پہلے ایک وضاحت پڑھ لیجئے۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی دونوں شاندار سیاسی جدوجہد کی تاریخ رکھنے والی جماعتیں ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے نگار خانہ میں تخلیق ہوئی ن لیگ سے ان کا کوئی موازنہ نہیں۔ البتہ دونوں جماعتیں چونکہ سیاسی عمل میں ہیں اس لئے توصیف کے ساتھ گاہے بہ گاہے تنقید بھی ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر اے این پی جو سیاسی، روحانی، فکری اور تاریخی طور پر نیشنل عوامی پارٹی کی وارث ہے ایک بڑی سیکولر اور ملک گیر جماعت کے درجہ سے نیچے آکر خالص پشتون قوم پرست جماعت بن گئی۔ سیاسیات و تاریخ کے ہم سے طالب علموں کا یہی دکھ ہے۔ معاف کیجئے گا میں قوم پرستی کا مخالف نہیں۔ ایک طالب علم کی حیثیت سے ہمیشہ یہی عرض کیا اور لکھا کہ پاکستان ون نیشن سٹیٹ نہیں بلکہ پانچ قدیم اقوام کی سرزمین پر معرض وجود میں آیا ہوا ملک ہے۔ خطے کی قدیم قوموں کی تہذیبی و تاریخی حیثیت سے انکار اورا یک قومی نظریہ کو مذہبی ورق میں لپیٹ کر پیش کرنے سے مسائل پیدا ہوئے۔ سیاست کے خیمے میں مذہبی فکر کو داخل کرنے کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ اسلام جس سر زمین پر آیا اس کے لوگ عرب کہلانے میں آج بھی فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہمیں اپنی قدیم قومی شناخت پر پتہ نہیں کیوں شرمندگی ہوتی ہے۔ اس جملہ معترضہ کے بعد یہ عرض کروں کہ اے این پی پانچوں قومیتوں کے روشن خیالوں کی نمائندہ جماعت بن سکتی تھی مگر مالکان کی مجبوریوں اور سیاسی ضرورتوں نے قوم پرستی کو ہی حرف آخر سمجھا۔ ایک قدم کی پسپائی نے پاکستانی ترقی پسندوں کی جماعت کو کہاں لاکھڑا کیا اس پر تفصیل سے معروضات پیش کی جاسکتی ہیں مگر میرے دو قابل احترام دوست میاں افتخار حسین اور محفوظ جان کو برا لگے گا۔ سفر حیات کے اس مرحلہ میں دوستوں کو ناراض کیوں کیا جائے پھر بھی یہ عرض کئے بنا نہیں رہا جا سکتا کہ اگر ممکن ہو تو خیبر پختونخوا کی حدود سے باہر نکلیئے موجودہ حالات میں ایک سیکولر ترقی پسند جماعت کی از حد ضرورت ہے۔ذوالفقار علی بھٹو نے بیسویں صدی کی چھٹی دہائی کے دوسرے نصف میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی (یہاں بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ اس سے قبل 1950ء کی دہائی میں باچا خان، مرشد جی ایم سید، سید قسور گردیزی اور چند دیگر رہنماؤں نے بھی پیپلز پارٹی کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنائی تھی) بھٹوکی سیاست اورنظریات سے لاکھ اختلاف کیجیئے مگر یہ سچ ہے کہ انہوں نے اس ملک کے زمین زادوں کو بالا دست طبقات کے سامنے ڈٹ جانے کا حوصلہ دیا۔ وہ انسان ہی تھے کامل ولی یا آسمانی اوتار ہر گز نہیں ان سے غلطیاں بھی سرزد ہوئیں مگر خوبیاں اور خدمات بلا شبہ زیادہ ہیں۔ اپنے قیام سے لے کر 1986ء یا یوں کہہ لیں 1988ء تک پیپلز پارٹی ایک سامراج دشمن عوامی سیاسی جماعت تھی اس کے پلیٹ فارم سے معاشرے کے کچلے ہوئے طبقات نے جنرل ضیاء کی گیارہ سالہ آمریت کے خلاف پر عزم جدوجہد کی۔ ہزاروں کارکنوں نے قید اور کوڑوں کی سزائیں جھیلیں۔ بھٹو صاحب قتل کے ایک جھوٹے مقدمہ میں پھانسی چڑھے۔ 1988ء سے پیپلز پارٹی سمجھوتوں کی سیاست کے بازار میں داخل ہوئی اور بد قسمتی سے محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بھی اس بازار سے نکل نہیں پائی۔ یہی وجہ ہے کہ آج پیپلز پارٹی عوام سے زیادہ جاموں، شیخوں، پیروں، میروں، جاگیر داروں کی ضرورت ہے پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے نچلی سطح تک کے عہدے زیادہ تر نجیب الطرفین خاندانوں کے پاس ہیں یا نو دولتیوں کے پاس۔ چند جذباتی بیانات۔ سوشل میڈیا پر تو تکار اپنی جگہ مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی آج 1960ء کی دہائی والی ترقی پسند سامراج دشمن عوام دوست پارٹی نہیں بلکہ سنٹرل لبرل پارٹی ہے۔ اے این پی ہو یا پیپلز پارٹی دونوں پر تنقید کا مطلب ان کی بھد اڑانا یا تضحیک ہر گز نہیں۔ جن سیاپا فروشوں کو اونچی آواز میں بات کرنا یا کاٹ دار جملوں سے کالم سجانا ہی صحافت لگتا ہے انہیں صحافت اور سیاست کے میدانوں میں در آئی بدعتوں کو ان کی حقیقت کے ساتھ سمجھنا ہوگا۔عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بھٹو کی پیپلز پارٹی پر اب اتنا کڑا وقت بھی آگیا ہے کہ اسے مخدوم فیصل صالح حیات کی سیاست اور پیری کی ضرورت آن پڑی۔ سیاست کے اس حمام میں اگر مخدوم پیپلز پارٹی میں لوٹے ہیں تو پرانے سیاسی مسافر دادو کے لیاقت جتوئی تحریک انصاف میں جمع ہوچکے۔ ہم اس بات کو یہیں چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ اگر اختلاف کریں تو یہ آپ کا نجیب حق ہے لیکن جن حالات سے اس وقت پاکستان اور اس میں بسنے والی اقوام گزر رہی ہیں وہ اس امر کے متقاضی ہیں کہ اے این پی اور پیپلز پارٹی ہر دو کا ایک بار پھر سامراج دشمن سیکولر جماعتوں کے طور پر احیا ہو۔ میں اور آپ امید ہی کرسکتے ہیں۔ پچھلی شب تحریک انصاف کے ایک دوست کہہ رہے تھے اس ملک کے لوگوں کی امیدوں کامرکز تحریک انصاف ہے۔ بہت ادب کے ساتھ ان کی خدمت میں عرض کیا۔ انقلاب کے بھاری پتھر کو چوم کر روایتی سیاست کے گھوڑوں پرکاٹھی ڈال لینے اور مضبوط حلقوں والے امیدوار جمع کرتے چلے جانے سے ایک بڑا طبقہ جو 2013 کے انتخابات میں اپنی قدیم جماعتوں سے مایوس ہو کر تحریک انصاف کی طرف آیا تھا وہ مو جودہ صورتحال سے مایوس ہے۔ بلا شبہ عمران خان نے چند امور پر بروقت اور عوامی امنگوں کے مطابق موقف اپنایا لیکن سوال یہ ہے کہ اس موقف پر وہ کتنی دیر قائم رہے۔ ثانیاً یہ کہ اگر لیاقت جتوئی جیسی شخصیات کو پارٹی میں شامل کرکے کوئی تبدیلی لائی جاسکتی ہے تو اس سوچ پر دعا ئے خیر بھی غیر ضروری ہے۔ حرف آخر یہ ہے کہ اے این پی اور پیپلز پارٹی کے مالکان کو پہلے تو مالکان کے درجہ سے نیچے اتر کر سیاسی رہنماؤں کا کردار اپنانا ہوگا ثانیاً اپنی جماعتوں کے ترقی پسندانہ سیکولر چہرے پر پڑی گرد صاف کرنا ہوگی۔ یہ مشکل کام اگر دونوں جماعتیں نہیں کرپاتیں تو مستقبل کی سیاست میں مزید محدود کردار ہی ان کا مقدر ہوگا۔
بشکریہ مشرق پشاور
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn