Qalamkar Website Header Image
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

ایک ہلکا پھلکا کالم | حیدر جاوید سید

زنبیل میں چند خبریں ہیں ایک عدد وفاقی بجٹ جس کی دو باتیں اہم ہیں اولاً یہ کہ عام محنت کش کی ماہوار تنخواہ میں ایک ہزار روپے اور صدر مملکت کی تنخواہ میں اکٹھا 6 لاکھ روپے سالانہ اضافہ ہوا ہے۔ ثانیاً یہ کہ وفاقی حکومت کے رمضان پیکج کی رقم فی کس تقسیم کریں تو 3پیسے روزانہ حصے میں آتی ہے۔ ”7روپے ماہوار”۔ اس دریا دلی پر رمضان پیکج بنانے والوں کے درجات کی بلندی کی دعا تو بنتی ہے۔ آئیے دست دعا بلند کریں۔ بہت تاریخ ساز’ عوام دوست’ غریب پرور وفاقی بجٹ ہے اللہ تعالیٰ اس بجٹ کے اعداد و شمار بنانے والوں کو پندرہ ہزار روپے ماہوار میں گزر بسر کرنے کے امتحان میں نہ ڈالے اور ان کی توفیقات میں بھی اضافہ کرے جو رمضان بازاروں کے نام پر کروڑوں کی عیدی جمع کریں گے اور دیانتداری سے تقسیم کو یقینی بنائیں گے۔ اللہ سعودی عرب کے شاہ سلمان کو مزید رفعتیں عطا کرے جنہوں نے ہیروں اور سونے سے بنی 80کروڑ ڈالر کی کشتی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ذاتی تحفے میں دی۔ کچھ تحائف اور بھی ہیں مگر ان کے ذکر سے غریب روزہ داروں پر جو بیتتی ہے اس کا احساس لکھنے سے مانع ہے۔ ہم پاکستانیوں کے لئے ماہ صیام کی کھجوریں اور عید قربان پر قربانی کا گوشت بھی تو تحفے میں آتا ہے۔ ہر بندہ اور ملک اپنی اوقات کے مطابق پاتا ہے اس لئے ناراض ہونے کی ضرورت نہیں۔ قربان ہونے کو دل کرے تو بجلی و پانی کے وفاقی وزیر خواجہ آصف موجود ہیں جنہوں نے تازہ ارشاد یہ فرمایا ہے کہ خیبر پختونخوا کی پولیس بجلی چوروں کو تحفظ دیتی ہے۔ اللہ جھوٹ سے محفوظ رکھے صوبہ پنجاب میں بجلی چوری میں فیصل آباد پہلے’ لاہور دوسرے اور خود قبلہ خواجہ جی کا سیالکوٹ تیسرے نمبر پر ہے۔ بغل میں چھری منہ پر رام رام والی مثال اسی دن کے لئے بنی تھی۔ میرے دوست ارشاد اقبال لالہ شکوہ کرتے رہتے ہیں۔ شاہ جی بہت زیادہ سنجیدہ کالم لکھنا شروع کردئیے ہیں۔ کبھی پچھلے برسوں کی طرح ہلکے پھلکے کالم بھی لکھ دیا کرو۔مسائل کا سورج سوا نیزے پر اور مہنگائی چھٹے آسمان کو چھو رہی ہے۔ دو دن قبل ٹماٹر 80روپے کلو تھے اور یکم رمضان کو 150روپے کلو۔ برکتیں ہیں ساری دکانداروں کے لئے۔ ادھر ادھر نکلنے کی بہت کوشش کر رہا ہوں مگر وفاقی بجٹ ایسے گھیر کر اپنی طرف لے جاتا ہے جیسے جنرل ضیاء الحق کے عہد میں پولیس ہمیں جیل لے جایا کرتی تھی۔ یقین کیجئے پینتالیس سالہ صحافتی زندگی میں ہر نیا بجٹ پچھلے بجٹ کے مقابلہ میں زیادہ عوام دشمن نکلا۔ تازہ بجٹ تو تدفین کے بعد کفن اتارنے والوں کا بجٹ ہے۔ حکومت نے کسی چیز کی قیمت نہیں بڑھائی بلکہ دکانداروں کو کامل آزادی دی عید کے اخراجات پورے کرنے کی۔ 33ارب کا ریلیف نام عوام کا اور فائدہ سرمایہ داروں کا۔ سرمایہ دار بھی تو اس ملک کی آبادی کا حصہ ہیں۔ آسمانی مخلوق ہر گز نہیں۔ ہمارے ہمزاد دیرینہ فقیر راحموں کل سے یہ پوچھ رہے ہیں کہ رمضان المبارک میں منافع خوری’ رشوت اور کمیشن لینے پر رمضان آرڈیننس تو لاگو نہیں ہوگا؟کچھ دیر قبل لندن میں مقیم ایک کشمیری دوست پنڈت افروز ہری چند نے شکوہ کیا آپ بھارتی کشمیر میں ہونے والے مظالم پر کیوں نہیں لکھتے؟ میرے جوابی سوال پر انہیں حیرانی محسوس ہوئی تو لکھا۔ شاہ جی پنڈت افروز ہری چند کشمیری پہلے اور ہندو بعد میں ہے۔ میرے بھائیوں بچوں کا خون بہا رہا ہے بھارت۔ انسان دوستی سے عبارت ان جذبوں کو سلام تو بنتا ہے۔ کشمیریوں کی تحریک کے حالیہ مرحلے میں بھارت کمینگی کی ساری سرحدیں عبور کرچکا۔ وہ جو دنیا کو امن’ محبت اور عدل کا درس دیتے ہیں ان سب کی جنوبی ایشیاء کی طرف دیکھنے والے آنکھ خراب ہے۔ یک چشمی سامراج سے شکوہ فضول ہے اور ان سے بھی کوئی شکوہ نہیں جنہوں نے چند دن پہلے امریکی سامراج کا جی تلواروں کے رقص سے بہلایا۔ کشمیری عوام اپنے لہو سے تاریخ لکھ رہے ہیں۔ پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ سمیت وفاقی کابینہ میں کشمیری نژاد پاکستانیوں کی تعداد 18فیصد ہے ۔پتہ نہیں یہ سابق کشمیری اپنے لوگوں کے لئے آواز بلندکرنے سے کیوں ڈرتے ہیں؟ چند جذباتی اور تھڑدلے لوگوں کی طرح مجھے کسی کو غدار کہنے کا مرض لاحق نہیں البتہ یہ ضرور ہے کہ موجودہ حکمرانوں نے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔

یہ بھی پڑھئے:  سستے ڈراموں کے شوقین حکمران

بار دیگر بجٹ کے کوچے میں چلتے ہیں۔ تنخواہوں اور پنشن میں 10فیصد اضافہ ہوگا ۔ ملازمین پر لازم ہے کہ اس میں سے پانچ فیصد بجٹ بنانے اور منظور کرنے والوں کے لئے عطیہ کریں تاکہ ان کی غربت دور ہو۔ 25کھرب کے مجموعی خسارے کو 1480ارب روپے بتانے پر وزیر خزانہ کو پونے گیارہ سو توپوں کی سلامی بنتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تخت لاہور کے لئے 6.67 ارب روپے اور سرائیکی بولنے والے پنجاب کے تین ڈویژنوں کے لئے 1.31 ارب روپے ترقی کے لئے مختص کئے گئے۔ حاتم طائی بھی اپنی قبر میں تڑپ اٹھا ہو گا۔ اگر انہیں پنجابی آتی ہوتی تو یہ ضرور کہتے۔ کون لوک او تسیں؟ اس ملک کے مجبور و بے نوا طبقات پر زندگی عذاب کی طرح ٹوٹتی ہے۔ اشرافیہ کے ہر حال میں مزے ہیں۔ سریا’ سیمنٹ’ کپڑا مہنگا ہوا۔ شریف اور منشا خاندان کے کاروبار یہی ہیں۔ پولٹری بزنس پر حمزہ شہباز شریف کا قبضہ ہے۔ اقتدار کا فائدہ اٹھا کر وہ ایک دودھ بنانے والی کمپنی بھی ہتھیا چکے۔ آئندہ سال کے مالی بجٹ بارے ایک دوست کہہ رہے تھے کہ آئندہ مالی سال کے دوران وفات پانے والوں کے لئے لازم قرار دیا جائے کہ تدفین کے وقت بجٹ دستاویزات کفن میں رکھ دی جائیں اس سے بھی حکومت کو خاصی آمدنی ہوگی۔ فقیر راحموں کا مشورہ البتہ وفات ٹیکس لگانے کا ہے۔ ترقی یافتہ سہولتوں سے بھرے پاکستان میں وفات پانے کا شکرانہ بھی تو ہونا چاہئے۔ ہیں جی؟۔

یہ بھی پڑھئے:  پانچ جولائی 1977کے بعد کا پاکستان

بشکریہ مشرق پشاور

حالیہ بلاگ پوسٹس