Qalamkar Website Header Image

جنت سے مشعال شہید کا خط – حیدر جاوید سید

ڈئیر سید! اسلام علیکم۔ آپ حیران ہوں گے کہ میں آپ کو خط کیوں لکھ رہا ہوں۔ وجہ بس اتنی ہے کہ میرے صوبے خیبر پختونخواہ کے لوگ آپ سے بہت محبت کرتے ہیں۔ اسی لئے میں آپ کو خط لکھ رہا ہوں۔ 13 اپریل کو جب عبدالولی خان یونیورسٹی مردان کی کرپٹ انتظامیہ کی سازش کے جال میں پھنس کر میرے طالب علم ساتھی نعرہ تکبیر بلند کر کے مجھے موت کے گھاٹ اتار رہے تھے تو جو پہلی بات میرے ذہن میں آئی وہ اسلام کی تاریخ میں کرپشن اور اقربا پروری کے خلاف پہلی آواز بلند کرنے والے صحابی رسول ﷺ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر کیا جانے والا تشدد اور پھر ان کا مدینہ سے دور ربذہ کے ویران مقام پر اپنی جان خالق حقیقی کے سپرد کر دینا تھا۔ وحشیانہ تشدد کے دوران میں یہ بھی سوچتا رہا کہ کیا میری جان کے درپے یونیورسٹی افسر شاہی پندرہ بیس کروڑ کی کرپشن والی دولت سے قیامت تک فیض یاب ہوتی رہے گی؟ یہ سوچیں دم توڑ گئیں جیسے ہی میری سانسوں کی ڈور ٹوٹ گئی۔ جسم و جان کا رشتہ منقطع ہوا تو چند نورانی چہرے والے مجھے یہاں لے آئے۔ راستے میں ان سے تعارف ہوا توان فرشتوں نے بتایا کہ کرپشن کے خلاف جہاد کرتے ہوئے لٹیروں کے ہاتھوں شہید ہونے والوں کو جنت کی ابوذر کالونی میں جگہ ملتی ہے۔ میں پچھلے چند دنوں سے اس کالونی میں رہ رہا ہوں۔ آگے بڑھنے سے قبل اس کالونی کے بارے کچھ بتا دیتا ہوں۔ ابوذر کالونی میں حکومت کے وقت کے جبروستم کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کے علاوہ صوفیائے کرام کا وہ طبقہ بھی مقیم ہے جو بالادستوں کے مقابلے میں زیردستوں کے ساتھ کھڑا ہوتارہا۔میں ابھی کچھ دیر قبل ہی اپنے محبوب پشتون شاعر و صوفی حضرت رحمٰن بابا اور غنی خان سے ملاقات کر کے آیا ہوں۔ رحمٰن بابا کے ہاں آپ کے پیارے محبوب اور مرشد سید بلھے شاہ کے علاوہ سلمان تاثیر بھی موجود تھے اور میرے پشتون بزرگ بشیر بلور بھی۔ سرمد شہید، ہوش محمد شیدی، عجب خان آفریدی، سچل سرمست اور حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی کے علاوہ جی ایم سید بھی کالونی کے اسی بلاک میں رہتے ہیں جس میں رحمٰن بابا مقیم ہیں۔
ڈئیر سید! مجھے آج ہی بشیر بلور صاحب نے بتایا کہ میرے رشتہ داروں اور پشتون قوم کے علاوہ پاکستان بھر کے انسانیت پرست اس سچ کو جان چکے ہیں کہ مجھ پر توہین رسالت ﷺ کا الزام اس لئے لگایا گیا کہ جذباتی نوجوان مشتعل ہو کر مجھے قتل کر دیں گے۔ اس طرح لٹیروں کے ٹولے کے راستے کا پتھر ہٹ جائے گا اور میرے انجام سے خوفزدہ ہو کر یونیورسٹی میں کرپشن ، اقربا پروری، اختیارات سے تجاوز اور ایک ایک آدمی کے تین تین عہدے رکھنے کے خالف کوئی آواز نہیں اٹھائے گا۔ میرے قتل کا منصوبہ بنانے والے نے پہلے میرے دوست عبداللہ پر قادیانی ہونے کا الزام لگایا تھا۔ اس وقت بھی سازش یہ تھی کہ مجھے قادیانیوں کا حامی قرار دے کر ماردیا جائے۔ پھر مجھے ملحد قرار دیا گیا۔ بھلا رحمٰن بابا اور غنی خان کی شاعری کا عاشق ملحد ہو سکتا ہے؟ یہ دونوں پشتون صوفی تو انسانیت پرست تھے اسی لئے پشتونوں کے دلوں میں بستے ہیں۔ کچھ عقل کے اندھے کہتے تھے کہ میں روس سے ایک خاص ایجنڈا لے کر پاکستان آیا تھا۔ کیسے عجیب بوزنے ہیں یہ۔ میں ان کے حق کے لئے آواز بلند کرتا تھا اور وہ میرے خون کے پیاسے بن گئے۔ ڈئیر شاہ جی! مجھے اللہ اور اس کے رسول اکرم ﷺ کی عدالت سے انصاف ملنے کا پورا یقین ہے۔ خدا اور اس کا رسول ﷺ جانتے ہیں کہ میں بے گناہ ہوں۔ میرا قصور صرف یہ ہے کہ میں نے یونیورسٹی انتظامیہ کے کرپٹ لوگوں کی طرف سے حصے کی پیشکش مسترد کر دی تھی۔ میرے سفید پوش والد نے مجھے رزق حلال سے پالا پوسا اور پڑھایا تھا، میں کیسے حرام کےلقمے اپنے پیٹ میں ڈالتا۔ شاہ جی! کیا ضروری ہے کہ جو آدمی خودساختہ مذہبی روایات پر یقین نہ رکھتا ہو وہ ملحد قرار دے دیا جائے؟ اگر اس اصول کو مان لیں تو پھر اسلامی تعلیمات مسخ کرنے والے مسلمان کہلانے کے حقدار کیسے ٹھہرائے جائیں گے؟ میں ایک سیدھا سادھا مسلمان تھا اور ہوں۔ مجھے دنیا بھر کے صاحبان علم اور عوام دوست دانا اچھے لگتے تھے۔ غنی خان ہو کہ رحمٰن بابا، نور محمد ترکئی ہو یا مارکس، بلھے شاہؒ ہوں یا حسین بن منصور حلاج ؒ، میں ان کی عظمت ، علم اور انسان دوستی کو مذہب و مسلک کے تعصب والی عینک سے نہیں دیکھتا تھا۔ ان بزرگوں کی تعلیمات اور جدوجہد نے مجھے حق اور سچ کا راستہ اپنانے کی توفیق دی۔ ہم کیوں اپنے حصے کا سچ بولنے سے بھاگتے ہیں۔ کیوں یہ سمجھتے ہیں کہ کرپشن، تعصبات، علمی و فکری بددیانتی کے خلاف آواز بلند کرنا مشکل ہے۔ کیوں مشکل ہے؟ یونیورسٹی میں ہوئی کرپشن اور اقربا پروری کے خلاف آواز اٹھانا میرا فرض تھا ۔ اس فرض کی ادائیگی میں جان ہی تو گئی ہے۔ قیامت تک کون زندہ رہتا ہے۔ کیا شعبہ ابلاغیات میں موجود کرپٹ ٹولہ دو چار سو سال زندہ رہنے کا اشٹام پیپر لکھوا کرآیا ہوا ہے؟

یہ بھی پڑھئے:  سچ آکھیاں بھانبڑ مچ دا اے

سانحہ مردان یونیورسٹی اور پسِ پردہ حقائق – حیدر جاوید سید

ڈئیر سید! کیا یہ ظلم نہیں کہ خیبر پختونخواہ کی دوسری سرکاری یونیوسٹیوں کے مقابلہ میں میری یونیورسٹی کی فیسیں بہت زیادہ ہیں۔ یہ لوگ سوچتے کیوں نہیں کہ غریب طبقات کے بچے کیسے تعلیم حاصل کریں گے؟مجھے افسوس ہے کہ میرے ہم مکتب اس تلخ حقیقت کو نہیں سمجھ پائے تھے کہ یونیورسٹی انتظامیہ کے جوبڑے کروڑوں روپے کی کرپشن اور دوسرے ناپسندیدہ معاملات میں ملوث ہوں وہ طلباء میں پیدا ہونے والے شعور سے خوفزدہ تھے۔ میرا قتل اسی کرپٹ مافیا کی گھناؤنی سازش کا نتیجہ تھا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ میرے قتل میں سب نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ کیا اسلامی، کیا انصافی اور کیا قو پرست۔ اور اب سارے ایک دوسرے پر الزام دھرتے اور اپنی صفائیاں دیتے پھر رہے ہیں۔ شاہ جی! ہمارے استاد محترم فرید اللہ صاحب کے اندر کا استاد اور انسان میری جان گنوا کر ہی کیوں بیدار ہوا؟ جب شعبہ ابلاغیات کے بڑے مجھے دھمکا رہے تھے تو ان کی ترجمانی کے فرائض کون ادا کر رہا تھا؟ اب کسی کو کرپٹ مافیا کا ساتھ دینے پر شرمندگی ہے توکوئی مہرہ بننے پر شرمندہ ہے۔ میرے قتل کے بعد جفا سے توبہ کرنے والو تمہیں خوف خدا پہلے کیوں لاحق نہ ہوا؟ میری ماں اور بہنوں کے بین سنے تم نے؟ یہ آخر ی سانسوں تک تمہارا تعاقب کریں گے۔ اب جنہیں احساس فرض چین نہیں لینے دے رہا وہ 13 اپریل سے قبل تو مجھے کہتے تھے "نوجوان! زندگی برباد نہ کرو ہم تمہارے لئے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں”۔ اللہ کا شکر ہے میں ان کے جھانسے میں نہیں آیا۔ ابھی پہلا پردہ اٹھا ہے مزید پردے اٹھ سکتے ہیں اگر صرف اتنا کر لیا جائے کہ یونیورسٹی میں پچھلے پانچ سال کے دوران ہونے والی کانفرنسسز کے اخراجات اور دئیے گئے ٹھیکوں کا ریکارڈ قبضے میں لے کر تحقیقات کروا لی جائیں۔ مگر ایسا ہو گانہیں اور اب بھی بڑے ڈاکو چھوٹے چوروں کا تحفظ کریں گے۔ جیسے میری زندگی کے آخری دن سے تین دن پہلے سرخپوشوں کی ناک کا بال بنے ایک ضلعی کرتا دھرتا نے مجھے اپنے دفتر میں بلا کر "محبت” سے دھمکایا تھا۔
ڈئیر سید! مجھے آپ کے بے ہنگم سماج اور اس دوغلے نظام دونوں پر ترس آتا ہے۔ اب بے وقت کے واویلے کا کیا فائدہ؟ البتہ اگر حکومت سنجیدہ ہے تو انصاف کر کے دیکھائے۔ گو مجھے یقین ہے چند دن کا شور اور دکھ ہے اور پھر سب اپنے اپنےحال میں مست ہو جائیں گے۔ میری مظلومیت بھری موت زندگی بھر کا دکھ میرے اہلخانہ کے لئے ہے۔ میرے والد میرا فخر ہیں کہ انہوں نے کامل استقامت کے ساتھ وہی کہا جو ایک سچا انسان کہتا ہے۔ ایک بار پھر یہ عرض کروں گا کہ اب صفائیاں پیش کرنے اور استعفیٰ دے کر ہمدردیاں حاصل کرنے والوں کے اندر کا انسان جاگ ہی گیا ہے تو اس شخص کا نام بتانے میں کیا ہرج ہے جو اس سارے المیہ کا ذمہ دار ہے؟ شاہ جی! میری قوم اور باچا خان کی تعلیمات کو زندگی قرار دینے والوں تک میرا پیغام پہنچا دیں کہ اگر میری جگہ ان کا لخت جگر ہوتا تو پھر بھی وہ اگر مگر چونکہ چنانچہ سے کام لیتے؟ خدا کے لئے دنیاوی منصبوں اور فائدے کے لئے اے این پی کو استعمال کرنے والوں کو پہچانیں، اپنے حصے کا سچ وقت پر بولیں، اور پارٹی کے اندر احتساب کو رواج دیں
واسلام
آپ کا بیٹا
مشعال خان
مکان نمر 1409 ، میثم تمار روڈ، ابوذر کالونی، جنت المعلیٰ

یہ بھی پڑھئے:  ’’ٹوٹے خوابوں کی کرچیوں سے زخمی روحیں‘‘

یہ بھی پڑھیئے:

سانحہ مردان یونیورسٹی اور پسِ پردہ حقائق – حیدر جاوید سید

ہاتھ کیا چومتی وہ انگلیاں ٹوٹی ہوئی تھیں – ڈاکٹر زری اشرف

حالیہ بلاگ پوسٹس