولﷺ کے پاس لایا گیا تو بنوامیہ کے وظیفہ خواروں نے جنازے کے جلوس پر حملہ کر دیا۔ اس دل گرفتہ لمحے میں بھی ان کے برادرِ عزیز امام حسین علیہ السلام ثابت قدم رہے اور کہا،’’خدا کی قسم اگر مجھے اپنے بھائی کی وصیت کا پاس نہ ہوتاتوتم دیکھتے فاطمہؑ کے چاند کی تلوار تم سے کیامعاملہ کرتی ہے‘‘۔
امام حسن مجتبیٰ ؑ فرماتے ہیں’’زندگی کا تعاقب منزلِ حقیقی سے دور کر دیتا ہے‘‘۔’’عدل الٰہی سب سے بڑی نعمت ہے‘‘۔’’قتل کرنے سے بڑی بہادری معاف کر دینا ہے‘‘۔’’علم جیسی دولت دنیا میں اور کوئی نہیں‘‘۔’’قرابت داروں میں انصاف گھر کا سکون ہے‘‘۔’’مال جمع کرتے رہنے والے کبھی سکون نہیں پاتے‘‘۔’’انسان بولتا ہے تو نسب کلام کرتا ہے‘‘۔’’کج فہم کبھی سکون نہیں پاتے‘‘۔’’جس نے اپنے نفس کو فتح کیا اس نے خالقِ حقیقی کا قرب پا لیا‘‘۔’’افضل ترین عبادت حقداروں تک حق پہنچانا ہے‘‘۔امام علیؑ کی شہادت کے بعد کوفہ سے مدینہ منتقلی کے بعد امام حسنؑ وعظ و نصیحت اور مساکین پروری کو ہمہ وقت مقدم سمجھتے ۔ مدینہ بھر میں ان کا دستر خوان بہت مشہور تھا۔ متعدد ملازمین ہمہ وقت مدینہ کی حدود سے باہر کے راستوں پر مدینہ آنے والے مسافروں کو امام حسنؑ کی جانب سے میزبانی کی دعوت کی پیش کرتے۔ سبطِ مصطفیؐ حضرت امام حسنؑ اپنےنانا کی ہوبہو تصویر تھے۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں ’’وفات رسول ﷺ کے بعد ہمیں جب دیداررسولﷺکی خواہش ہوتی تو ہم حسن ؑ بن علیؑ کے حضور پہنچ جاتے۔ گھنٹوں ان کے ساتھ رہتے ان سے کلام کرتے۔ ہمیشہ ایسا لگتا کہ ہم جناب رسول ﷺ کی محفل میں بیٹھے ہیں‘‘۔امام حسن علیہ السلام فرماتے ہیں’’حق یہ ہے کہ انسان خدا کی رضا کے لئے ثابت قدمی کامظاہرہ کرے‘‘۔ ’’ناتواؤں کی داد رسی ظالموں کا راستہ روکنا ہے‘‘۔ دم آخر اپنے صاحبزادگان اور صاحبزادیوں سے فرمایا’’تمہیں رب العالمین کے سپر دکرتا ہوں اور اپنے بھائی حسین کے جو میرے بابا کی طرح شجاع، اماں جان کی طرح حلیم اور نانا جان کی طرح شفیق و دلنواز ہے‘‘۔ایک موقع پر مسجد نبویؐ میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’لوگو! بہت جلد بھول گئے اپنے ان اعلانوں اور وعدوں کو جو تم میرے ناناجانؐ کی موجودگی میں کرتے تھے۔ کہاں گئے تمہارے وہ اعلانات کہ یارسول اللہؐ ہمارا سب کچھ آپ پر قربان۔ آج تمہارے سامنے خاندانِ رسالت پر طرح طرح کی باتیں ہوتی ہیں او ر تم چپ رہتے ہو‘‘۔امام حسن مجتبیٰ ؑ فرماتے ہیں’’الٰہی نعمتوں کا دروازہ کسی پر بندنہیں ہوتا۔ حقِ بندگی یہ ہے کہ انسان اپنے رب کا شکر ادا کرتا رہے اوراللہ کی مخلوق کی ڈھال بنا رہے‘‘۔ گلشنِ فاطمہؑ کے آفتاب کا ارشادہے’’ہرلمحہ اپنے رب سے ملاقات کی تیاری میں رہوتاکہ بلاوا آئے تو تمہیں دنیا سے رخصت ہونے کا ملال نہ ہو‘‘
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn