مسلمانوں کو ایک نئی جنگ کا ایندھن بنانے کی تیاریاں زوروں پر ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اب کی بار قاتل اور مقتول دونوں اسلام کے نام پر میدان میں جنگ میں اتریں گے۔ اسلحہ امریکہ اور مغربی ملکوں کی فیکٹریوں کا فروخت ہوگا۔ معیشتیں بھی ان کی بہتر ہوں گی۔ مسلمانوں کے قبرستانوں کا رقبہ بڑھے اور نفرتیں قیامت تک کے لئے پختہ ہوں گی۔ کیا مسلمانوں کو اس عذاب سے بچانے کے لئے کوئی کچھ کرپائے گا؟ سوال بہت سادہ ہے مگر ٹھہریں ہم اس پر غور کرتے ہیں کہ دنیا میں مسلمان نامی لوگ ہیں بھی یا نہیں۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ مکتب خلافت و امامت کی تقسیم بہت گہری ہے۔ نصف درجن کے قریب فرقے مکتب خلافت اور اتنے ہی مکتب امامت کی کوکھ سے برآمد ہوئے زندہ و تابندہ ہیں۔ تاریخ و سیاست کے سفر میں جو فنا ہوگئے ان کا کوئی ذکر نہیں۔ کیا ضرورت ہے قبریں کھودنے اور داستانیں دہرانے کی، جو سامنے ہے اس کی بات کیوں نہ کی جائے۔ چند دوست کہتے رہتے ہیں کہ مسلم اُمہ کی بات کیوں نہیں کرتے۔ تکرار کے ساتھ عرض کرتا رہتا ہوں تصورِ اُمت ہر فرقے کا اپنا اور اپنے ہی فرقے تک محدود ہے۔ سب اپنی دکان کے مال کو حلال سمجھتے ہیں دوسروں بارے ان کی آراءسب کی کتابوں میں موجود ہے اور ہر کتاب تقدس بھرے حوالوں کے حصار میں ہے۔ بات تو کرکے دیکھئے لگ پتہ جائے گا۔ سعودی عرب کی عرب اسلامی امریکہ کانفرنس نے مسلمانوں کو ایک بار پھر اس دور میں لے جا کھڑا کیا جب فہمیدہ بات سننے کو کوئی تیار نہیں تھا۔ زیادہ صاف انداز میں عرض کروں تو یہ ہے کہ مکتب خلافت و مکتب امامت کے درمیان خلیج بہت گہری ہوگئی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کی خواہش ہے کہ ایران کو تنہا کیا جائے۔ سعودی بادشاہ نے فرمایا ایران دہشت گردی کا گرو ہے۔ بڑی عجیب کانفرنس تھی فلسطینی مظلوموں، کشمیری بے نواؤں اور برمی بے آسرا مسلمانوں کا کسی نے ذکر نہیں کیا۔ اسرائیلی جارحیت، بھارت کی درندگی اور برما کے بدھ انتہاپسندوں کی مذمت میں کوئی ایک لفظ نہیں بولا۔ امریکہ سے کسی نے نہیں پوچھا القاعدہ، طالبان، جنداللہ اور داعش و جیش العدل جیسی انسانیت دشمن تنظیموں کی آبیاری میں وہ پیش پیش کیوں رہا؟
اصل مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ چین کے معاشی ورلڈ آرڈر کا راستہ روکنا چاہتا ہے۔ فرقہ وارانہ عقائد اور باہر والوں سے اندھی عقیدت پاکستانی مسلمانوں کی مرغوب غذا ہے۔ تصور کیجئے اگر ایران کو تنہا کرنے کے ظاہری منصوبے پر سعودی عرب کی قیادت اور امریکی آشیرباد پر عمل ہوتا ہے تو نتیجہ کیا نکلے گا۔ ایک کثیرالمسلکی ملک کے طور پر سب سے زیادہ پاکستان متاثر ہوگا۔ پاکستان چین کے نیو اقتصادی ورلڈ آرڈر کا گیٹ وے ہے۔ اس کے اندرونی ماحول میں موجود سعودیہ نوازی اور ایران نوازی کی انتہاپسندانہ سوچوں کا ٹکراؤ ہوا تو مقامی معیشت تو متاثر ہوگی ہی نیو اقتصادی ورلڈ آرڈر پر بھی ضرب کاری لگے گی۔ یہاں ایک دلچسپ بات ہے پاکستان ایک طرف تو نیو اقتصادی ورلڈ آرڈر کا گیٹ وے ہے اور دوسری طرف سعودی عرب کا پُرجوش حامی۔ تو کیا دو کشتیوں کے اس مسافر کے لئے مستقبل کے حالات امن کا گیت لائیں گے؟ معاف کیجئے ہرگز نہیں۔ یہی وہ بنیادی نکتہ یا خطرہ ہے جس کی بنیاد پر ان کالموں میں کئی بار عرض کرچکا ”بندہ پرور پرائے پھڈوں میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ سعودی عرب اور ایران مشرق وسطیٰ میں بالادستی کی جنگ گرم کئے ہوئے ہیں۔ ان کے علاقائی اور ملکی مفادات اسی کے متقاضی ہیں۔ عرب آج تک سائرس اعظم (ایرانی حکمران) کے بابل پر قبضہ کا زخم لئے پھرتے ہیں۔ کچھ زخم ایرانیوں کے بھی ہیں۔ عرب و فارس کی اس لڑائی میں ہم تین میں نہ تیرہ میں پھر بھی ”شوق دا کوئی مُل نئیں“۔ مکرر عرض ہے امریکی اپنی سازش اور طویل المدتی منصوبے میں کامیاب رہے۔ فکری، سیاسی اور عسکری اعتبار سے مسلمان تقسیم ہوکر ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ عرب اسلامی امریکی کانفرنس میں ہوئے خطابات کے ایک ایک لفظ کو غور سے پڑھ لیجئے۔ المیہ یہ ہے کہ دہشت گردی کی جنگ میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے پاکستان کا ذکر کہیں کسی نے نہیں کیا۔ ہم اپنی لازوال قربانیوں کا ماتم خود ہی کرتے پھررہے ہیں۔
ہمارے لئے بہترین راستہ یہ ہے کہ کسی تاخیر کے بغیر ایک آزاد اور باوقار خارجہ پالیسی وضع کریں۔ پڑوسیوں سے اختلافی امور پر بات چیت کا راستہ نکالیں تاکہ نئے میدان جنگ کی تباہ کاریوں سے بچے رہیں۔ اندرونی حالات کو بہتر بنانے پر توجہ دیں۔ انصاف بلاامتیاز فراہم ہو۔ وسائل کی بندربانٹ ختم، فیڈریشن کی اکائیوں کا وفاق پر اعتماد بحال کیا جائے۔ لوگوں کا معیار زندگی بہتر بنانے کے لئے انقلابی خطوط پر اقدامات اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ جنگ کے کسی نئے عالمی تھیٹر کا حصہ بننے سے باز رہا جائے۔ خدا لگتی بات یہ ہے کہ ہمیں مستقبل میں غیرجانبدار رہنے کی ضرورت ہے۔ جانبداری ہمارے قومی مفادات میں نہیں اور ثالثی کے بٹیرے سے کھیلنے کی بھی ضرورت نہیں۔ مکرر عرض کرتا ہوں امریکی مکتب خلافت کو مکتب امامت پر چڑھ دوڑنے کے لئے اُکسا رہے ہیں۔ 300ارب ڈالر سے زیادہ کے معاہدے کئے ہیں سعودی عرب نے امریکہ سے۔ سادہ سی بات پوچھ لیجئے ان میں سے کتنے خود سعودی عرب کی قومی معیشت کے استحکام پر صرف ہوں گے؟ جان کی امان ہوتو عرض کروں ہمیں چین، بھارت، ایران اور افغانستان کے ساتھ رہنا ہے۔ یہی ہمارے جغرافیائی پڑوسی ہیں۔ دنیا کا وہ شخص یا ملک بتا دیجئے جو پڑوسیوں سے تو کُٹی کرکے رہے اور دور کے تعلق داروں کے ساتھ نبھا کرنے کے دعوے۔ ایک بھی نہیں۔ ہم پہلے سردجنگ اور پھر افغانستان کی سوویت امریکہ جنگ میں عوامی مفادات کے برعکس فیصلے کرکے برباد ہوئے۔ کہاں گئے وہ نورے فتورے گاموں جو کہتے تھے امریکہ کا جو یار ہے غدار ہے۔ سعودی عرب کے بادشاہ نے تو کہاہے کہ ڈیڑھ ارب مسلمان امریکہ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ارے خدا کے بندو چین اور روس کی بڑھتی ہوئی معاشی و سیاسی پیش قدمی کا راستہ روکنے کی امریکی سازشوں کو کامیاب بنانے میں ہم کیوں حصہ ڈالیں۔ خدا کے لئے سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ اسلام کو خطرہ نہیں مسلمان بھی خطرے میں نہیں ہیں۔ مسلمان حکمران اپنے اقتدار کے دوام اور اپنے آقا امریکہ کے معاشی و سیاسی مفادات کے تحفظ کے لئے ایک ایسا میدان جنگ سجانے پر تُلے ہیں جس کا رزق مسلمان ہوں گے اور جنگی سودا سامان امریکہ بیچے گا۔ طالب علم یہی عرض کرسکتا ہے فقط یہ کہ کسی بھی نئے میدان جنگ میں ہمیں اپنے بچے نہیں مروانے۔ قبرستانوں کی آبادی بڑھانے کے بجائے بستے ہوئے شہروں کے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے اقدامات کیجئے۔ تاریخ کے کوڑے دان کا رزق بننے سے بچئے۔
بشکریہ خبریں ملتان
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn