Qalamkar Website Header Image

یہاں دودھ کا دُھلا کون ہے ؟ – حیدر جاوید سید

ایسا لگتا ہے کہ سیاستدانوں کے کپڑے اتارومہم ایک بار پھر جوش وخروش کے ساتھ شروع ہونے والی ہے۔ مجاہدین اسلام اپنے ایمان کا حقہ تازہ رکھنے کے لئے سنی سنائی باتوں کو پر لگا کر اڑائیں گے ۔ مگر یہ کوئی بھی سوچنے پر تیا رنہیں کہ فائدہ کس کو ہوگا ۔ اس ملک میں کونسی گالی ہے جو سیاستدانوں کو نہیں دی گئی ۔ کس ملک کا ایجنٹ نہیں کہا ۔ خیر سے خود سیاستدانوں نے بھی ایک دوسرے کے ساتھ کم نہیں کی پھر پاؤ ں پکڑے ، گھٹنے چھوئے، معافیاں طلب کیں اور کہا فلاں ادارے نے مجبور کیا تھا ۔ ساعت بھر کے لئے رک کر یہ بتا تے جایئے کہ کبھی کسی نے فیلڈ مارشل ایوب ، جنرل ضیاء الحق اورجنرل پرویز مشرف نامی تین فوجی آمروں اور ان کے درباری جرنیلوں سے بھی پوچھا کہ حضور یہ ٹھاٹ باٹھ کیسے ؟ ۔ معاف کیجئے گا کبھی نہیں پوچھیں گے ۔ وجہ فقط اتنی ہے کہ بر صغیر پا ک وہند کے مسلمانوں کو لشکر ہمیشہ محبوب ہوئے وہ حملہ آور لشکر ہوں یا بغاوت کے نتیجہ میں اقتدار پر قبضہ کرنے والے صدیوں سے بنی ذہنی ساخت دوچار سات دہائیوں میں تبدیل نہیں ہوتی ۔ ابھی پچھلے برس کی بات ہے شکریہ راحیل شریف کا سیلاب آیا ہوا تھا ۔ چوکوں اور سڑکوں پربینرز لگے ہوئے تھے ۔” مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے ؟ ” ۔ آمریت میں جمہوریت اورجمہوریت میں آمریت تلاش کرتے اس ہجوم جسے کچھ لوگ قوم کہتے ہیں کی فہم کیا ہے اور منزل کیا ہے کسی کو معلوم نہیں ۔ پونے پینتالیس کروڑ ڈالر کا سوال ہے اور جواب دینے والے کو پونے سات توپوں کی سلامی پیش کی جائے گی ۔ میں یہاں تین سوال آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ۔ اولاً یہ کہ اکتوبر 1997ء میں صدر فاروق احمد خان لغاری نے پیپلز پارٹی کے احسانوں کا بدلہ چکاتے ہوئے محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو بر طرف کردیا ۔بے نظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری اس رات پنجاب کے گورنر خواجہ طارق رحیم کے مہمان کے طور پر گورنر ہاؤس میں مقیم تھے ان کی گرفتاری گورنر ہاؤس لاہور سے ہوئی ۔ اہتمام کے ساتھ اخبارات اور سرکاری ٹی وی پر خبر چھپوائی اور نشر کروائی گئی کہ زرداری کی گرفتاری کے وقت ان کے کمرے سے چار سوٹ کیس بھی تحویل میں لئے گئے جو ڈالروں ،پاؤنڈز اور سونے سے بھرے ہوئے تھے۔ ان کی مجموعی مالیت دو ارب روپے کے قریب بتائی گئی ۔ وہ مال مقدمہ کہا ں گیا ؟ ۔ڈاکٹر عاصم پر وزیر اعظم گیلانی کے مشیر کے طور پر کرپشن کے سنگین الزامات عائد ہوئے ۔مگر انہیں گرفتار دہشت گردوں کی سہولت کاری کے الزام میں کیا گیا ۔ ایک ایسا ہسپتال جہاں سارا کام کمپیوٹرائز طریقے سے ہوتا تھا اور اس کے داخلہ خارجہ اور حساب کی رسیدیں مینوئل (ہاتھ سے ) طریقہ سے بنا کر عدالتوں میں پیش کرنے اور سیاپا فروشوں کے ذریعے دہشت گردوں کے عالمی سہولت کار کی گرفتار ی کا کریڈیٹ لینے کے ساتھ بھارتی صوبہ بہار میں ڈاکٹر عاصم کا ہسپتال تلاش کرنے والے جاسوس اعظم کہاں گم ہوگئے اور کیوں بعد میں ان کی گرفتاری کرپشن کے مقدمات میں کروائی گئی ۔ پیر سید حامد سعید کاظمی پر حج کرپشن کیس بنا یہ اپنی نوعیت کا عجیب کیس تھا اس وزیر یعنی حامد سعید کاظمی کے دبائو پر اس سال سعودی حکومت نے پاکستانی حاجیوں کو 25ہزار روپے فی کس پاکستانی وزارت حج و مذہبی امور کی معرفت اس لئے واپس کئے کہ حج پروگرام کی سعودی کمپنیوں نے معاہدے کے مطابق پاکستانی حاجیوں کو سہولتیں نہیں دی تھیں ۔ 25ہزار روپے فی کس واپسی کا بوجھ اٹھانے والی سعودی کمپنی کے مالک نے اس وقت کے چیف جسٹس چودھری افتخار کو ایک خط لکھا اور ملتانی سید زادہ 5سال سے زیادہ رسوا ہوتا رہا چار سال تو اس نے جیل میں بسر کر دیئے ۔ ان تین سوالوں کا جواب تلاش کیجئے ۔ ایان علی کا قصہ لکھ سکتا ہوں زیر زبر کے ساتھ تفصیلات سے تو صحافی آگاہ ہے مگر اس خاتون کو زرداری سے منسوب کر کے تسکین پانے والے ورثا ناراض ہو جائیں گے اس لئے رہنے دیجئے ۔ صحافت و سیاست کے طالب علم کی حیثیت سے مجھے بھی دو پارٹی نظام پسند نہیں مگر دو پارٹی نظام میں تبدیلی گالیوں’ کردار کشی اور عدم برداشت کو پروان چڑھا کر لانی ہے تو دور سے سات سلام۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ایک اچھے بلکہ اعلیٰ سماجی ریفارمر ہیں۔ سیاست کے میدان میں اترے 18برسوں کے کشٹ کے بعد ”مہربان” ان پر مہربان ہوئے لوئر مڈل اور مڈل کلاسوں سے تعلق رکھنے والے رائے دہندگان کو ان کی صورت میں رہنما مل گیا ۔ ان دونوں کلاسوں کی ذہنی ساخت جمہوریت بیزاری اور شخصی آمریت سے محبت پر عبارت ہے۔ سیاستدانوں کو منہ بھر کے گالیاں دینے والے ان دونوں طبقات سے جب کبھی معاشرے کے دوسرے سکہ بند ڈاکوئوں بارے سوال کریں تو کسی تاخیر کے بغیر غدار اور کافر قرار دے دیتے ہیں یعنی اس ملک میں حب الوطنی اور ایمان کی سند حاصل کرنے کی شرط یہ ہے کہ سیاستدانوں کو گالی دی جائے۔ کیوں بھئی گالی کیوں انتخابی عمل میں آپ کے پاس چوائس ہے نا ووٹ کی طاقت سے سیاست کے میدان میں موجود کرپٹ سیاستدانوں کو گھر کا راستہ دکھائیے۔ سیاست آپ بھی کر رہے ہیں اور فرشتوں کی جماعت تحریک انصاف بھی نہیں ایک دو نہیں پورے سات پراپرٹی ڈیلر اس کے بڑے رہنما ہیں اور ان ساتوں پر انگنت الزامات بھی۔ یہاں کرپشن سے نفرت کا جذبہ پانی کیوں بھرنے لگتا ہے؟ لاریب دو جماعتی نظام کے سر پر تیسری قوت کا چیک اینڈ بیلنس ہونا چاہئے۔ تحریک انصاف 2013ء میں ووٹ لینے والی دوسری بڑی جماعت تھی۔ ایک عامل صحافی کی حیثیت سے میں چاہوں گا کہ اس کی مرکزیت اور افادیت قائم رہے لیکن محترم عمران خان اور ان کے کارکنوں کی خدمت میں عرض ہے کہ گالم گلوچ اور الزام تراشی کی بجائے سنجیدہ سیاست کیجئے۔ پانامہ کیس میں آپ کا موقف درست تھا عوام کی اکثریت نے اسے پسند کیا مگر حضور آپ پر بھی عطائے الٰہی نہیں کہ فقط آپ سچے اور باقی جھوٹے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے:  تیسری جنگ

بشکریہ روزنامہ مشرق پشاور

حالیہ بلاگ پوسٹس