کچھ بعید نہیں کہ ہم اگلے چند دنوں میں پڑھ رہے ہوں کہ ملا فضل اللہ نے اس شرط پر قومی دھارے میں آنے کے لئے آمادگی ظاہر کر دی ہے کہ حکومت اولاََ عام معافی کا اعلان کرے اور ثانیاََ ملک میں طالبان کے شیخ الحدیث خالد حقانی کی سربراہی میں نفاذ شریعت کمیشن قائم کرے۔ ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ لاریب سب کی خواہش ہے کہ آگے بڑھیں اور امن و استحکام سے عبارت ماحول میں زندگی بسر کریں۔ مگر ایک سادہ سا سوال ہے کیا آگے بڑھنے کے لئے محض عصری تاریخ کے گند سے آنکھیں چرا لینا کافی ہے؟ ساڑھے تین عشروں سے عقائد کے اختلاف پر انسانی لہو بہاتے درندوں کو اچھے بھائی بننے کا موقع دینا ضروری ہے؟ تو پھر ایسا کیوں نہ کیا جائے حکومت سزائے موت کی کوٹھڑیوں میں بند قیدیوں اور مقتولین کے ورثا کے درمیان قانونی معاہدہ کروا کے جیلوں کے دروازے کھول دے۔ جیب کترے یا منشیات فروش بھی اصلاح کا سبق پڑھنے کا حق رکھتے ہیں۔ دس سال کے لئے ہرجرم کے لئے آزادی اور پھر معافی کے قانون سے پولیس، عدالتوں اور جیلوں پر اٹھنے والے کھربوں روپے سالانہ تعلیم، روزگار، صحت اور دوسرے شعبوں پر صرف کیے جا سکتے ہیں۔ ایک قابلِ فخر خوشحال معاشرہ تعمیر کرنے کے لئے اگر تھوڑی سی قربانی دے دی جائے تو کیا برائی ہے؟َ اچھا پھر کیا ہم ان اختلاف اور قتل مقاتلوں کی تاریخ بھی از سرِ نو نہ لکھ دیں؟ میرے بہت سے کمرشل لبڑل دوست نئی تاریخ لکھنے میں خاص مہارت رکھتے ہیں۔ اور کچھ تو دوسروں کی کتابیں بھی اپنے نام سے شائع کروا لیتے ہیں۔ چند اچھے بھلے صحافیوں نے تو دہشت گردوں کے لئے بیوٹی سیلون اور پلاسٹک سرجری کے مراکز قائم کر لئے ہیں۔ ملا فضل اللہ ماضی کے چاکلیٹ ہیرو وحید مراد کے روپ میں کیسے لگیں گے؟ احسان اللہ احسان ندیم کے روپ میں ، مفتی خالد حقانی کو تو میں خالصتاََ قوی کے روپ میں دیکھنے کا آرزو مند ہوں۔ ہم دل بڑا کر لیتے ہیں۔ مثلاََ میں ذاتی طور پر تیار ہوں کے اپنے مربی و استاد اور بڑے بھائی محسن نقوی کے قاتل اکرم لاہوری کو معاف کر دوں بس معمولی سی شرط ہے کہ مجھے محسن بھائی زندہ سلامت مسکراتے اشعار و منقبت پڑھتے چاہیئیں۔
کمرشل لبڑلز کا بنیادی المیہ یہ ہے کہ عالمی سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کے بھونپو اور محافظ ہیں۔ سی پیک کے بعد ہماری اسٹیبلشمنٹ کے اس حصے کو بھی امن کی ضرورت پڑ گئی ہے جس کی دال روٹی اختلافات، تشدد، فتوؤں اور جعلی جہادی کاروبار سے چلتی رہی۔ اب نیا بیانیہ لکھنے کا وقت آ گیا ہے۔ ضرورت ایجاد کی اماں جان ہے۔ ابا کو چھوڑیئے۔ کیا وقت آگیا ہے کہ 40 ہزار کے قریب صوفی سنیوں اور شیعوں کے حقیقی قاتل جماعت سپاہ صحابہ کے احمد لدھیانوی بھی دیوتا سمان قرار دئیے جا رہے ہیں۔ کیا عالمی استعمار (سرمایہ دار و چینی) کی ترجیحات بدل گئی ہیں؟ ایسا ہے تو لگے ہاتھوں تاریخ سے دو دو ہاتھ کیوں نہ کر لیے جائیں؟ انگریزوں کے بنائے ہوئے دونوں مسلم فرقوں کو ہی اصل مسلمان تسلیم کر کے شیعہ اور صوفی سنی مسلمانوں کو اقلیت قرار دے دیا جائے۔
کہتےہیں کہ مکالمہ کیجیئے۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ مکالمہ اہلِ علم اور طالب علموں کے درمیان ہوتا ہے۔ مقتولین کے ورثا اور قاتلوں کے درمیان نہیں۔ کیا نئے سرمایہ دارانہ ریاستی بیانیے کے لئے لازم ہے کہ احمد لدھیانوی کے فہم اسلام کو حرف آخر سمجھ کر تسلیم کیا جائے؟ گنجائش ہو تو چودہ صدیوں کی تاریخ رکھے عقیدوں کے وارثوں کو بھی حق دیا جائے کہ کچھ قانون ان کی فہم کے مطابق بن جائیں۔ کیا سورۃ منافقوں کی روشنی میں قانون سازی کی شرط گراں تو نہیں گزرے گی؟ رہنے دیجیئے ہم نئی بحث کے دروازے نہیں کھولتے۔ بات فقط اتنی ہے کہ چینی سرمایہ کاری سے بندھی شرائط حکومت کی مجبوری ہوں گی ہماری نہیں ہیں۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ تاریخ کے اس پہلو سے یکسر انکار کر دیا جائے جس کا فائدہ صوفی سنیوں یا شیعوں کو پہنچتا ہو۔ یہ تو ایسا ہو گا کہ محمود عباسی کو بھی کاتبِ وحی مان لیا جائے۔ مجھے معاف کیجیئے گا منافقت بھرے بیانیے سے صوفی سنیوں اور شیعوں یا دیگر مذاہب کے پاکستانیوں کو کچھ نہیں ملنے والا۔ یہ بحث ایسے وقت میں چھیڑی گئی ہے جب حکومت پانچ ہزار فوجی افسر اور سپاہی سعودی عرب بھیج رہی ہےاور یہ فوج وہابی بادشاہت کے تحفظ میں کردار ادا کرے گی۔ مکرر عرض ہے کہ مکالمہ کس سے ہو گا؟ لدھیانوی سے؟ وہ تو اپنے طبقے میں ملک اسحٰق اور غلام رسول شاہ کا اصلی قاتل سمجھا جاتا ہے۔ اچھا ویسے لدھیانوی سے مکالمہ کروانے والے حکومت کو یہ مشورہ کیوں نہیں دیتے کہ بھارت، افغانستان اور ایران جیسے پڑوسیوں سے معاملات درست کرے۔ اپنے کمرشل لبڑل دوستوں کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ قاتلوں کو مسیحا اور ڈاکوؤں کو نجات دہندہ بنا کر پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔ ریاست کی رہی سہی عزت کو خاک میں نہ ملائیے۔ شرف انسانی کی رتی برابر بھی رمق اگر آپ کے اندر موجود ہے تو آواز بلند کیجیئے 80 ہزار پاکستانیوں کے قاتلوں اور ان کے ہمہ قسم کے سہولت کاروں کے خلاف قوانین کے مطابق کارروائی کی جائے۔ آپ یہ نہیں کر سکتے تو مہربانی کریں مقتولین کے زخموں پر نمک نہ چھڑکیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn