بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے معاملے کو لے کر حب الوطنی کے پھریرے لہراتے اور نواز شریف کو غدار ثابت کرنے پر تُلے ہوئے سیاستدانوں، مذہبی تاجروں اور فیس بکی مجاہدین کی خدمت میں عرض ہے کہ ہوا سے لڑنے کی ضرورت نہیں۔ آگے بڑھنے سے قبل ایک سوال پوچھنے کی جسارت کر رہا ہوں ” دنیا بھر کی مخالفت اور عرب دنیا (ماسوائے سعودی عرب کے) سے آئی رحم کی اپیلوں کے باوجود بیسویں صدی کے نابغہ روزگار ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر چڑھایا جا سکتا ہے تو کلبھوشن یادیو کو بھی چڑھا دیجیئے”۔ خریدے ہوئے مال پر بہت اَت اٹھا لی۔ عالمی قوانین اچھے ہیں یا برے ان کی پاسداری اقوام کی برادری کے ارکان کی مجبوری ہے۔ پاکستان سمندر کے وسط میں کہیں نمودار ہونے والے جزیرے پر قائم نہیں چار اور ریاستیں ہیں آزاد ریاستیں اور ان سے آگے بھی دنیا بلکہ دنیائیں ہیں۔ ایک عام سا قانون دان بھی اس بات سے واقف ہے کہ پولیس کی تحویل میں دئیے گئے اعترافی بیان کی عدالتی سماعتوں کے دوران کیسے بھد اڑائی جاتی ہے۔ یادیو کا معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ چند کہانیاں پیچھے پیچھے چل رہی ہیں۔ اولاََ یہ کہ یہ خریدا گیا مال ہے۔ ثانیاََ یہ کہ تحفہ میں دیا گیا۔ کچھ مجبوریاں اور حدود امر مانع ہیں ورنہ دونوں باتیں کھول کر بیان کر دیتا۔ اس سارے شوروغل میں کسی کو ایک حساس ادارے کے سابق کرنل حبیب یاد ہیں؟ موصوف نے سوشل میڈیا پر اپنے لمبے چوڑے تعارف میں اس خفیہ ایجنسی میں کام کا تجربہ بھی لکھ رکھا تھا جس پر وار کرنے کے لئے ہر دشمن بیتاب رہتا ہے۔ اسی تعارف کی بدولت وہ جھانسے میں آئے نیپال پہنچے اور نامعلوم مقام کی طرف لے جائے بلکہ پہنچائے گئے۔ بات کڑوی ہے لیکن جو شخص تربیت کے دنوں میں گھر بھیج دئیے جانے کے لائق تھا وہ کرنل کے طور پر ریٹائر ہوا۔ اس ضمنی بات کو یہیں چھوڑیئے آئیں ہم کلبھوشن یادیو کی بات کرتے ہیں۔ حکوت سے کہاں کہاں غلطی ہوئی اس کی نشاندہی اور اس پر احتجاج سب کا حق ہے۔ مگر جھٹ سے اپنے کاسے میں سے غداری کا سکہ نکال کر دوسرے کے ماتھے پر مارنے کی ضرورت نہیں۔ یہ محترم اپوزیشن لیڈر سید خورشید اور تحریک انصاف والے عمران خان سوئے ہوئے تھے پہلے کیا؟ کیوں نہ اس حساس مسئلہ پر دونوں اور ان کے ساتھ سراج لالہ (سراج الحق) نے پارلیمان کے اندر آواز اٹھائی؟ عالمی عدالت انصاف میں کیڑے نکالنے کی بجائے اپنی اداؤں ، خارجہ پالیسی، بین الاقوامی معاہدوں اور ان سے بندھے معاملات پر نگاہ ڈال لیجئے۔ غدار غدار کھیلنے کی ضرورت نہیں یہ رسم چل پڑی تو محب وچن ڈھونڈنے سے نہیں ملے گا۔
جناب عمران خان کہتے ہیں یادیو کے معاملے پر نواز شریف اور جندال (بھارتی سرمایہ کار جس نے چند روز مری میں نواز شریف سے ملاقات کی تھی) کے درمیان میچ فکس تھا۔ سر تسلیم خم، ثبوت لے کر عدالت میں تشریف لیجائیں تاکہ جرم ہوا ہے تو مجرم کو سزا ملے۔ پاکستانی سیاست کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ مولوی جس کو چاہتا ہے کافر و مشرک اور سیاستدان غدار قرار دے دیتا ہے۔ عبدالرشید بٹ المعروف شیخ رشید احمد لال حویلی والے ہی مان نہیں۔ تحریکِ انصاف سے خیرات میں ملی نشست پر پھدکتے چار سال گزر گئے انہیں ہر پیشن گوئی الٹی پڑی ہر دعویٰ کھٹاک سے چندیا پر لگا۔ لاریب دہشت گردوں اور جاسوسوں کے لئے ملکی قوانین موجود ہیں اور ان قوانین پر عمل کرنا پاکستان کا حق ہے۔ مکرر عرض کروں گا دور افتادہ مقام پر واقع نہیں ہے پاکستان۔ اسی کرہ ارض پر قائم ہے۔ عالمی عدالت انصاف نے ابھی حکم امتناعی دیا ہے۔ کیا عدالت نے یہ نہیں کہا کہ "بھارت ہمیں مطمئن نہیں کر سکا” اب اگر ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ عالمی عدالت کا فیصلہ قبول نہیں تو اس سے کیا حاصل کر پائیں گے؟ ویانا کنونشن کا آرٹیکل ون جس کا ذکر عالمی عدالت کا فیصلے میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ آرٹیکل ون کے تحت جاسوسی میں گرفتار افراد کے معاملے کو ویانا کنونشن سے الگ کر کے نہیں دیکھا جاسکتا۔ جبکہ آرٹیکل 36 کے تحت جاسوسی میں گرفتار افراد کے کیس بھی گرفتار افراد کے زمرے میں آتے ہیں۔ جس بات کو نظر انداز کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ عدالت نے کہا کہ حتمی فیصلے تک کلبھوشن یادیو کو پھانسی نہ دی جائے۔ یعنی فیصلہ عبوری ہے۔ یہاں دو باتیں اہم ہیں۔ اولاََ یہ کہ خود عدالت کہہ رہی ہے کہ بھارت نے انہیں مطمئن نہیں کیا اور ثانیاََ حتمی فیصلے تک پھانسی نہ دی جائے۔ اصولی طور پر اب ہونا یہ چاہیئے کہ یادیو کے حوالے سے ٹھوس شواہد عدالت کی آئندہ سماعتوں پر اس کے سامنے رکھے جائیں اور اس دوران پاکستان سفارتی اور اطلاعاتی محاذوں پر دنیا کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کرے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر کی تحریک حریت نے پچھلے چند ماہ کے دوران قابض بھارتی سرکار کو جس طرح ناکوں چنے چبوائے اور دنیا کے سامنے بھارت کا گھناؤنا چہرہ بے نقاب کیا یادیو کیس کو لے کر عالمی عدالت انصاف کا رخ کرنے کا مقصد مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے عالمی میڈیا پر خبری اہمیت کو کم کرنا تھا۔ بھارت اپنی سازش یا یوں کہہ لیں کہ حکمت عملی میں کامیاب رہا۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اپنے گھر میں محاذ کھولنے اور ایک دوسرے کا گریبان پھاڑنے کا شوق پورا کرنے کی بجائے معاملات پر ہی نہیں بھارت کی حکمت عملی پر ٹھنڈے دل سے غور کیجئے۔ کشمیریوں کی تحریک حریت کے نئے مرحلہ میں نئی نسل اور خصوصاََ سکولوں کے طلبا و طالبات کی تحریک میں پرجوش شرکت نے بھارتی جمہوریہ کے چہرے پر جو گہرے داغ لگائے تھے کلبھوشن یادیو والے معاملے میں مختلف حکمت عملی اپنا کر بھارت نے ان داغوں کو چھپانے کی سعی کی ہے۔ اب ہمارے پالیسی ساز بھارت کے چہرے پر پڑا نقاب کس طرح نوچ کر دنیا کو اس کی اصلیت دیکھاتے ہیں یہ وہی جانتے ہوں گے۔ مگر اس معاملے کی بنیاد پر نواز شریف کی حب الوطنی پر انگلیاں اٹھانا بھارت کا یار اور غدار کہنا کسی بھی طرح درست نہیں۔ سیاستدانوں اور سیاسی کارکنوں کو ہائی جیکروں کی ہاں میں ہاں ملانے کی ضرور ت ہے نا ان سیاپا فروشوں کی تال پر بھنگڑے ڈالنے کی جو ہر شام ٹی وی چینلوں پر مجمعے لگا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ بارِ دیگر عرض ہے پاکستان کی قومی سلامتی پر سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن بہت ادب کے ساتھ یہ بھی دہرا دیتا ہوں کہ ایشوز پر اختلاف رائے کو حب الوطنی اور غداری نہ بنائیں۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ مشیروں کے نام پر جو دو بابے وزارت خارجہ پر مسلط ہوئے (ان میں ایک تو رخصت ہوگئے) ان کی کارکردگی صفر رہی۔ راحیل شریف اپنے پورے دور میں یوں غیر ملکی دورے فرماتے رہے جیسے وہ آرمی چیف کے ساتھ وزیرِ خارجہ بھی ہوں۔ اس وقت توکوئی نہیں بولا۔ بہرطور عالمی عدالت انصاف میں اس کیس کی سماعت کے اگلے مراحل کے لئے تیاری کیجیئے۔ ایس ایم ظفر سمیت بین الاقوامی قانون کے درجنوں ماہرین ملک میں دستیاب ہیں ان کی خدمات لیجیئے۔ یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ دفتر خارجہ والے اب فرما رہے ہیں کہ کلبھوشن یادیو کے مسئلہ پر عدالت میں ٹھوس ثبوت پیش کریں گے۔ ارے بھائی کسی ٹکسال میں تیار کروا رہے ہیں کیا؟ عبوری فیصلہ دینے والی سماعت کے وہ سارے ثبوت عدالت کے سامنے کیوں نہ رکھے گئے؟ وہ ساٹھ لاکھ فی گھنٹہ کے حساب سے فیس لینے والےپاکستانی وکیل کس مرض کی دوا تھے؟ ایڈہاک جج کے حوالے سے بھی یہ بتایا جانا چاہیے کہ پاکستان نے اپنا حق استعمال کیوں نہیں کیا؟ دفتر خارجہ اس طریقہ کار سے لاعلم تھا یا اڑتی چڑیا کے پر گن لینے کا دعویٰ کرنے والے خود ستائی کی مار مرے؟ ان معروضات کا مقصد فقط یہ ہے کہ اس مسئلہ کو حب الوطنی اور غداری کا مسئلہ نہ بنائیں ثانیاََ یہ کہ ازسرِ نو سارے معاملے پر غور کر کے دیکھیں کہ غلطی کہاں ہوئی؟ ذمہ داروں کا تعین بہت ضروری ہے۔ کیونکہ اب بھی مشیر خارجہ، دفترِ خارجہ اور اٹارنی جنرل صاحب کی باتوں کا آپس میں کوئی تال میل نہیں۔ بزرگ ترین مشیر خارجہ فرما رہے ہیں کہ عدالٹ نے رائے دی تھی۔ سبحان اللہ۔ وزیر دفاع کا ارشاد ہے حکم امتناعی اب رسمی کارروائی ہے۔ خدا کے بندو پہلے فیصلہ پڑھ لو پھر باتیں بنانا۔ حرف آخر یہ ہے کہ سبکی سے بچنے اور بھارت نوازی کی دھول اڑا کر چھپنے کی بجائے ٹھوس شواہد دنیا کے سامنے لائیں۔ بھارتی جاسوس سے رعائیت کی حمایت کوئی نہیں کر رہا۔ ملکی قوانین مقدم ہیں لیکن یہ ہوا میں تلوار چلانے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn