Qalamkar Website Header Image

بھاڑے کی غیرتِ اسلامی کے موسم – حیدر جاوید سید

مکمل خبر یہ ہے کہ شام کے شہر خان شیخون میں ایک فضائی حملے میں 100 افراد جاں بحق اور 400 سے زائد زخمی ہوئے۔ مرنے والوں میں 12 سے 15 بچے بھی شامل ہیں۔ روسی حکام نے اقوام متحدہ میں برطانیہ، امریکہ اور فرانس کی شام کے خلاف قرارداد کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ شامی فضائیہ نے النصرہ فرنٹ کے قبضے میں موجود خان شیخون شہر کی ایک ورکشاپ نما فیکٹری پر حملہ کیا مگر حملے میں زہریلی گیس کے بم استعمال نہیں کیے گئے۔ النصرہ فرنٹ کو سرکاری طور پر دو ارب ڈالر سالانہ امداد دینے والے خلیجی ملک قطر کے الجزیرہ ٹی وی سمیت بشارالاسد مخالف سعودی اتحاد کے زیرِ اثر عربی ذرائع ابلاغ (لبنان اور عراق کے سوا) دعوے میں مصروف ہیں کہ اسد کی فضائیہ نے کیمیکل ہتھیار استعمال کیے۔ عرب اتحاد کے حامی کچھ یورپی ذرائع ابلاغ بھی یہی ریوڑی بیچ رہے ہیں۔ آگے بڑھنے سے قبل ہم ایک سادہ سے سوال پر غور کر لیتے ہیں۔ چند ماہ قبل جب روس اور شام نے داعش کے سفاک قاتلوں سے حلب شہر کا قبضہ چھڑایا تو وہاں داعش کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کیوں نہیں کیے؟ ایک ضمنی بات عرض کر دوں چند سال قبل بھی اسد حکومت پر مخالفین کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کی ایک ویڈیو منظرِ عام پر آئی۔ ایک طوفان ساری دنیا میں برپا ہوا، ہر طرف سے بشارالاسد حکومت کی مردودیت مصدقہ قرار دی جانے لگی۔ مگر چند دنوں بعد منظر عام پر آئی ایک اور ویڈیو میں شواہد کے ساتھ ثابت کیا گیا کہ شامی حکومت کے مخالف جنگجوؤں نے سازش کے تحت گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کیا۔ وہ سارے عالمی صالحین اور محبانِ انسانیت کونوں کھدروں میں چھپ گئے۔ سوال یہ ہے کہ پہلے کی طرح اب بھی سنگین الزام کے لئےالنصرہ کے قبضے والے شہر کا ہی انتخاب کیوں کیا گیاہے؟ سادہ سا جواب یہ ہے کہ النصرہ کے جنگجو قطر کے پالتو ہیں اور النصرہ سالانہ 50 کروڑ ڈالر کا اسلحہ امریکہ سے خرید رہا ہے۔ بشار حکومت کے خلاف قطر اور اسرائیل یکساں حکمتِ عملی اپنائے ہوئے ہیں۔
یہ درست ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں یا زہریلی گیس کا استعمال انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہے۔ لیکن طمانچہ مارا کس نے ؟ دوسری بات یہ ہے کہ دنیا بھر کی طرح پاکستان کے صالحین نے رنڈی رونے سے آسمان سر پر کیوں اٹھا رکھا ہے۔ ان کا درد ِانسانی پشاور کے بانو بازار اور لاہور کی مون مارکیٹ میں ہونے والے خود کش حملوں کے دوران جاں بحق ہونے والے 87 بچوں کے لئے کیوں نہیں جاگا؟ یمن کا ذکر اس لئے نہیں کروں گا کہ وہاں ایلِ ایمان کا بابا آدم سعودی عرب جرائم کے ارتکاب میں مصروف ہے۔ سعودی جرائم پر بات کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ایران کے حامی ہیں۔ ثانیاََ یہ کہ وادی سرائے (نجد) کے ڈاکوؤں کی اطاعت و ہمنوائی صالحین کا دینی فریضہ ہے۔ مگر خان شیخون کے المیے کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ وہ یہ کہ مرنے والے 100 ہیں اور زخمی 400 سے زیادہ مگر صرف 8 سے 10 مرحوم بچوں کی تصویر لگا کر جی کے پھپھولے پھوڑنے والوں کا مقصد ظلم کی مذمت سے زیادہ پراکسی میں حصہ ڈالنا ہے۔ لاریب ظلم ہوا۔ مگر ثبوت کے بغیر شامی حکومت کو قطر اور اسرائیل وغیرہ کی خوشنودی کے لئے موردِ الزام ٹھہرانا اور پاکستانی سوشل میڈیا پر اہلِ تشیع کو گالیاں دینے کا جواز کیا ہے؟ اسلام کے ان نجیب اور فطری بچوں کی ذہنی حالت یہ ہے کہ چند دن قبل پارا چنار میں 24 شیعہ مسلمان دہشت گردی کی ایک واردات میں شہید ہوئے تو کچھ اسے فرقہ واریت کا نتیجہ قرار دے رہے تھے اور کچھ سرحد پار کی کارستانی۔ بدترین دہشت گردی کو فرقہ واریت قرار دینے والے یہ بھی تو بتا دیں کہ شیعہ، صوفی سنی، قادیانیوں یا عیسائیوں نے جواباََ کتنے خودکش حملے کیے؟
ہم واپس شام چلتے ہیں۔ کچھ عجیب نہیں لگتا کہ داعش کے پیچھے سعودی عرب اور اسرائیل ہیں اور النصرہ فرنٹ کے پیچھے قطر اور اسرائیل؟ چند ساعتوں کے لئے بھاڑے کی غیرتِ اسلامی اور جعلی انسانیت پرستی کو سلا کر اس سوال پر ضرور غور کیجئے کہ آخر اسرائیل مسلمانوں کا ہمدرد کب سے ہوگیا؟ کیا خود مسلمانوں کے اس تازہ مربی نے غزہ کے مغربی کنارے کے مسلمانوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال نہیں کیے؟ میں آپ کو یاد دلا دوں کہ دو برس قبل اسرائیل نے غزہ میں حماس کے ٹھکانوں پر جووحشیانہ بمباری کی تھی وہ متحدہ عرب امارات کی میڈیکل ٹیم کی مرتب کردہ رپورٹ کی بنیاد پر ہوئی۔ ساری دنیا اس کڑوے سچ سے آگاہ ہے سوائے پاکستانی صالحین اور بھاڑے کے غیرت مندوں کے۔ شام کو علاقائی بالادستی کے لئے میدان جنگ بنانے والوں میں سعودی عرب، کویت، قطر، اسرائیل، امریکہ، برطانیہ اور فرانس شامل ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی منطق عجیب ہے۔ لبنانی پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی سیاسی جماعت حزب اللہ دہشت گرد ہے مگر بشار مخالف النصرہ فرنٹ انسانیت سوز کارروائیوں کے ارتکاب کے باوجود جمہوریت پسند۔ بشارالاسد کی حکومت کے مظالم کی تائید کون کر رہا ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ اسلام اور انسانیت کے تازہ محافظ صرف اس وقت کیوں ٹرٹراتے ہوئے باہر نکلتے ہیں جب من گھڑت کہانیوں میں رنگ بھرنے کی ضرورت ہو؟ 5 لاکھ عراقی بچے خلیج کی دوسری جنگ کے دوران غذا ئی قلت اور اتحادیوں کی بمباری سے جاں بحق ہوئے تھے۔ پچھلے دو سال کے دوران یمن میں تین ہزار سے زائد بچے سعودی اتحاد کی بمباری کا رزق ہوئے۔ خان شیخون کے معاملے پرفرقہ پرستی کا طعنہ دینے والے اس وقت چپ کا روزہ کیوں رکھے ہوئے تھے؟ معاف کیجیئے گا وہاں دہشت گردی کو عین اسلام کے طور پر پیش کرنے والے انسانیت کے دشمنوں کے اصل پشت بان ہیں۔ ان کی غیرتِ اسلامی ڈراموں کے وقت انگڑائی لے کر بیدار ہو جاتی ہے سچ مچ کی دہشت گردی کے خلاف تو یہ دو لفظ نہیں بولتے مبادا کہیں نکاح نہ فسخ ہو جائے۔ انسانیت سے محبت کو مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرنے والوں کا مقصد اپنے آقاؤں اور ان کے پالے ہوئے دشت گردوں کے جرائم کی پردہ پوشی ہے۔ اکثر عرض کرتا رہتا ہوں کہ ہم سب اپنی اپنی پسند کا ظالم اور مظلوم پالے ہوئے ہیں سو اس حساب سے ہم سارے انسانیت کے مجرم ہیں۔ آپ کو بہت شوق ہے بشارالاسد اور اہلِ تشیع کو طعنے دینے اور گالیاں دینے کا تو شوق سے دیجیئے۔ مسئلہ یہ ہے کہ گالیوں کے سوا آپ کو آتا بھی کچھ نہیں مگر حضور دنیا بہت ترقی کر چکی سو اس سوال کہ جواب دیجیئے کہ النصرہ فرنٹ نے کیمیکل گیس کا ذخیرہ ورکشاپ نما فیکٹری میں کن مقاصد کے لئے کر رکھا تھا اور یہ گیس فراہم کس نے کی؟ قطر نے یا اسرائیل نے؟ کویت نے یا سعودی عرب نے؟ یا پھر اعلیٰ حضرت خلیفہ اردگان نے؟

حالیہ بلاگ پوسٹس