مئی کے آخری ہفتے کے دوران افغان دارالحکومت کابل میں آگ و خون کا جو کھیل شروع ہوا تھا وہ لمبی مسافت کے بعد ہرات جاپہنچا۔ ہرات کی مرکزی جامع مسجد کی پارکنگ میں ہونے والے دھماکے سے پندرہ نمازی شہید اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ ہرات ایران کی سرحد پر واقع شہر ہے۔ دہشت گردی کی یہ واردات اس وقت ہوئی جب کابل میں امن کانفرنس جاری تھی۔ افغان صدر اشرف غنی نے منگل کے روز کابل میں منعقدہ امن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ”پاکستان نے غیرعلانیہ جنگ مسلط کررکھی ہے‘ ہمیں سمجھ میں نہیں آرہا کہ اسلام آباد ہم سے کیا چاہتا ہے‘ اشرف غنی نے طالبان کو ایک بار پھر مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کابل میں دفتر کھولنے کی پیشکش بھی کردی“۔ جوابی طور پر پاکستان میں کورکمانڈرز کانفرنس کے بعد آئی ایس پی آر کے جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے ”افغانستان الزامات کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکے‘ کابل اپنے اندر موجود مسائل کے حل کے لئے اقدامات کرے‘ دہشت گردی کے خلاف تعاون جاری رکھیں گے“۔ ہرات کی جامع مسجد کی پارکنگ میں ہونے والے دھماکے کی طالبان‘ حقانی گروپ یا داعش میں سے کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی (ان سطور کے لکھے جانے تک) اس بات پر کوئی اچنبھا نہیں کہ امن کانفرنس کے دوران ہرات سانحہ کی اطلاع ملتے ہی جناب غنی نے ابتدائی تحقیقات کا انتظار کئے بغیر پاکستان پر الزام دھر دیا۔ کیا عجیب بات ہے کہ اپنے صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلہ کی صورتحال کے ازالے کے لئے وہ اسی پاکستان سے بھرپور تعاون کے طلبگار ہوئے تھے جو ان کے خیال میں افغان مسائل کا ذمہ دار ہے۔ یاد پڑتا ہے کہ ان کے ایک نمائندے نے ان دنوں اسلام آباد میں کہا تھا ”عبداللہ عبداللہ کے بجائے میرے ساتھ کام کرنا پاکستان کے لئے زیادہ آسان ہوگا“۔ اب کیا ہوا یہ وہ زیادہ بہتر بتاسکتے ہیں البتہ میں یہ عرض کروں کہ طالبان نے ان کی جانب سے مذاکرات کی آخری پیشکش اور کابل میں دفتر کھولنے کی دعوت دونوں کو مسترد کردیا ہے۔ وجہ اشرف غنی جانتے ہیں۔ وہ لاکھ انکار کریں مگر کڑوا سچ یہ ہے کہ جب وہ کابل کے قصائی کے طور پر شہرت پانے والے گلبدین حکمت یار کے استقبال کی تیاریاں کررہے تھے تو مُلا اخوندزادہ کے ایک نمائندے عبدالرحیم نے ان تک پیغام پہنچا دیا تھاکہ ”حکمت یار سے دوستی کو طالبان کے خلاف نیا اعلان جنگ تصور کیا جائے گا“۔
پچھلے کچھ عرصہ سے افغان حکومت کو بدترین حالات کا سامنا ہے۔ ایک طرف طالبان ہیں تو دوسری طرف بھرپور عسکری قوت کی حامل داعش۔ دونوں کے درمیان میں کبھی کبھی ازبکستان اسلامی موومنٹ والے بھی واردات کرگزرتے ہیں۔ پھر چند پرانے وار لارڈز ہیں جن کا آج بھی دھندہ اغواءبرائے تاوان‘ کرائے کے مجاہدین فراہم کرنا اور منشیات کی سمگلنگ ہے۔ افغانستان میں دہشت گردی کی وارداتوں کے کھرے اپنے اندر ڈھونڈنے کے بجائے جھٹ سے پاکستان پر الزام تراشی دراصل پراکسی وار کا حصہ ہے۔ پراکسی وار کھیل غیرریاستی ایکٹروں کا ہے مگر دونوں طرف ذہن یہ ہے کہ اس کے پیچھے حکومتیں کھڑی ہیں۔ بہت ادب سے عرض کروں کسی حد تک یہ بات درست بھی ہے۔ اگر پاکستان میں کوئٹہ شوریٰ اور حقانی گروپ کے اثاثے ہیں تو افغانستان میں مُلّا فضل اللہ نورستان میں مقیم ہیں اور شیخ الحدیث خالد حقانی بارے اطلاع ہے کہ وہ کابل کے مضافات میں اہلیہ اور بچوں سمیت آرام فرما رہے ہیں۔ افغانستان کی اندرونی صورتحال میں واحد کھلاڑی پاکستان ہی نہیں ہے۔ ایران‘ بھارت اور روس کے علاوہ امریکہ بھی اپنے اتحادیوں سمیت موجود ہے۔ بدقسمتی سے جس طرح ہمارے یہاں کچھ لوگوں کی سوئی اس بات پر اڑی ہوئی ہے کہ افغانوں سے زیادہ احسان فراموش روئے زمین پر دوسرا کوئی نہیں بالکل اس طرح افغانستان میں بھی یہ سوچ موجود ہے کہ ہمارے تمام مصائب و آلام کا ذمہ دار پاکستان ہے۔ افغان آبادی کے تینوں بڑے طبقات پشتون‘ تاجک اور ازبک یہی سوچ رکھتے ہیں۔ تینوں پاکستان پر ڈبل گیم کا الزام لگاتے ہیں۔ الزام صحیح ہے یا غلط اس کی بحث بہت سوں کو ناگوار گزرے گی لیکن اگر ہم انقلاب ثور کے بعد سے اب تک کی افغان پالیسی کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لیں تو بہت سارے سوالات کا جواب گھر بیٹھے مل جائے گا۔ ویسے ڈبل گیم افغان حکومت کو بھی بہت مرغوب ہے۔ ماضی میں کرزئی کھیلتے رہے اب غنی و عبداللہ اسی راستے پر گامزن ہیں۔ چونکہ اپنی لسی کو کھٹا کوئی بھی ماننے کو تیار نہیں اسی لئے ہیجان بھی ہے‘ بداعتمادی بھی اور عسکریت پسندی کا بڑھاوا بھی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کرزئی تھے یا غنی و عبداللہ ہیں انہیں ایوان اقتدار تک پہنچانے میں اسلام آباد کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں مگر اب مطعون اسلام آباد ہی ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ افغانستان کے اندر داعش ایک منظم قوت کے طور پر ابھر رہی ہے۔ پچھلے چند مہینوں کے دوران طالبان اور حقانی گروپ سے چند کمانڈر مراجعت کرکے داعش میں گئے۔ یہاں ایک بات اور عرض کردوں وہ یہ کہ بلوچستان میں موجود جمعیت علمائے اسلام نظریاتی گروپ کے سرکردہ لوگ اور ان کے زیراثر مساجد و مدارس افغان طالبان کے پُرجوش حامی ہیں۔ نظریاتی گروپ کے لوگ جے یو آئی (ف) سے الگ ہوئے۔ بظاہر یہ علیحدگی مولانا فضل الرحمن سے قیادت و سیادت کے اختلافات پر ہے مگر اصل قصہ یہ ہے کہ نظریاتی گروپ باقاعدہ افغان طالبان کی امارت کا بیعت شدہ ہے۔ اس بیعت کو برحق قرار دیتے اس گروپ کے آئمہ مساجد آج بھی بلوچستان میں جہاد افغانستان کی تبلیغ اور ہمہ قسم کی اعانت کو واجبات شریعہ قرار دیتے ہیں۔ ثانیاً یہ کہ وقت آگیا ہے کہ ہمیں (یہاں ہم سے مراد ریاست ہے) بھی اپنی حکمت عملیوں‘ افغان پالیسی اور اس سے جڑے چند دوسرے معاملات پر ازسرنو غور کرنا ہوگا۔ یہی فہم افغان حکومت کی بھی ضرورت ہے۔ دو پڑوسی ملک کُٹی کرکے بیٹھے رہیں تو اعتمادسازی کیسے ہوگی۔ سچی بات یہ ہے کہ جہاں افغان حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر موجود پاکستانی طالبان کے دونوں گروپوں لشکر جھنگوی اور جنداللہ کے عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کرے وہیں پاکستان کی بھی ذمہ داری ہے کہ اپنی سرزمین پر ان عناصر کی سرکوبی کرے جو جہادسازی کے کاروبار میں مصروف ہیں۔ دونوں طرف کے قائدین کو جذباتی بیان بازی اور الزام تراشی کے بجائے ٹھنڈے دل کے ساتھ معاملات کا جائزہ لینا ہوگا۔ ایک عامل صحافی کی حیثیت سے مجھے شدید حیرانی بلکہ پریشانی ہے کہ 31مئی کے سانحہ کابل کے حوالے سے ٹھوس شواہد سامنے آنے کے باوجود کابل نے اسلام آباد پر الزام تو دھر دیا مگر سفارتی علاقے میں ہوئی دہشت گردی کی کارروائی میں استعمال ہوئے ٹرک کے لئے بھارتی سفارتخانے سے جاری ہونے والے پاس کے معاملے کو یکسر نظرانداز کردیا۔ افغان سیاست‘ حکومت اور طالبانائزیشن کے حوالے سے کام کرنے والے صحافیوں کی طرح اس عاجز کو بھی حیرانی ہے کہ اُدھر دہشت گردی کی واردات ہوئی اور فوراً الزام پاکستان پر۔ کیا دہشت گرد کارروائی سے قبل ٹیلیفون کرکے افغان حکومت کو اطلاع دیتے ہیں کہ ”لو جی ہم پاکستان سے آئے ہیں اور کام کرنے لگے ہیں؟“۔
پاکستانی صحافت کے مجھ ایسے طالب علم اپنی ریاست کی افغان پالیسی کے 1979ءسے ناقد ہیں۔ امریکہ کی قیادت والا عالمی جہاد ہو یا جنیوا معاہدے کی کوکھ سے پھوٹی خانہ جنگی بلکہ اس کے بعد کے معاملات میں بھی حد سے بڑی جذباتیت خود پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ عالمی جہاد کے دنوں میں پاکستان کی کچھ فرقہ پرست جماعتوں نے افغان سرزمین پر اپنے محفوظ ٹھکانے بنائے۔ 9/11 کے بعد حالات بدلے تو طالبان نے کچھ تعاون ضرور کیا مگر ان کے زیرتسلط علاقوں میں پاکستانی عسکریت پسندوں کے لئے راحت کا سامان ہوا۔ صورتحال اب بھی مختلف نہیں۔ لاریب افغان سرزمین پر نظام حکومت اور اس نظام کو چلانے کے لئے فیصلہ کا پہلا اور آخری حق افغان زمین زادوں کا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کی بنیاد پر یہ عرض کرتا رہا ہوں کہ افغان طالبان اور ان کے چند پاکستانی ہمنوا جسے جہاد قرار دے رہے ہیں یہ جہاد نہیں خانہ جنگی ہے۔ کیا طالبان اور ان کے حامی اس بات سے انکار کرسکتے ہیں کہ اشرف غنی کی صدارت کے لئے انتخابات کے دوسرے مرحلہ میں طالبان نے اپنے زیراثر علاقوں میں باقاعدہ غنی کو ووٹ ڈلوائے تاکہ عبداللہ عبداللہ دوسرے مرحلہ کے فاتح نہ بن پائیں؟ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر موجودہ افغان نظام یکسر کفریہ ہے تو کیا حلالے کے بغیر ہی غنی کی حمایت کی گئی تھی یا حلالے کی ضرورت بعد میں پیش آئی؟ افغان تنازع کے تمام اندرونی فریقوں کو سمجھنا ہوگا کہ اگر دیرپا امن اور تعمیروترقی کے نئے دور کے لئے کچھ قربانی بھی دینی پڑتی ہے تو یہ گھاٹے کا سودا ہرگز نہیں۔
بشکریہ خبریں ملتان
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn