Qalamkar Website Header Image

زرداری ان پنجاب اور چند معروضات – حیدر جاوید سید

سابق صدر مملکت اور ”فور پی” پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے سربراہ آصف علی زرداری لاہور میں ہیں۔ چند دن قبل وہ ملتان بھی گئے جہاں انہوں نے حج کرپشن کیس سے بری ہونے والے سابق وزیر سید حامد سعید کاظمی سے ملاقات کی اور دو عدد پریس کانفرنسوں میں مسلم لیگ(ن) کی مرکزی اور پنجاب حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ انہوں نے ملتانیوں سے کہا ”آپ مجھے پنجاب دلوادیں میں آپ کو سرائیکی صوبہ دوں گا”۔ پیپلز پارٹی اور خود اپنی ذات پر گرجتے برستے لیگی رہنماؤں کو انہوں نے خوب سنائیں۔ لاہور میں بھی وہ روزانہ سیاسی میلہ سجاتے گرجتے برستے دکھائی دے رہے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کے میڈیا منیجروں نے نون لیگ کے پچھلے دو ادوار میں ان کے لئے مسٹر 10پرسنٹ اور مسٹر 100پرسنٹ کی پھبتی اچھالی تھی۔ پھر چشم فلک نے یہ بھی دیکھا کہ میاں نواز شریف زرداری کے بڑے بھائی بن گئے۔ سیاست عجیب چیز ہے’ سیاستدان اپنے مخالف کے خلاف ”زبان دانی” کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ نہیں سوچتے کہ کل کیا ہوگا۔ بات دور نکل گئی بہر طور مسلم لیگ(ن) کی طرف سے مسٹر 10پرسنٹ سے مسٹر 100پرسنٹ تک کے خطاب پانے والے آصف علی زرداری ان دنوں پنجاب کے پایہ تخت لاہور میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ ان کے بیانات’ تقریریں اور میڈیا ٹاک کسی سیاسی اننگز کی نشاندہی کرتی ہیں۔ یار لوگ اسے ڈرامہ بھی کہتے ہیں ان یار لوگوں کا دعویٰ ہے کہ 2018ء کے انتخابات تک یہ ڈرامہ چلے گا پھر انتخابی نتائج کے بعد نون’ پی پی’ اے این پی اور فضل الرحمن مل کر حکومتیں بنائیں گیا۔ ایک دوسری کہانی بھی سفرکر رہی ہے وہ یہ کہ انتخابی عمل کے آغاز پر پنجاب میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر تحریک انصاف’ ق لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان قومی اسمبلی کی 50 اور صوبائی اسمبلی کی 200 سے زیادہ نشستوں پر خاموش مفاہمت ہوگی۔ مقصد نون لیگ کا راستہ روکنا ہوگا۔ فی الوقت دو کہانیاں سفر کر رہی ہیں سینہ بہ سینہ۔ تبصرے کرنے والے دانش کے موتی رول رہے ہیں۔ ہر دو کہانیوں کے اس اور جناب زرداری ہیں جو خم ٹھونک کر میدان میں لیگی قیادت کو للکار رہے ہیں۔ جواب میں عابد شیر علی نے چند شرلیاں ضرور چھوڑی ہیں لیکن ان شرلیوں کو سنجیدہ لینا ممکن نہیں۔ البتہ کھلے لفظوں میں انہوں نے زرداری کو دھمکی دی ہے اس سے لگتا ہے کہ ایوان وزیر اعظم میں کوئی کھچڑی پک رہی ہے۔ ایسا ہے تو یہ عرض کرنا مناسب ہوگا کہ گرم کھچڑی کھانے سے پرہیز اچھا ہے ورنہ منہ بھی جل سکتا ہے۔ سیاست وسیع میدان ہے پنجاب یا کوئی دوسرا صوبہ کسی بھی سیاستدان اور پارٹی کے لئے شجر ممنوعہ ہر گز نہیں اور سیاست بھی عشق ممنوعہ نہیں ہے۔ جناب زرداری پنجاب میں جو سیاسی میلہ لگائے ہوئے ہیں اس سے گھروں میں بیٹھے جیالے تیاری پکڑ رہے ہیں اور بعض میدان میں بھی ہیں۔ مگر کیا زرداری اور پیپلز پارٹی کے پاس رائے دہندگان کو دینے کے لئے بھی کچھ ہے یہی بنیادی سوال ہے اسے ہی مد نظر رکھنا ہوگا۔ بھٹو صاحب نے جب پیپلز پارٹی بنائی تھی تو یہ عوام دوست اور سامراج دشمن جماعت تھی۔ بدقسمتی سے محترمہ بے نظیر بھٹو کے دونوں دور ا قتدار عالمی سامراج کے مقامی گماشتوں سے سمجھوتوں کی بدولت تھے اور دونوں بار پہلے سے طے کردہ منصوبے کے مطابق پیپلز پارٹی کو ذلیل کرکے اقتدار سے نکالا گیا۔ بے نظیر بھٹو راولپنڈی کی ایک سڑک پر خون میں نہلا دی گئیں۔ زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی۔سول ملٹری’ بیورو کریسی’ افتخار چودھری کی عدالتیں، اسلام پسند صحافی اور میٹرو پول کلب کراچی کے ایک پرانے تنازعے سے ذاتی دشمن بننے والے ایک بڑے میڈیا ہاؤس کے مالک سمیت بہت ساری قوتیں ایکا کرکے میدان میں تھیں۔ 2008ء سے 2013ء کے درمیان سینکڑوں ہزاروں لوگ روزانہ نصف شب تک پیپلز پارٹی کو دفنا اور زرداری کو کفنا کے سوتے تھے۔ 2013ء کے انتخابی عمل میں ریاستی ایکٹروں’ صحافتی جانبازوں’ آر اوز کے علاوہ طالبان بھی پیپلز پارٹی کے خلاف تھے مگر شکست میں ایک وجہ یہ بھی تھی کہ پیپلز پارٹی جولائی 1977ء کے بعد سے پنجاب کے اقتدار سے محروم تھی۔ ثانیاً یہ کہ جناب زرداری نے جن لوگوں کی معرفت کارکنوں کی دلجوئی کرنے کی کوشش کی ان میں سے 99ویں فیصد ازلی خود غرض ثابت ہوئے اور سب کچھ خود کھا گئے۔ اب جبکہ زرداری پنجاب کو فتح کرنے نکلے ہیں تو پہلے یہ فیصلہ کریں کہ پیپلز پارٹی کیا ہے۔ ترقی پسند عوام دوست جماعت یا نو دولتیوں پر مبنی جعلی اپر مڈل کلاس کی کمپنی۔ ہمہ قسم کی انتہا پسندی کو 1970ء کی دہائی کی طرح للکارے گی یا مفاہمت کا راستہ اپنائے گی۔ سوشلسٹ افکار کا احیا ہوگا یا سنٹرل لبرل فہم کا پرچار ان سب سے بڑھ کر یہ کہ وفاقی طرز سیاست کے زمانے بیت گئے۔ قومیتی حقوق کے سوال پر پیپلز پارٹی کو اپنی پوزیشن واضح کرنا ہوگی۔ ووٹر کسی کی جیب کی گھڑی نہیں پھر بھی بالا دست طبقات کی اجارہ داری کہیں کہیں اب بھی ہے تو پیپلز پارٹی زمین زادوں کے ساتھ کھڑی ہوگی یا اشرافیہ کے ساتھ۔ فیصلہ اگر ابھی کرلیا جائے تو زیادہ بہتر نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں ورنہ دعاؤں پر گزارا۔

یہ بھی پڑھئے:  نواز شریف 1976ء سے 2017ء تک کاسفر

بشکریہ روزنامہ مشرق پشاور

حالیہ بلاگ پوسٹس