Qalamkar Website Header Image

مولانا فضل الرحمان کا سیاسی میلہ – حیدر جاوید سید

چند مہمانوں کی متنازعہ تقاریر سے صرفِ نظر کر کے دیکھا جائے تو جے یو آئی (ف) کے زیرِ اہتمام جمیعت علمائے ہند کے صد سالہ جشن کے نام پر مولانا فضل الرحمان نے ایک اچھا سیاسی شو کر لیا۔ تعداد کے حوالے سے بحث فضول ہے۔ یہاں جلسی کو جلسہ بنا کر پیش کرنے والے بھی بہت ہیں۔ اور 20، 25 ہزار کے جلوس کو ملین مارچ کے طور پر پیش کرنے والے بھی ۔ اسی لئے اس حساب سے مولانا کے سیاسی میلے میں 50 لاکھ افراد واقعتاََ تھے۔ 50 ہزار میں دو اور ڈیڑھ لاکھ میں ایک صفر ہی تو بڑھانا ہے۔ مگر اصل سوال یہ ہرگز نہیں کہ کتنے لوگ تھے۔ کون کون آیا، کس نے کیا کہا؟ بنیادی سوال یہ ہے کہ اس اجتماع میں بیت اللہ کے ایک نائب پیش نماز شیخ صالح بن محمد نے جن خیالات کا اظہار کیا  کیاسعودی عرب کسی پاکستانی رہنما کو اپنے ملک میں اس طرح کے خیالات کے اظہار کا موقع دے گا؟ فقیرراحموں کہتے ہیں کہ ان جی کرتا ہے کہ وہ مسجد نبوی ﷺ کے باہر ایک اجتماع منعقد کریں اور اس میں نجدی آلِ سعود کی تاریخ بیان کریں کہ کیسے انہوں نے برطانوی سامراج کے ساتھ مل کر حجاز مقدس کے ہاشمی حکمران کے خلاف بغاوت کی اور پھر سعودی عرب کے نام سے بادشاہت کی داغ بیل ڈالی۔ ہمارے  دوست علامہ رنگ باز ٹپوری  تو اس سے بھی آگے کی بات کرتے ہیں۔ علامہ خالص قسم کے دیندار علامے ہیں۔ خالص دیندار علاموں کے بارے آپ اگر کچھ نہیں جانتے تو مختصراََ سمجھ لیجئے کہ حقیقی اور ملاوٹ سے پاک صدقہ، زکوٰۃ اور خیرات پر عمر بیتانے والے مولویوں کی اعلیٰ قسم ہے یہ۔ علامہ رنگ باز ٹپوری کو ایک تو اس بات کا غصہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے ان سے چھوٹے چھوٹے بلکہ بہت چھوٹے قسم کے مولویوں کو علامہ کے لاحقوں سے اپنے میلے میں بلایا اور انہیں محض ذاتی دشمنی میں اسی طرح نظر انداز کیا جیسے مولانا سمیع الحق کو۔
ایک مولانا اور ایک علامہ کا یہ جھگڑا چلتارہے گا ہم اس بات پر غور کرتے ہیں کہ خود کو خالص سیکولر جماعت کہنے والی جمعیت علمائے ہند کے پاکستانی ایڈیشن کی ایف برانچ تو  سیکولر ازم کی پکی پیٹھی مخالف ہے بلکہ مولانا تو سیکولرازم سے 1979 ءکے سال کے اس دن سے شدید نفرت کرتے ہیں جب ملتان میں بہمن جی کے شراب خانے پر حملہ ہوا  اور کچھ آدھے پورے سیکولروں نے شراب خانے کے خلاف مولانا کے "جہاد اکبر” کے ساتھ قریبی چرچ میں زبردستی نماز ظہر ادا کرنے کی ضد کو غلط رنگ دیا۔ یہاں مگر ان سارے پرانے قصوں کو دہرانا مقصود نہیں۔بات تو یہ کرنی ہے کہ سعودی عرب کے دو سرکاری ملازموں کو پاکستان میں ایک سیاسی اجتماع سے خطاب کرنے کی اجازت کیوں دی گئی؟ علامہ رنگ باز ٹپوری نے پھر ٹانگ اڑاتے ہوئے فرمایا ہے کہ "فکری طور پر دونوں کا شجرہ کرنل لارنس آف عریبیہ اور برطانیہ سے ملتا ہے۔ اس حساب سے یہ دو چچا زاد بھائیوں کی ملاقات  کا بہانہ تھا”۔ رنگ باز ٹپوری کی اس بات کو کم از کم میں عالم اسلام پر کھلا حملہ سمجھتا ہوں۔ اور یہ ویسا ہی حملہ ہے جیسا امریکہ نے شام پر چند دن قبل کیا۔ عدم اتفاق کے باوجود اس کی مذمت سے زیاد مجھے اپنے پرانے دوست مولانا فضل الرحمان اور رنگ باز ٹپوری میں صلح کرانےمیں دلچسپی ہے۔ دونوں دیندار فنکار اگر کسی اتحاد کا حصہ بن جائیں تو "انقلاب” کو جگایا جا سکتاہے جو مسلمانوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے صدیوں سے سو رہا ہے۔
جے یو آئی (ف) کے سیاسی میلے اور دیگر مواقع پر پیش نماز آف بیت اللہ نے کہا اسلام انسانیت کے لئے امن کا دین ہے۔ لاریب اس سے کسی کو بھی انکار نہیں۔ اصل بات جسے وہ نظر انداز کر گئے یہ ہے کہ مسلمان مسلمان کے لئے خیروسلامتی کا باعث بننے کی بجائے آزار بنا ہوا ہے۔ اسلام دہشت گردی سے منع کرتا ہے مگر مسلمانوں کے ایک بلکہ دو طبقوں کو دہشت گردی بہت زیادہ مرغوب ہے۔ علامہ رنگ باز  ٹپوری  کے غصے  کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عالم اسلام میں تکفیریت اور دہشت گردی کے باوا آدموں نے اپنے جرائم کی پردہ پوشی کے لئے اسلام کی آڑ لے رکھی ہے۔ یہاں آپ کو ایک اور بات بتاؤں جن دنوں مولانا فضل الرحمان سرکاری تعاون، لوگوں کے چندے اورسعودی بادشاہت کی سرپرستی سے میلہ سجائے ہوئے تھے تو انہی دنوں راجن پور میں بزرگ صوفی خواجہ محمد عاقل ؒ کے عرس کی تقریبات کے انعقاد پر ڈی پی او نے درجن بھر سے زیادہ لوگوں کے خلاف نامزد پرچہ درج کروا دیا۔ انصاف یہی بنتا تھا۔ آخر جب اس ملک کے اصلی مالکوں کے لاڈلے اور مالکوں کے آقا ایک روح پرور اجتماع منعقد کر رہے تھے تو چند شرپسند وں کوبدعتیں پھیلانے کی ضرورت کیا تھی؟ یہ صوفیا پرست کب سمجھیں گے کہ پاکستان کا سرکاری مذہب اب وہی ہے جو مولانا فضل الرحمان اور سعودی ملوکیت کے اشتراک سے جنم لے چکا۔ اس لئے مستقبل میں شرک و بدعات سے بھرپور پروگراموں سے اجتناب کیا جائے۔ مجھے امید ہے کہ مولانا فضل الرحمان کا اجتماع ان کے فہم اسلام کی نشاطِ ثانیہ اور نائب پیش نماز آف بیت اللہ کے مقاصد  کا نیا بیانیہ ثابت ہو گا۔ البتہ علامہ رنگ باز ٹپوری  اور فقیر راحموں مجھ سے متفق نہیں۔ ان دونوں کا خیال ہے کہ ملک ایک نئی قسم کی فرقہ واریت اور تشدد کی طرف بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ اللہ کرے ان دونوں کی بات درست ثابت نہ ہو اور مولانا کے ہم عقیدہ عسکریت پسندوں کی جاری کردہ چشمہ ہائے فیض مزید جاری رہیں۔ فیض کے ان چشموں کو آپریشن ردالفساد سے بند نہیں کیا جاسکا تو کوئی اور کیسے کرے گا؟ کیا میں امید کروں کے 32 کروڑ کے چندوں میں سے اچھا خاصا مال بچ رہا ہو گا۔ آخر مولوی کب کوئی کام گھاٹے کا کرتا ہے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس