عرب اسلامی امریکی کانفرنس کے دلچسپ ترین لمحات وہ تھے جب داعش کے زخم خوردہ مصر کے فوجی حکمران نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ” دہشت گرد فقط بندوق بردار ہی نہیں ہوتے بلکہ ان کی فکر ی ، مالی اور عددی اعانت کرنے والے بھی دہشت گرد ہیں ”۔ عبدالفتاح سیسی جب یہ کہہ رہے تھے امریکہ کے بے دام بندوں کے چہرے دیکھنے والے تھے ۔ مگر ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ پاکستان نے ایک بار پھر گردن تک امریکی کیمپ میں دھنسنے کی ضرورت کیوں محسوس کی ۔ یہ اسحاق ڈار کا ملک ہے اور چودھر ی نثار علی خان کا ۔ایک صاحب اور بھی ہیں رواں صدی کی پہلی دہائی میں وہ فیصل آباد کی سرزمین پر چودھری پرویز الٰہی اور پرویز مشرف کے استقبالی جلوس میں دھما ل ڈالا کرتے تھے ۔ ان دنوں وہ مسلم لیگ (ن) کے شعبہ اخلاقیات کے سربراہ ہیں ۔ اس ذکر کو یہیں چھوڑ یئے ہم اصل موضوع پر بات کرتے ہیں ۔اگر عرب اسلامی امریکہ کانفرنس کی تقاریر اور اعلا میہ کو چند الفاظ میں بیان کرنا پڑے تو وہ یہ ہیں ۔ ”لبنانی حزب اللہ اور فلسطینی حماس دہشت گرد ہیں ”۔ حماس فلسطینی قومی مزاحمت کا چہرہ ہے اور حزب اللہ لبنان وہ تنظیم ہے جس نے 2006ء کی اسرائیل لبنان جنگ میں اسرائیل کو شکست دی تھی ۔ اسی حزب اللہ نے جنوبی لبنان کو اسرائیل کے قبضے سے آزاد کروایا تھا ۔ ظاہر ہے کہ صیہونی دہشت گردی تو خدمت انسانیت کے زمرے میں آتی ہے اور انسانیت کے محافظ اعلیٰ امریکہ بہادرہوں یا برطانوی حکمران وہ ہمیشہ اسرائیل کے خدمت انسانی پروگرام کے پر جوش حامی رہے اور ہیں ۔ بد قسمتی یہ ہے کہ سعودی عرب میں منعقدہ عرب اسلامی امریکہ کانفرنس میں دنیا کی عظیم جمہوریہ بھارت کو مدعو نہیں کیا گیا ۔ حالانکہ 26کروڑ سے کچھ اوپر مسلمان بھارت میں بستے ہیں ۔سینکڑوں سال تک مسلمان بھارت کے حکمران بھی رہے ۔ ویسے اگر جناب نریندر ی مودی کو بھی اس کانفرنس سے خطاب کا موقع دیا جاتا تو وہ اسلام اور مسلمانوں کے لئے بھارت کی عظیم و تاریخ ساز خدمات کا ذکر کرنے کے ساتھ اپنے ملک کو کشمیری ”دہشت گردوں ” سے نجات دلانے کی پر جوش اپیل کرتے۔ افسوس صد افسوس کہ کسی کوبھی بھار ت کے 26کروڑ سے زیادہ مسلمانوں کا خیال نہ آیا ۔ عرب اسلامی امریکہ کانفرنس نے سرد جنگ پارٹ ٹو کی بنیاد رکھ دی ہے ۔ آنے والے دنوں میں جب سرد جنگ کی کو کھ سے گرم جنگ بر آمد ہوگی تو قبرستانوں کا رقبہ وسیع ہوگا ۔ مسلم دنیا آبادی کے بڑھتے ہوئے دباؤ کا شکار ہے ۔ چونکہ مسلم دنیا کی عمومی سوچ یہ ہے کہ امارت و غربت اللہ کی عطا کردہ ہیں اس لئے غریب طبقات شکر و صبر کے ساتھ صرف آبادی بڑھاتے ہیں ، بالا دست طبقات دولت ۔ امریکہ اورمحبان امریکہ مسلم حکمرانوں نے پچھلے چالیس سالوں کے دوران آبادی کے دباؤ کا جو بندوق مارکہ علاج دریافت کر کے عمل کیا اس علاج میں عراق ایران جنگ کے ساتھ دو خلیجی جنگیں اور 1980ء سے افغانستان میں جاری انسان کشی بھی شامل ہے ۔ بار دیگر افسوس کہ یہ سارے تجربات ناکام ہوئے اور مسلم دنیا کو آبادی کے بڑھتے ہوئے دباؤ سے نجات نہ مل سکی جسکی وجہ سے غرب و مفلوک الحالی اسے پیدا ہونے والے مسائل بڑھ رہے ہیں۔
تاریخ اور عصری علوم کے ہم ایسے طالب علموں کو امید ہو چکی ہے کہ حالیہ کانفرنس کے انعقاد سے ہوئی نئی صف بندی او راگلے مرحلے کے اقدامات سے مسلم دنیا کو آبادی کے بڑھتے دباؤ سے نجات دلانے کا نسخہ کیمیا ، کار گر ثابت ہوگا ۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کے موجب مکر رعرض کرنا پڑرہا ہے کہ اگر اس اتحاد میں بھارت اور برما کو بھی شامل کر لیا جائے تو ان دونوں ملکوں میں بھی مسلمان آبادی کے بڑھتے دباؤ کا شافی علاج ہو جائے گا اور یہ دعا بھی کریں گے ۔ علاج لازم ہے البتہ ادویات کے بروقت استعمال کے ساتھ دعائیں بھی شامل ہوں تو کیا کہنے۔انکل ٹرمپ کا دورہ سعودی عرب ہر لحاظ سے کامیاب بلکہ تاریخی ثابت ہوا ، وہ امریکی اسلحہ ساز اداروں کے لئے 110ارب ڈالر کے آرڈرزوصول کرنے میں کامیاب رہے اور 250ارب ڈالر کے دوسرے معاہدے بھی لے اُڑے ۔ مجھے سو فیصد یقین ہے کہ جب 110ارب ڈالر کے اسلحہ کی خریداری کے معاہد ے کی بات ہمارے محبو ب وزیر اعظم کو معلوم ہوئی ہوگی تو انہوں نے سر گوشی کے انداز میں سہی مگر یہ کہا ضرور ہوگا کہ ”اعلیٰ حضرت شاہ سلمان پاکستان کی واہ فیکٹری میں پٹاخے نہیں بلکہ جدید اسلحہ بنتا ہے ”۔ کامل یقین ہے کہ عرب ڈھولوں کی تھاپ اور تلواروں کے رقص کے شور میں ان کی سرگوشی شاید خود انہیں بھی سنائی نہ دی ہو ۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ فوج تو ہماری ان شاہوں کی حفاظت کرے اور اسلحہ امریکی بیچیں ۔ ایک ”سچے ” پاکستانی کی طرح ہمیں اس کانفرنس کے اعلامیہ پر آمین کہنے اور سرکار کے درجات کی بلندی کے لئے دعا کرنے میں کوئی امر مانع دکھائی نہیں دیتا ۔ البتہ ہمارے ہمزاد فقیر راحموں بضد ہیں کہ ”پاکستان کسی کرائے کی جگہ پر قائم ہے نا سرائے میں مقیم ۔ مستقل جغرافیہ رکھنے والے اس ملک کے پالیسی سازوں کو ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہیئے کہ جغرافیائی پڑوسی تبدیل نہیں ہو سکتے ”۔ فقیر راحموں کے بہکاوے میں آنے کی ضرورت نہیں ۔ یہ ضرورت سے زیادہ انسانیت پرست لوگ اس تلخ حقیقت کو سمجھتے ہی نہیں کہ دنیا کے دستیاب وسائل چار ارب لوگوں کے لئے ہیں اس پر ساڑھے تین ارب لوگوں کا اضافی بوجھ ہے ۔ اب اگر اس بوجھ کو کم کرنے میں پہل اسلامی دنیا سے ہو تو اس سے امن عالم اورانسانیت کی کیسی تاریخی خدمت ہوگی ۔ اس لئے جو بھی ہو انسانیت ، امن ، امریکہ اور اسرائیل کے لئے ہمیں قربانی دینی چاہیئے ۔ بادشاہ ، جرنیل اور منتخب آمر غلط نہیں سوچتے ۔یہ بیچارے تو ہر گھڑی اپنے اپنے لوگوں کو قیامت بھری زندگی سے نجات دلوانے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں ۔ بس عوام ہی ناشکرے ہیں ۔
بشکریہ مشرق پشاور
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn