Qalamkar Website Header Image
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

نون لیگی ”نابغے“ اور مضروب جیالے | حیدر جاوید سید

سوا تین توپوں کی سلامی اس نابغے کو جس نے حسین نوازشریف کے منہ میں یہ بات ڈالی کہ ”شریف خاندان کے ساتھ سابق وزیراعظم حسین شہید سہروردی جیسا سلوک ہورہا ہے“۔ کہاں راجہ پرہلاد اور کہاں طیفا تیلی (ترمیم کے لئے معذرت)۔ حسین شہید سہروردی متحدہ پاکستان کی سیاست کے ان چند تابندہ کرداروں میں سے تھے جن کا نام آتے ہی آج بھی تاریخ و سیاسیات کے روشن ضمیر طلباءکے سر احترام میں جھک جاتے ہیں۔ خاندانِ شریفیہ نے زندگی و تابندگی کے لئے ایسا کیا کیا؟ اس سوال پر فقط شرم سے سر جھکایا جاسکتا ہے۔ جانے دیجئے اس موضوع میں کچھ نہیں رکھا۔ ہم کوئی اور بات کرتے ہیں۔ نہال ہاشمی کا ذکر نہ کرلیں۔ تابڑتوڑ دھمکیوں کے بعد سینیٹری گئی تو گئی لیکن سپریم کورٹ میں کہہ رہے تھے ”جج صاحب مجھے روزہ لگا ہوا تھا“۔ ارے واہ یعنی لیگی روزہ دار حالتِ روزہ میں ہر واہی تباہی کو جائز سمجھتے ہیں۔ معاف کیجئے گا بات اتنی سادہ نہیں۔ نہال ہاشمی نام ہے جس کا سیاست کے پرانے پاپی کھلاڑی ہیں۔ مرحوم آفاق شاہد کے ساتھی کے طور پر پہلے پہل ان کی رونمائی ہوئی تھی۔ یہ غالباً 1980ءکے سال یا سال چھ ماہ پہلے کی بات ہے۔ بعد میں آفاق شاہد پیپلزپارٹی کو پیارے ہوئے اور نہال ہاشمی پگارا لیگ سے نون لیگ میں پہنچے۔ درمیان میں کچھ دن آزاد بن حیدر کے بستر بردار بھی رہے۔ وکیل کتنے اچھے ہیں اس بارے آپ کراچی کی عدالتوں کے ریڈروں سے دریافت کرلیجئے ایک منصف کا نام ضرور لکھتا جو ان کے خصائل سے واقف تھے مگر وہ اﷲ کے حضور روانہ ہوچکے اس لئے اب ان کا ذکر کیا کروں۔

نعیم نواز ہمارے دوست اور ایم کیو ایم کے ہمدرد ہیں ان کا کہناہے کہ چند دن قبل نہال ہاشمی نے الطاف حسین کی شان میں گستاخیاں کی تھیں اس لئے ستارہ گردش میں آنے کے ساتھ ٹوٹ بھی گیا۔ (پیرجی الطاف حسین لندن والے کی بات ہے) کچھ بھی ہے لیکن یہ طے ہے کہ وہ ایک پرانے سیاسی ورکر ہیں۔ سیاست کی اونچ نیچ کے ساتھ اداروں کی حدود‘ تقدس اور دیگر معاملات سے باخبر بھی۔ بس معصوم صورت ببلو میاں کو عدالتوں اور جے آئی ٹی میں رُلتے دیکھ کر جذبات پر قابو نہ رکھ سکے۔ بندہ جس کا کھائے اس کے گیت گانا واجبات زندگیہ میں شامل ہے۔ کراچی کے رہنے والے نہال ہاشمی کو نوازشریف نے پنجاب سے سینٹ کا رکن بنوایا تھا۔ نوازشریف ان کی شعلہ بیانی کے مداح تھے۔ (اب ہیں یا نہیں یہ وہی جانتے ہوں گے)۔ مشرف دور میں نہال ہاشمی زیادہ تر دیواری اشتہاری لیگی رہنما رہے۔ سندھ کی گورنری کےلئے وہ خود کو اہل ترین امیدوار سمجھتے تھے مگر ان کے ریکارڈ میں دو ”عظیم کارنامے“ آڑے آگئے۔ اب کارناموں بارے نہ پوچھ لیجئے گا۔ وہ جو سوشل میڈیا پر ہمارے یار انعام رانا نے کہاہے کہ تفصیلات کے لئے شاہ (یعنی ہم) سے رابطہ کریں۔ وہ والی بات رانے نے پرانا بدلہ چکانے کے لئے کہہ لکھ دی ہے۔ مجھے کیا معلوم نہال ہاشمی کون ہے بہار سے کب آیا‘ آفاق شاہد کے ساتھ کیسے نتھی ہوا‘ ویسے بھی پچھلے دو تین دن سے ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ 1990ءکی دہائی کے پہلے سال میں صحافیوں کا ایک وفد ایران کے دورہ پر گیا ان میں ایک ”خوبصورت“ ہاشمی صحافی بھی شامل تھے۔ ایران کے اس وقت کے صدر علی اکبر ہاشمی رفسنجانی نے صحافیوں کو ایوان صدر میں عشائیے پر مدعو کیا۔ مرکزی ہال میں ایرانی صدر کا پاکستانی صحافیوں سے تعارف کروایا جارہا تھا تو ہاشمی صحافی نے ایرانی صدر کو اپنا نام بتاتے ہوئے ہاشمی ذرا زور دے کر کہاکہ ایرانی صدر نے حیرت سے پاکستانی ہاشمی کو دیکھا اتنے میں ساتھ کھڑے ایک دوسرے پاکستانی صحافی نے ایرانی صدر علی اکبر ہاشمی رفسنجانی مرحوم سے کہا ”آغائے من ایں بنوہاشم افریقہ است“۔ ایوان صدر کا مرکزی ہال قہقہوں سے گونج اٹھا۔ واپسی پر پاکستانی ہاشمی نے اپنے ساتھی صحافی سے شکوہ کیاکہ آپ نے کیا بدتمیزی کی۔ جواب ملا ایرانی صدر نے اتنا ”خوبصورت“ ہاشمی پہلی بار دیکھا تھا مجھے ڈر لگ رہا تھا کہیں وہ ”دل پر نہ لے لیں یہ بات“۔

یہ بھی پڑھئے:  اک اور دوزخ کا سامنا تھا - گل نوخیز اختر

نہال ہاشمی کی ویڈیو دیکھ کر ایک نجیب الطرفین ہاشمی دوست شدید صدمے سے دوچار ہوئے۔ انہیں صدمے سے نکالنے کے لئے ایران والا واقعہ سنایا تو کچھ تسلی ہوئی ان کی۔ کراچی کی تقریر اور سپریم کورٹ میں کہے گئے چند جملے دونوں نہال ہاشمی کے پرموٹی ہونے کا ثبوت ہیں۔ کاش انہوں نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سینے پر ہاتھ مارکر سپریم کورٹ میں کہا ہوتا ”جج صاحب ہاں میں نے یہ سب کہا ہے میرے محبوب قائد اور اس کے خاندان پر جو بیت رہی ہے میں ایک کارکن کے طور پر اسے محسوس کرسکتا ہوں“۔ افسوس کا مقام یا موڑ کہہ لیں پر نہال ہاشمی بھیگی بلی بنے وضاحتیں دیتے رہے۔

نہال ہاشمی نے جو کچھ 28مئی کو کراچی میں کارکنوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا یہ مسلم لیگ (ن) کا اجتماعی ایمان ہے۔ یہی ریت پریت ہے اس جماعت کی۔ مخالفوں کی کردارکشی‘ دھمکیاں‘ عدالتوں پر حملے‘ سیاسی مخالفوں کے گھروں پر چڑھائی۔ ابھی چند دن قبل لاہور میں پیپلزپارٹی کے کارکنوں کی ایک محفل پر تقریباً ڈیڑھ دوسو نون لیگی برچھے حملہ آور ہوئے۔ شہزاد شفیع سمیت پی پی پی کے درجن بھر کارکن اس حملے میں زخمی ہوئے۔ کوئی ان زخمی جیالوں کی دادرسی کرنے والا نہیں۔ پولیس ایف آئی آر درج کرنے سے انکاری ہے۔ بھلا بادشاہ سلامت کے لشکریوں کے خلاف بھی قانون کبھی حرکت میں آیا؟ قانون تو منہ زوروں‘ زرداروں اور حکمرانوں کے گھروں میں وہی حیثیت رکھتا ہے جو شریعت کی مولوی کے گھر میں ہوتی ہے۔ یہ باتیں اپنی جگہ مگر ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ان سطور کے لکھے جانے تک خود پیپلزپارٹی پنجاب یا پارٹی مالکان میں سے کسی نے نون لیگ کی اس غنڈہ گردی پر احتجاج نہیں کیا۔ ہوسکتا ہے کہ پارٹی قیادت اپنے کارکنوں پر نونیوں کے حملے کو میثاق جمہوریت کے تناظر میں دیکھ رہی ہو۔ پاکستانی تاریخ کی کرپٹ ترین معاف کیجئے گا ایماندار ترین حکومت کے خلاف کسی زبانی یا عملی مہم کو پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت جمہوریت کے خلاف سازش سمجھتی کہتی آرہی ہے۔ سو شہزاد شفیع اور دوسرے مضروب جیالوں کی خدمت میں یہی عرض ہے کہ اپنی پارٹی کے مالکان کے نون لیگ سے این آر او پر احتجاج کریں۔

یہ بھی پڑھئے:  پاکستانی کشمیر کے انتخابی نتائج اور چند سوالات

ایک بار پھر اصل موضوع پر بات کرتے ہیں۔ نہال ہاشمی کو توہین عدالت کے نوٹس کی سماعت کرنے والے جج صاحبان نے جو ریمارکس دیئے ان پر حکومت کو اعتراض ہے۔ حکومتی ترجمان کہتے ہیں یہ ریمارکس معزز ججوں کے حلف اور ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہیں اس سے عالمی سطح پر ملکی وقار کو نقصان پہنچا۔ فقیر راحموں کے ایک دوست وقار برادری میں شامل ہیں اس نے ان سے پوچھا آپ تو پریشان نہیں؟ وہ بولے ہم کیوں ہوں گے۔ حکومتی ترجمان کے مؤقف پر واری صدقے۔ عالمی سطح پر ہم وقار کے کس درجہ پر فائز ہیں؟ اچھا کیا حکمران یا کسی بھی جماعت کے کارکنوں کو یہ حق ہے کہ وہ عدالتوں اور دیگر اداروں کے ذمہ داروں کو دھمکیاں دیں۔ بچوں پر ملک کی زمین تنگ کردینے کی بڑھکیں ماریں؟ جس ہذیان کا نہال ہاشمی نے مظاہرہ کیا وہ سیاسی اخلاق کی کس دفعہ کے تحت درست ہے؟ مکرر عرض ہے نہال ہاشمی نے سیاسی کارکنوں کا منہ کالا کروایا۔ اُڑ نہیں سکتے تھے تو پنگے لینے کی ضرورت کیا تھی۔ پنگا لیا تھا تو پرواز بھی کرتے۔ یہ بات معزز جج صاحبان کی سوفیصد درست ہے کہ نہال ہاشمی کی آواز میں کوئی اور بول رہا ہے البتہ یہ عرض کردینا ازبس ضروری ہے کہ معزز جج صاحبان! اگر آپ نے دانیال و طلال چودھریز‘ حنیف عباسی اور دوسرے نونیوں کے ساتھ خواجہ سعد رفیق کے عامیانہ جملوں کا نوٹس لے کر کارروائی کی ہوتی تو نوبت یہاں تک نہ آتی۔ مسلم لیگ (ن) کا پرانا وتیرہ ہے دھمکاؤ‘ ڈر جائے تو ٹھیک ورنہ پاؤں پڑکر معافی مانگ لو‘ نہال ایک سچا نونی ہے۔

بشکریہ خبریں ملتان

حالیہ بلاگ پوسٹس