کہا یہ جا رہا ہے کہ ڈاکٹر ہود بھائی چونکہ سائنسدان ہیں اس لئے مذاہب عالم پر بات کرنے سے گریز کریں۔ پچھلی شب اس حوالے سے ایک دوست بہت جذباتی ہوئے ’’پھول‘‘ برسا رہے تھے کہ طالب علم نے ان سے دریافت کیا کہ مدرسوں کی چاردیواری سے باہر کی دنیا سے یکسر کٹ کر ردالمخالفین ٹائپ کتابیں پڑھنے والوں کو سیاست، فلسفہ، سائنس اور دستور سازی کے عمل پر گفتگوکا حق حاصل ہے؟ تو عالی قدر نے ’’جدا ہو دین سے سیاست تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘ مارکہ جواب دے مارا۔ ہمارے اس عہدکا بنیادی المیہ یہی ہے کہ ہم اہلِ علم پر بوزنے چھوڑ دیتے ہیں۔ چند دن قبل اسلام آباد میں منعقدہ ایک تقریب میں ڈاکٹر ہود بھائی نے کوئی غیر منطقی بات کی نہ غیر اسلامی۔ سادہ سی بات تھی وہی جو مشعال خان کے سفاکانہ قتل والے دن سے ہر صاحبِ اولاد اور زندہ ضمیر شخص کر رہا ہے۔ مگر جس طرح انجمنِ متاثرینِ جماعتِ اسلامی کے کچھ غزالئ دوراں بات کا بتنگڑ بناتے ہوئے ہود بھائی پر الطاف حسین کی طرح غداری کا مقدمہ بنانے کا مطالبہ داغ رہے ہیں اس سے ایک بات تو واضح ہو گئی کہ مشعال کو قتل کرنے والے انسانیت کے مجرموں کا اصل مسئلہ سوچنے والے ہر ذہن کو لوٹے میں بند کرنا اور سوال اٹھانے والوں کو کافر و غدار قرار دینا ہے تاکہ انسانیت کے مجرموں کی کسی طرح جان بخشی کروائی جاسکے۔ بین الاقوامی شہرت کے حامل سائنس دان ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کے خلاف رجعت پسندوں کا کج بھرا شور پہلی دفعہ سنائی نہیں دیا۔ البتہ اس بار ہلہ گلہ کرنے والوں کی قیادت ایک شاعر فرما رہے ہیں۔ شنید ہے کہ وہ فلسفے کے استاد ہیں۔ محمود غزنوی، صلیبی جنگ اور اسامہ بن لادن کے عنوانات سے ان کی کتابیں بھی ہیں۔ کوئی بتلائے کہ متحدہ ہندوستان پر حملے کرنے اور ملتان کی مسلم ریاست کو تاراج کرنے والے محمود غزنوی یا اسامہ بن لادن کا فلسفے سے کیا لینا دینا؟ فلسفہ پڑھنے اور پڑھانے سے قبل اگر وہ مسلم فلسفہ کا باپ قرار پانے والے ابنِ رشد ؒ بارے میں امام غزالی ؒ کے خیالات سے استفادہ کر لیتے تو یقیناََ اسلامیات کے استادہوتے۔
سوال یہ ہے کہ کہاں لکھا ہے کہ سائنس دان مذاہبِ عالم اور عصری مسائل پر گفتگونہیں کر سکتا۔ اور اگر اس شودی منطق کو اصول مان لیا جائے تو پھر شہباز شریف کو تو وزارتِ اعلیٰ چھوڑ کر وہ خراد دوبارہ چلانی چاہیے جو کبھی ریلوے روڈ لاہور پر وہ اپنے والد کے ساتھ چلاتے تھے۔ زرداری کو پراپرٹی کا بزنس کرنا چاہیے۔ہمارے محب مکرم مولانا فضل الرحمان کو دینداروں کا بھرم رکھنا چاہیے اور عمران خان کو کرکٹ میچوں پر رواں تبصرہ اورخود ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کے خلاف نفرت انگیز مہم منظم کرنے والے شاعر کو شاعری کرنی چاہیے۔ عجیب بات ہے ہم خود کو ہر فن مولا سمجھتے کہلاتے ہیں مگر دوسروں کو یہ حق دینے پر تیار نہیں۔ آصف زرداری کے والد کسی زمانے میں کراچی میں تین عدد سینماؤں کے مالک تھے اِن کے تھڑدلے مخالفین ان پر ٹکٹیں بلیک کرنے کی پھبتی کستے نہیں شرماتے۔ لیکن ملتان کے ڈریم لینڈ سینما میں ٹکٹیں بلیک کرنے والا کسی مذہبی سیاسی جماعت کا بلند مرتبہ رہنما بننے کا حق رکھتا ہے۔ توجہ دلاؤ تو یار لوگ کہتے ہیں ہدایت کا دروازہ کھلا ہے۔ واہ جی، ہدایت نہ ہوئی حلوائی کی دکان پر نانا جی کا فاتحہ ہوا اور وہ بھی فقط اپنے نانا جی کا۔ آنکھیں کھول کے اس سماج میں ایک کم ساٹھ سال گزار لینے کے بعد مجھے تو یوں لگتا ہے کہ ستر برسوں سے اس ملک میں علم و فہم، جمہوریت، انصاف اور مساوات دشمنی کے بیج بوئے جا رہے ہیں ۔ جس کا جی چاہتا ہے منہ بھر کے کچھ بھی بول دیتا ہے۔ بے شعوری اور غلامی کو امرِ ربی کے طور پر پیش کرنے والے اور ان کے سیلز مین آخر کیوں بضد ہیں کہ علم و فہم پروان نہ چڑھیں اور جہالت کا دور دورہ رہے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بٹوارہ اگر نفرت پر ہو تو کج ہی زندگی بھر کا اوڑھنا بچھونا رہتے ہیں۔لاریب کہ سچی اور مُچی جمہوریت اس ملک میں کبھی نہیں آئی سمجھوتوں سے بندھی طبقاتی جمہوریت کے سارے فوائد ریاست کے اصل مالکان اٹھاتے ہیں یا ان کے باج گزار مگرجس کو دیکھو منہ بھر کے جمہوریت کوگالیاں دیتا ہے۔ تھوڑی سی ہمت کیجیئے کسی دن اس ملک کی عسکری دانش اور سول بیوروکریسی کے سابقین کے اثاثوں پر بات کر لیجیئے کہ اکیسویں یا بائیسویں گریڈ کے سابق ملازمین کروڑوں، اربوں روپے کے اثاثوں کے مالک کیسے بنے۔ پر جلتے ہیں سب کے۔ ویسے کسی نے پوچھا کہ وہ بلوچستان میں ایف سی کے جن افسروں پر کرپشن کے الزامات لگے یا ڈی ایچ ایز والے سکینڈلوں میں جو ملوث تھے انہوں نے لوٹ کا مال واپس کیا ؟ معاف کیجیئے گا بات دور نکل گئی۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر دینی مدرسے کے عام سے تعلیمی نصاب کو پڑھ کر مولانا فضل الرحمان کشمیر کمیٹی کے سربراہ بن سکتے ہیں، شاعر سائنس پر بات کر سکتا ہے تو ڈاکٹرہود بھائی عصری امور پر اظہار خیال کیوں نہیں کر سکتے۔ اپنے عصر سے کٹ کر کوئی کیسے جی سکتا ہے۔ البتہ مجھے ڈاکٹر ہود بھائی سے ایک شکوہ ضرور ہے وہ یہ کہ انہوں نے بے سمت ہجوم کو قوم کہا۔ احتجاج اس پر بنتا تھا۔ مکرر عرض کروں کہ تنگ نظری اور تعصبات کو پاکدامنی کے طور پر پروان چڑھانے کی ضرورت نہیں۔ اس بدقسمت ملک کے لوگوں نے بہت عذاب بھگت لیئے۔ تماشے بہت ہو گئے کیا ستم ہے کہ فلسفہ کا استاد علم دشمنی کی تحریک کی قیادت فرمائے۔ حضور! دوسروں کے کج نہیں اپنے کج تلاش کیجیئے ۔ مشعال خان کے سفاکانہ قتل پر تاویلات گھڑنے والے اور اس قتل کے ایک مرکزی کردارکو بیرونِ ملک فرار کروانے والے بھی مجرم ہیں۔ تاویلات گھڑنے والوں سے تو الماس بوبی اچھا ہے جو اگر مگر چونکہ چنانچہ کے بغیر دھڑلے سے اپنی بات تو کرتا ہے۔ سمجھنے والی بات یہ ہے کہ ہماری آئندہ نسلوں کو صاف ستھرے ماحول ، انصاف پر مبنی نظام اور علم و فہم کی ضرورت ہے۔ زمانے کو انسان دیجیئے دولے شاہ کے چوہوں کے لشکر پہلے ہی بہت ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn