پچھلے دو ہفتے کابل کے شہریوں کے لئے قیامت سے کم نہیں تھے۔ ساعت بھر کے لئے رک کر ایک بات پر غور کیجیئے۔ 1979ء کے انقلاب ثور پر عالمی استعمار اور اس کے شرقی و غربی گماشتوں کے حملے سے لے کر آج تک کے 38 برسوں کے دوران کابل ہی کیا پورے ہمسایہ برادر اسلامی ملک افغانستان نے سکھ کا کوئی پل دیکھا؟ پہلے جہاد ہوا۔ لاکھوں لوگ گھات ہوئے۔ پھر خانہ جنگی ہوئی، پانچ لاکھ افغان کھا گئی۔ طالبان تشریف لائے تو انہوں نے اپنی فہم کے مخالف مسلمان مسالک اور اقلیتوں کی زندگی اجیرن کردی۔ ایک بار امریکی سامراج اہلِ کتاب کے بھائی چارے کا جھنڈا اور بندوق لے کر آیا اور دوسری بار انسدادِ دہشت گردی کی مہم کے نام پر وارد ہوا۔ آنسوؤں ، خون، لاشوں، بربادیوں کے سوا افغانوں کو کیا ملا پچھلے 38 سال میں ؟ کڑوا سوال ہے۔ بھانت بھانت کے تاجر اَت اٹھائے دوڑے چلے آئیں گے۔ ان سارے تاجروں کو افغانوں اور ان کے وطن میں دیرپا امن سے زیادہ اپنے اپنے کاروبار کے بڑھاوے میں دلچسپی تھی اور ہے۔ پچھلی صدی کے رخصت ہوتے برسوں کے دوران آخری بار کابل گیا تھا۔ طالبان اقتدار میں تھےاور ملا عبدالوکیل وزیر خارجہ، یہ افغان سرزمین اور کابل سے میری چوتھی ملاقات تھی۔ دو بار انقلاب ثور سے قبل ایک بار انقلاب کے بعد جناب ترکئی کے بلاوے پر پاکستان سے جانے والی صحافیوں ، ترقی پسند طلباء ، مزدور اور سیاسی کارکنوں کے قافلے میں شامل تھا۔ ہر بار ایک نیا کابل میرے سامنے تھا۔ 1999ء کے آخری پھیرے کا کابل اب بھی کبھی یاد آتا ہے تو شرمندہ ہو کر آنکھیں جھکا لیتا ہوں۔ وجہ کابل یونیورسٹی کا وہ طالب علم عزیز اللہ تاجک ہے جس نے یہ جاننے پر کہ میں پاکستانی صحافی ہوں ، میرے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا” برادرِ محترم! سچ سچ بتاؤ ہمارے وطن میں بربادیاں بو کر تمہارے پاکستان کو کیا ملا؟ جس اسلام اور مسلمانوں کے تحفظ کے لئے پاکستان نے امریکی جہاد کی قیادت کی تھی وہ اسلام اور مسلمان پاکستان میں کیوں غیر محفوظ ہیں؟عزیز اللہ تاجک کی صورت اور سوال دونوں میری آنکھوں کے سامنے ہر اس دن آن کھڑے ہوتے ہیں جس دن افغانستان میں کوئی انہونی ہو جائے۔ میں 1999ء کے سال والے اس دن کی طرح ہر بار آنکھیں چراتا سوال سے بھاگتا ہوں ۔ لوگ ناراض تو ہوں گے مگر سچ یہ ہے کہ افغانوں کی بربادی میں پاکستان کا بطور ریاست حصہ بس "مناسب” ہی ہے۔ ایک فاتح جلال آباد کہلاتے جنرل حمید گل ہوا کرتے تھے انہوں نے اپنے آقا و مربی جنرل ضیاء الحق کو تجویز پیش کی تھی کہ افغانستان کو پانچواں صوبہ بنا لیا جائے۔ اس مشورے کی بہت بھد اڑی مگر اس کے حق میں جہادیوں نے جو دلائل دیئے وہ جمع کر لیے جائیں تو لطائف کی پوری کتاب بنتی ہے۔
بات دور نکل گئی ، اصل موضوع پر آتے ہیں۔ 31 مئی کی صبح کابل پر جو قیامت ٹوٹی طالبان نے اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ حقانی کے ترجمان بات کرنے سے گریزاں ہیں۔ البتہ افغان داعش نے سینہ ٹھوک کر ذمہ داری قبول کی ہے۔مگر افغان حکومت کے خفیہ ادارے دعوے دار ہیں کہ سانحہ کابل میں پاکستان برانڈ مسلح قوتوں کا کردار ہے۔ صد شکر ہے کہ کبھی ریاستی اداروں کا نمک خوار نہیں رہا مگر دستیاب معلومات کی بنا پر یہ عرض کئے بنا نہیں رہ سکتا کہ بدھ 31 مئی کے سانحہ کی ذمہ داری قبول کرنے والوں کا ددھیال ننھیال دونوں طرف سے پاکستان کے ریاستی اداروں سے کوئی تعلق نہیں۔ افغان اداروں اور حکومت کی طرح پڑوسی ممالک اور ادارے اور دہشت گردی سے پیدا شدہ صورتحال کا تجزیہ کرنے والے سبھی جانتے ہیں کہ اس وقت گو کہ عددی طور پر افغان طالبان بڑی اور ملک گیر تنظیم ہیں مگر عسکری لحاظ سے داعش طالبان کے مقابلہ میں افغانستان میں زیادہ منظم اور طاقتور ہے۔ خراسان کی طرف سے لشکرِ اسلام کی آمد اور دنیا میں اسلام کے پھریرے لہرانے کی روایات کے ان "عاشقوں” کو افغانستان میں منظم ہونے میں مدد دینے والوں میں امریکہ اور بھارت پیش پیش تھے۔ بدھ 31 مئی کو کابل کے سفارتی علاقے میں جس ٹرک سے حملہ ہوا اس ٹرکے کے عملے کے پاس سفارتی علاقے میں داخلے کا جو پاس تھا وہ دنیا کی عظیم جمہوریہ بھارت کے سفارت خانے کا جاری کردہ تھا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ افغان حکام اور خفیہ ادارے حقیقت جانتے ہیں پھر بھی وہ اس المناک سانحے پر پراکسی کھیلنے میں مصروف ہیں۔دو عشروں سے شدت پسندی اور عسکریت سے پیدا شدہ حالات کا تجزئیہ کرتے اس صحافی کو کوئی حیرانی نہیں کہ افغان حکومت 31 مئی کے سانحہ کے پیچھے موجود قوت کو تحفظ کیوں فراہم کر رہی ہے۔ اصولی طور پر اس امر پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ عین اس مرحلہ پر جب افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بیک ڈور رابطوں کا سلسلہ تیز ہوا اور وسیع تر مفاد کے لئے افغان حکومت نے کابل کے قصائی کہلانے والے گلبدین حکمت یار کو بھی گلے لگا لیا تو وہ کون ہے جو افغان حکومت اور طالبان کے مستحکم ہوتے روابط کو اجارہ داری کے خلاف سمجھتا ہے؟ جواب صاف سامنے دیوار پر لکھا ہے اگر کوئی پڑھنا چاہے تو ۔ بہرطور حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں داعش کو لانے اور اسے منظم کرنے کے کرداروں سے ساری دنیا واقف ہے۔ یہ بھی سب جانتے ہیں کہ داعش کی اگلی منزلیں وسطی ایشیائی ریاستیں بھی ہیں اور پاکستان بھی۔ پاکستان پہلے ہی طالبانائزیشن کا زخم خوردہ ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ اندرونی استحکام ہوتاکہ سی پیک منصوبہ عملی شکل اختیار کر سکے۔
کالم لکھ رہا تھا کہ کابل میں مزید دھماکوں کے ساتھ احتجاجی مظاہرین پر پولیس کی فائرنگ سے جنم لینے والے المیے کی خبر ملی۔ پھر لندن سے دہشت گردی کی واردات کی خبر آئی جس میں سات انسان جان سے گئے۔ اسی طرح ایک المناک خبر بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے ہے جہاں تکفیری درندوں نے دو روزہ دار شیعہ مسلمان بہن بھائی کو سفاکی سے قتل کر دیا۔ شہداء کا تعلق ہزارہ برادری سے ہے چند دوستوں کی طرح کچھ عرصہ میں بھی اس غلط فہمی کا شکار تھا کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ لیکن صد شکر ہے کہ یہ غبار دھل گیا۔ اور تلخ ترین حقیقت سمجھ میں آ گئی کہ دہشت گردی کا مذہب بھی ہوتا ہے اور اسے فکری غذا اس کے مذہب کی مقدس کتابیں ہی فراہم کرتی ہیں۔ آپ اگر فقط مسلم دہشت گرد تنظیموں کی ویب سائٹس پر جا کر دیکھ لیں۔ وہ اپنی کارروائیوں اور انسان کشی کے گھناؤنے کھیل کے حق میں کیا دلائل دیتے ہیں اور تائید میں کن قرآنی آیات اور احادیث کو سند کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ سادہ لفظوں میں یہ کہ دمشق ہو یا حلب، عراق کا موصل ہو یا مصر کا سکندریہ، استنبول ہو یا کابل، لندن ہو یا کوئٹہ دہشت گرد مسلمان ہی نکلتے ہیں۔ بس خفت مٹانے کے لئے ہم یہ کہتے پھرتے ہیں کہ مسلمان تو ایسا کام کر ہی نہیں سکتا۔
غور طلب بات یہ ہے کہ کیا ہم بس اغیار کی سازشوں کے لالی پاپ سے جی بہلاتے رہیں گے یا انسانیت دشمنوں کے خلاف مؤثر اقدامات بھی کریں گے؟ سادہ سا جواب یہ ہے کہ مسلمان حکمرانوں ( ان میں پاکستان بھی شامل ہے) کی ترجیحات مختلف ہیں۔ پاکستان کے اندر انتہا پسندی کو پروان چڑھاتے مدارس اور تنظیموں کے خلاف حقیقی معنوں میں کارروائی نہیں ہوئی۔ ستم یہ ہے کہ عقل کے پیچھے لٹھ لے کر دوڑتے چند افراد افغانوں کو احسان فراموش ہونے کا طعنہ دیتے تھکتے نہیں لیکن ان حضرات نے افغانوں کے نام پر اربوں ڈالر لوٹنے والے اپنے حکمرانوں، جرنیلوں، ملاؤں ، جہادیوں بارے کبھی لب کشائی نہیں کی۔ بہت ادب سے عرض ہے دوسروں پر انگلی اٹھانے سے قبل ہمیں اپنے گریبان میں جھانک لینا چاہیے۔ ہو سکے تو ہمیں اپنی حکومت سے یہ سوال ضرور کرنا چاہیے کہ آخر افغان طالبان اور حقانی گروپ کے حوالے سے انگلیاں ہماری (پاکستان) کی طرف ہی کیوں اٹھتی ہیں؟ یہاں افغان حکومت کے ذمہ داروں سے بھی درخواست ہے کہ تحقیقات اور ٹھوس ثبوت کے بغیر الزام تراشی سے گریز کیا جائے۔ حرف آخر یہ ہے کہ کابل ہو کہ دمشق، حلب ہو کہ موصل، سکندریہ ہو یا کوئٹہ، پارا چنار ہو یا استنبول دہشت گردی کی ہر واردات کے ذمہ داران مسلمان ہی نکلتے ہیں۔ کیا اسلامی دنیا میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے خلاف رائے عامہ منظم کرنے والا کوئی نہیں ؟ حکمرانوں سے توقع عبث ہے۔ اہل علم و دانش کو چپ کا روزہ توڑ کر میدان ِ عمل میں نکلنا ہو گا کسی تاخیر کےبغیر۔ وہ بھی اس سے قبل جب امریکی سرپرستی میں سعودی وہابی اسلام مسلمانوں کے دوسرے مکاتبِ فکر کے لوگوں پر زمین تنگ کر دے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn