مستونگ بلوچستان میں جمعۃ المبارک کے روز ہوئی دہشت گردی ہو یا ہفتے کے روز گوادر میں 10محنت کشوں کا رزقِ خاک ہوا خون، آئیں بائیں شائیں کرنے والے کج بحث قاتلوں کے ساتھی ہیں۔ تاویلات گھڑنے کی ضرورت نہیں۔ قاتل قاتل ہے وہ کوئی بھی ہو اور مقتول مقتول۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ بلوچستان میں پسند وناپسند کا کھیل جاری ہے۔ اس کھیل کے کرداروں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کچھ لوگوں کی زبانوں پر لکنت حملہ کردیتی ہے اور کچھ ہمیں کہانیاں سنانے لگتے ہیں۔ آپ سب اپنا خوانچہ کاندھے پر رکھئے اور مال کہیں اور فروخت کیجئے۔ گوادر سانحہ پر فقط سرکاری مؤقف قابل قبول ہے نہ تاویلات گھڑنے والوں کی کہانیاں۔ دونوں غرض سے بندھے حقائق کو مسخ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ 10 محنت کشوں کا سفاکانہ قتل پہلا واقعہ ہرگز نہیں۔ اس سے قبل جو واقعات ہوئے ان کے ذمہ دار کسی نے تلاش نہیں کئے البتہ کبھی معذور شاعر کی نعش ملی اور کبھی کسی استاد کی۔ قاتل سب ایک جیسے ہوتے ہیں۔ جس دن رعایا کو یہ بات سمجھ میں آگئی وہ عوام بننے کی شعوری کوشش کریں گے اور پھر حقِ حکمرانی کے حصول کی جدوجہد۔ شعور اور جدوجہد سے کون خوفزدہ ہے؟ یہ نہ سمجھ میں آنے والا سوال نہیں۔ چلیں ہم لمحہ بھر کے لئے مان لیتے ہیں 10محنت کشوں کو بلوچ شدت پسندوں نے مارا مگر سوال یہ ہے کہ بھوکا بھوکے کو کیوں مارے گا؟ اصولی طور پر تو دونوں کو مل کر بھوکوں کا حق کھانے والوں کے خلاف جدوجہد کرنی چاہیے۔ بہرطور کہانیوں اور تاویلات سے سانحہ یا سانحات کی سنگینی کم نہیں ہوجاتی۔ ہمیں ان خفیہ اداروں سے سوال کرنا ہوں گے جو اُڑتی چڑیا کے پَر گن لینے اور نمبر وَن ہونے کے دعویدار ہیں۔ پھر بلوچستان کی صوبائی حکومت ہے۔ کیا یہ محض ایک کٹھ پتلی حکومت ہے؟ ظاہری تاثر میں اپنا حصہ ڈالے بغیر یہ دریافت کرنا ضروری خیال کرتا ہوں کہ کیا گوادر دوسرے سیارے پر واقع ہے؟ بلوچستان کا شہر ہے تو حکومت کے اداروں کی عملداری کیوں نہیں؟ شیگان اور گنز کے درمیان 19کلومیٹر کی سڑک کے اس منصوبے کا سی پیک سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ 19کلومیٹر کی سڑک صوبائی حکومت کے ترقیاتی پروگراموں کا حصہ ہے اس کے ٹھیکیدار دُرمحمد کو حکام نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ اب ذرا ذمہ داروں کا تعین کیجئے، نااہلی کے مرتکبین کو کٹہرے میں لائیے۔ ایک بات اور عرض کروں پچھلے چند برسوں کے دوران بلوچستان میں جو محنت کش مارے گئے ان کے ورثاءکےلئے امدادوں کا جو اعلان کیا گیا وہ اعلان ہی رہا۔ اس سے آگے کی بات یہ ہے کہ لوگ اغواءہوئے اور پھر مسخ شدہ لاشیں ملیں۔ تحقیقاتی کمیشن بنانے اور مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے میں امر مانع کیا تھا؟ جنگل کا قانون نہیں چلے گا۔ سپریم کورٹ کے ججز صاحبان پر مشتمل ایک قومی تحقیقاتی کمیشن کا قیام ازبس ضروری ہے۔ ہوسکے تو تحقیقات کا آغاز چند سال قبل تربت میں ضلع کچہری سے اغواءہوئے بلوچ قوم پرست رہنما لالہ غلام محمد کے سفاکانہ قتل سے کیجئے۔ لالہ بلوچ کے اغواءکے عینی شاہدین زندہ ہیں اور کچھ مدد اس وقت کے اخبارات کی خبروں اور کالموں سے مل سکتی ہے۔ اس کمیشن کا دائرہ اختیار اگر سندھ اور کراچی تک بڑھا دیا جائے تو بہت بہتر رہے گا۔ مکرر عرض کئے دیتا ہوں دلوں کو جوڑنے کی ضرورت ہے۔
ہم سانحہ گوادر سے ایک دن پیچھے چلتے ہیں۔ مستونگ میں نمازجمعہ کے بعد ہوئے ایک خودکش حملے میں لگ بھگ 30افراد جان سے گئے، 50 سے زیادہ زخمی ہوئے۔ زخمیوں میں سینٹ کے ڈپٹی چیئرمین مولانا عبدالغفور حیدری بھی شامل ہیں۔ خودکش بمبار کا نشانہ ان کی گاڑی تھی۔ نیشنل پریس کی جگہ اب ریجنل میڈیا ہے۔ خبریں جزئیات کے ساتھ قارئین اور شہریوں تک نہیں پہنچ پاتیں۔ مستونگ وہی ضلع ہے جہاں ایران اور کربلا جانے والے زائرین کو متعدد بار بسوں سے اتار کر مارا گیا۔ بلوچستان کا سب سے حساس ضلع ہے یہ۔ دو شہرتیں ہیں اس کی اوّلاً یہ کہ لشکر جھنگوی، جنداللہ اور جیش العدل نامی دہشت گرد تنظیموں کے محفوظ ٹھکانے اسی ضلع کی حدود میں ہیں اور تربیتی کیمپ بھی۔ دوسری شہرت یہ ہے کہ بلوچ شدت پسندوں کے خلاف قائم امن لشکر کے تربیتی کیمپ مستونگ میں ہی ہیں۔ کیا سرکار لاعلم ہے؟ جی نہیں۔ امن لشکر ہے کیا؟ سادہ سا جواب ہے رمضان مینگل کی سرپرستی اور رفیق مینگل و شفیق مینگل کی قیادت میں قائم یہ امن لشکر چار چہرے رکھتا ہے اوّلاً امن لشکر، ثانیاً لشکر جھنگوی، ثالثاً جنداللہ، رابعاً جیش العدل۔ چاروں کا سرپرست اعلیٰ ایک ہی شخص ہے وہی جو کوئٹہ میں وزیراعلیٰ سے زیادہ سکیورٹی کے حصار میں رہتا ہے اور پُررونق چوک پر تقریر فرماتے ہوئے کہتا ہے ہزارہ ٹاؤن میں انسان مارنے کی سنچری ہمارے مجاہدین نے بنائی۔ اس اعترافی بیان کے باوجود اس کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی ہمت نہیں ہوئی کسی میں، کیونکہ ان کے پالن ہاروں نے ان سے کام جو لینا ہوتا ہے۔ امن لشکر بھی بے لگاموں کا ایک غول ہے ظاہری طور پر وہ بلوچ شدت پسندوں کے خلاف ایک کردار ہے مگر اصل میں چار کردار ہیں۔ مولانا غفور حیدری پر ہوئے خودکش حملے کو بغور دیکھنا اور سمجھنا ہوگا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ مستونگ میں مذہبی شدت پسندوں کی ایک اپنی قوت ہے۔ پھر طالبان (افغان طالبان) کے امیر کی بیعت یافتہ جمعیت علمائے اسلام نظریاتی اب اگر ہم خودکش حملے کے بعد اس کا اعتراف کئے جانے کے ڈرامے کو دیکھیں تو ایک ہی وقت میں تین تنظیموں نے ذمہ داری قبول کی۔ اوّلاً داعش نے، ثانیاً جنداللہ نے، ثالثاً طالبان نے۔ دو عشروں سے شدت پسندی کے عوامل اور پس پردہ امور پر لکھنے والے اس صحافی کے نزدیک طالبان کا دعویٰ حقیقت کے قریب ہے باقی ”جمعہ جنج نال“ پروگرام ہے۔ افغان طالبان ہوں یا پاکستانی طالبان کے دونوں گروپ تینوں بلوچستان کی پشتون پٹی کے علاقوں کو تسلط روابط، چندے اور افرادی قوت کے حصول کے لئے اہمیت دیتے ہیں۔ سیاسی کجوں کے باوجود جمعیت علمائے اسلام (ف) ان کے راستے میں حائل ہے۔ اس کا سیاسی علاج نظریاتی گروپ بنواکر کیا گیا۔ احسان اللہ احسان کے حوالے سے دو صحافیوں کے دعوے اپنی جگہ مگر طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ احسان اللہ احسان کی واپسی کے سفر میں سہولت کار جمعیت علمائے اسلام (ف) ہے۔ وہ نظریاتی گروپ اور سمیع الحق گروپ کو اپنی فہم کے قریب ترین خیال کرتے ہیں۔ تحقیقات کرنے والے اگر ان پہلوؤں کو مدنظر رکھیں تو زیادہ سر نہیں کھپانا پڑے گا۔ آسانیاں انہیں مجرموں کی گردن پکڑنے میں مدد دے سکتی ہیں۔
مستونگ کے المناک سانحہ کے بعد جمعیت علمائے اسلام (ف) کا ردعمل فطری ہے۔ اتوار کو اس جماعت نے ملک گیر پیمانے پر احتجاج کیا۔ کاش جس رات مستونگ کے اسی ضلع میں خواتین، بچوں اور مردوں کو بسوں سے اتارکر مارا گیا تھا اس سے اگلے دن مولانا اور ان کی جماعت نے یومِ سوگ مناکر آبادی کے دوسری فہم کے حامل طبقے سے یکجہتی کا اظہار کیا ہوتا۔ یہاں تو اپنا شہید اور دوسرے کا ہلاک و جاںبحق کہلاتا ہے۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ دہشت گردی کی کوئی قسم ہو یا نسل ہمہ قسم کی دہشت گردی کے خلاف امن پرستوں کو میدان عمل میں اترنا ہوگا۔ سیاسی اختلاف بعد میں طے کرلیجئے گا۔ فی الوقت تو یہ سوال منہ چِڑا رہا ہے کہ اگر دہشت گردی میں لوگ مرتے رہے تو مذہبی سیاسی یا سیاسی جماعتیں اپنی سیاست مریخ پر کریں گی؟ حرفِ آخر یہ ہے کہ جمعہ اور ہفتہ کے المناک سانحات جن اقدامات کے متقاضی ہیں ان کے لئے تاخیر نامناسب ہوگی۔ حکومت اور ریاستی اداروں کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہئیں۔
بشکریہ خبریں ملتان
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn