Qalamkar Website Header Image

سانحہ مردان یونیورسٹی، عوام صرف انصاف چاہتے ہیں – حیدرجاوید سید

وزیر اعظم میاں نواز شریف کی یہ بات بجاطور پر درست ہے کہ کوئی نہیں چاہتا کہ اس کا بیٹا یونیورسٹی پڑھنے جائے اور کفن میں واپس آئے۔ عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں انسانیت کے سفاکانہ قتل پر جس قدر افسوس کیا جائے وہ کم ہے۔ اس سانحہ نے ایک بار پھر ہمارے معاشرے میں الزامات اور افواہوں کو حقیقت کا روپ دے کر ذاتی مقاصد حاصل کرنے والوں کی بے حسی کو بے نقاب کردیا ہے۔ کاش مفتی نعیم احمد کی طرح دوسرے مذہبی سکالرز اور علماء بھی اس نازک معاملے پر جرأت آمیز انداز میں بات کرتے۔ عجیب صورتحال بن چکی ہے۔ کوئی بھی شخص یا گروہ کسی فرد کے خلاف ایک الزام گھڑتا ہے اور لوگوں کا ہجوم سچ کی چھان بین کی توفیق کو جوتے مارتا ہوا قانون کو ہاتھ میں لے لیتا ہے۔ مشعال خان کا سفاکانہ قتل اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں پچھلے ایک عشرے کے دوران اس طرح کے انگنت واقعات ہوچکے۔ بد قسمتی سے دو تین المناک واقعات ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں رونما ہوئے جہاں محض جائیدادیں ہتھیانے کے لئے جھوٹے الزامات کو پر لگائے گئے۔ نتیجہ انسانی جانوں کے ضیاع اور قیمتی جائیدادوں کی بربادی کی صورت میں سامنے آیا۔ چند برس قبل پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں جماعت اسلامی کے ایک کارکن اور حافظ قرآن اسی طرح کے جھوٹے الزامات پر بے دردی سے قتل ہوئے۔ بعد ازاں تحقیقاتی رپورٹ سے ثابت ہوا کہ جلائے گئے کاغذات مقدس اوراق نہیں بلکہ مختلف ڈاکٹروں کے لکھے ہوئے نسخے تھے۔ چند اور واقعات کی طرف بھی توجہ دلائی جاسکتی ہے مگر فی الوقت ہم مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں 13اپریل کو جنم لینے والے سانحہ کی بات کرتے ہیں۔

مقتول طالب علم مشعال خان یونیورسٹی فیسوں کے صوبے کی دیگر یونیورسٹیوں کے مقابلہ میں 400فیصد زائد ہونے’ یونیورسٹی کی وائس چانسلر سے محرومی’ شعبہ ابلاغیات سمیت دیگر شعبوں اور ٹھیکوں میں کروڑوں روپے کی کرپشن کے خلاف ایک تحریک منظم کر رہا تھا۔ میری دانست میں تحقیقات کرنے والوں کو یہ تین پہلو بھی بطور خاص مد نظر رکھنا ہوں گے۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ ایک اعلیٰ عسکری شخصیت کے حکم پر حساس اداروں نے پولیس کے تعاون سے مقتول طالب علم کے موبائل اور لیپ ٹاپ کی ٹیکنیکل طور پر چھان بین کرلی ہے اور ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالب علم کے موبائل اور لیپ ٹاپ سے کسی قسم کا گستاخانہ مواد سوشل میڈیا پر اپ لوڈ نہیں کیا گیا۔ یہاں دو باتیں بہت اہم ہیں اولاً یہ کہ مشعال اور اس کے چند ساتھیوں کو یونیورسٹی سے نکالنے کا نوٹیفیکیشن عین اس وقت یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیا گیا جب من گھڑت الزام کی وجہ سے یونیورسٹی پر بلوائیوں کا قبضہ تھا۔ ثانیاً یہ کہ مشعال خان کا جعلی فیس بک اکاؤنٹ اس کے قتل سے پہلے پچھلے سال میں بنایا گیا۔ اس اکاؤنٹ کے بارے میں مشعال نے اپنی فیس بک وال پر پوسٹ بھی لگائی کہ یہ اس کے نام پر کسی نے جعلی اکاؤنٹ بنایا ہے۔ یہ اکاؤنٹ مشعال کے قتل والے روز رات تقریباََ پونے بارہ بجے تک ایکٹیو رہا اور اس کے بعد بند کر دیا گیا۔ تحقیقات کرنے والوں کو ان دو باتوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ جہاں تک بعض طلبہ تنظیموں اور ایک سیاسی جماعت کی طرف سے اپنے ملوث نہ ہونے کی وضاحتوں کا تعلق ہے تو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان طلبہ تنظیموں اور سیاسی جماعت کے کارکنان ہی درج کئے جانے والے مقدمہ کے نامزد ملزمان ہیں۔ پھر یہ بھی کہ سانحہ کی ویڈیوز موجود ہیں جن سے ملزمان کی شاخت ہوسکتی ہے۔ جس بنیادی بات کو ہم سب نظر انداز کر رہے ہیں وہ اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں عدم برداشت کاپھیلاؤ ہے۔ کیا میں عرض کروں کہ ہمارے نصاب تعلیم میں انسان سازی کو بنیادی اہمیت کبھی بھی حاصل نہیں ہوئی۔ جہالت و عدم برداشت کے ساتھ تحقیق کے بغیر کسی بھی بات کو سچ سمجھ لینا اور خود ہی منصف بن جانے کے امراض میں بڑھاوے کا سبب ہے۔ وقت آگیا ہے کہ جہالت و عدم برداشت اور شخصی مفاد کے لئے گھناؤنے الزامات لگا کر المیوں کا دروازہ کھولنے کا تدارک کیا جائے۔ اس کی واحد صورت قانون سازی ہے لیکن سختی سے عمل کے ساتھ مشروط قانون سازی۔ ہم ایسے مزید واقعات سے بچنا چاہتے ہیں تو پھر ہر شخص اور ادارے کو اپنا کردار پوری جرأت کے ساتھ ادا کرنا ہوگا۔ محض یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ شدت پسندی بے لگام ہوچکی۔ یا یہ کہ مشتعل ہجوم کسی کے قابو نہیں آتا۔ مشعال خان کے خلاف زہریلا زبانی پروپیگنڈہ 12اپریل سے بھی پہلے سے جاری تھا۔ یونیورسٹی انتظامیہ کرپشن کے الزامات کی زد میں تھی’ بنیادی طور پر کرپشن میں ملوث افراد نے ہی سازش کے تانے بانے بنے ہیں۔ اب تک واضح ہو پایا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کرپشن کے ثبوتوں کو لے کر احتساب کی آواز بلند کرنا ناقابل تلافی جرم ہے؟۔ حضور مسئلہ یہ ہے کہ اگر مشعال خان کے قاتلوں کو نشان عبرت نہ بنایا گیا تو پھر ہر کرپٹ اور جاہل کے ہاتھ میں بندر کی طرح استرا آجائے گا اس کا جو نتیجہ نکلے گا اس پر بہت زیادہ مغز ماری کی ضرورت نہیں۔ آزادانہ تحقیقات اور ملزموں سے قانون کے مطابق سلوک ہی ان زخموں پر مرہم رکھنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے تو اس باپ پر کیا گزری ہوگی ‘ اس ماں کاکیا حال ہوگا جو اپنے خوابوں کے اس طور چکنا چور ہو جانے پر نوحہ کناں ہیں۔ صاف سیدھی بات یہ ہے کہ انصاف کی باتیں اور بڑھکیں نہیں انصاف ہوتا ہوا دکھائی دینا چاہئے یہی ہمارے آج کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  سولہ جولائی 2016ء : تکفیری فاشزم کے خلاف تجدید عہد کا دن

بشکریہ مشرق پشاور

حالیہ بلاگ پوسٹس