Qalamkar Website Header Image

حامدسعید کاظمی، حج کرپشن کیس اور چند حقائق – حیدر جاوید سید

سید حامد سعید کاظمی کی عدالتی بریت کے ساتھ ہی ہمہ قسم کے سیاپا فروشوں کی باسی کڑی میں ابال کے ساتھ بھونچال برپا ہوگیا ہے۔ ایسے ایسے "اعلیٰ دماغ” دور کی کوڑیاں لا رہے ہیں جنہیں ان کے گھر والے”ایک ضروری بات کرنی ہے” کا کہہ کر کمرے سے باہر جانےکا کہہ دیتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے پچھلے دور میں حج کرپشن کا کیس جے یو آئی (ف) کے سینٹر اور وفاقی وزیر اعظم سواتی "چوہدری کورٹ” لے کر گئے تھے۔ وجہ ان دنوں بھی عرض کی تھی اب مکرر لکھے دیتا ہوں۔لیکن کچھ ساعتوں کے لئے ہم پیچھے چلتے ہیں۔ وفاقی وزیر حج و مذہبی امور کے طور پر  (اس وزارت کے قیام سے اب تک، یہ وزارت بھٹو صاحب کے دور میں قائم ہوئی اور پہلے وفاقی وزیر مولانا کوثر نیازی تھے) تین صوفی سنی بریلوی وزیر ہوئے۔ اولاََ نظام مصطفیٰ پارٹی والے حاجی حنیف طیب (حاجی صاحب صوفی سنی طلبا تنظیم انجمن طلباء اسلام کے بانیوں اور امام اہلسنت حضرت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی ؒ کے بااعتماد ساتھیوں میں شامل تھے۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کی حمایت و مخالفت کے سوال پر جمیعت علمائے پاکستان کے بطن سے نظام مصطفیٰ پارٹی نکلی تھی) بنے، دوسرے وفاقی وزیر مجاہد اہلسنت حضرت علامہ عبدالستار خان نیازیؒ تھے۔ (جناب نیازی کا جے یو پی کا دھڑا ضیاء مخالف ایم آر ڈی سے تعاون کے سوال پر نورانی میاں ؒ سے الگ ہوا تھا۔ ضیاء کے بعد جناب نیازی ؒ مسلم لیگ ن کے سیاسی اتحادی بنے اور پھر مسلم لیگ (ن) کے دورِ اقتدار میں ہی انہیں وفاقی وزیر حج و مذہبی امور بنایا گیا) تیسرے وزیر حامد سعید کاظمی پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ غزالی زماں حضرت علامہ احمد سعید کاظمیؒ کے فرزند حامد سعید کاظمی 2008ء کے قومی انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر لیاقت پور ضلع رحیم یار خان سے قومی اسمبلی کے رکن بنے۔ اس نشست پر انہوں نے سید یوسف رضاگیلانی کے ماموں زاد بھائی مخدوم سید احمد محمود کو شکست دی تھی اور غالباََ یہی رنج تھا کہ گیلانی صاحب نے حقائق جانتے ہوئے بھی حامد سعیدکاظمی کا دفاع نہیں کیا۔ایک تلخ بات یہ بھی ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کا پیغام گیلانی صاحب تک پہنچ چکا تھا کہ اگر انہوں نے حامد سعید کاظمی کا ساتھ دیا تو ان (گیلانی کے) فرزندِ اکبر سید عبدالقادر گیلانی بھی "زد”میں آئیں گے۔
ہم اصل موضوع پر آتے ہیں۔ جناب حاجی حنیف طیب جنرل ضیاء الحق کے دور میں حج و مذہبی امور کے وزیر بنے تھے۔ وزارت کے اندر ایک خاص فہم کی طاقتور لابی نے ان کے دست راست حاجی رفیق میمن پر کچھ الزامات لگائے مگر بیل منڈھے نہ چڑھ پائی۔ جناب عبدالستار خان نیازی وفاقی وزیر بنے تو ان کے بھانجے اقبال نیازی کے حوالے سے چھوٹے موٹے حج سکینڈل بنائے گئے مگر شریف فیملی پوری قوت سے جناب مولانا نیازی کے ساتھ کھڑی ہوئی۔ حامد سعید کاظمی وفاقی وزیر بنے تو وہ مشہور زمانہ حج سکینڈل سامنے آیا جس کی اوقات دو باتیں تھیں۔ اولاََ وفاقی وزیر اعظم سواتی کا یہ کہنا کہ فلاں شخص نے مجھے قرآن پر حلف دیا ہے کہ اربوں کی کرپشن ہوئی ہے۔ ثانیاََ یہ کہ ایک سعودی شہزادے نے سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس کو خط لکھا تھا۔ معاملہ چونکہ پیپلز پارٹی کے وزیر کا تھا سو جے یو آئی (ف) حکومت کی اتحادی ہوتے ہوئے مسلکی ویر نبھانے کو میدان میں تھی۔ مسلم لیگ (ن) اور اس کے دستر خوان پر پلنے والے سیاپا فروش اپنی کہانیاں سنا رہے تھے۔ اعظم سواتی پہلے ہی اس وزارت کے امیدوار تھے مگر زرداری کا جھکاؤ جناب کاظمی کی طرف تھا۔ مولانا فضل الرحمٰن اپنے برادرِ خورد عطاالرحمٰن کو اس وزارت کے لئے موزوں سمجھتے تھے مگر پھر انہوں نے بھائی کو وفاقی وزیر سیاحت و ثقافت بنوا لیا۔ جناب کاظمی کے دور میں نیا کام یہ ہوا کہ سعودی عرب میں اس وقت کے پاکستانی سفیر صاحبزادہ عمر خان شیر زئی چونکہ فکری اعتباز سے جے یو آئی (ف) کے قریب تھے وہ بھی کاظمی کے مخالف کیمپ میں کھڑے ہوئے۔ جھگڑا وزارت حج و مذہبی امور پر ایک خاص فہم کے دینداروں کی بالادستی کے تنازع کا تھا۔ اس تنازعے میں سعودی عرب کی وزارت حج اور دعوتِ ارشاد والے کاظمی صاحب کے مخالف کیمپ میں کھڑے تھے۔ اس پر ستم یہ ہوا کہ وفاقی وزیر سید حامد سعید کاظمی نے پاکستانی حجاج کو معاہدے کے مطابق سہولتیں نہ دینے کے معاملے پر پہلے مکہ کے پاکستان ہاؤس اور پھر جدہ میں باقاعدہ پریس کانفرنسیں کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ دونوں مرحلوں پر جے یو آئی کے کارندوں اور پاکستانی سفیر نے اپنے ہم عقیدہ حاجیوں کے ذریعے اپنے ہی وفاقی وزیر کے خلاف طوفان بدتمیزی برپا کروایا۔ حامد سعید کاظمی نے اسی پر صاد نہیں کیا بلکہ پاکستان پہنچ کر باقاعدہ تحریری احتجاج کیا۔ سعودی حکومت سے حکومتی سطح پر اس احتجاج کا نتیجہ یہ نکلا کہ سعودی حکومت نے اس سال حج کی تاریخ میں پہلی بار پاکستانی حاجیوں کے سرکاری حج کوٹے پر گئے ہوئے حاجیوں کو 25 ہزار روپے فی کس وزارتِ حج و مذہبی امور کی معرفت واپس کئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عدم سہولتوں والے تنازعہ پر پیدا ہونے والے مسئلے کا ایک حل اس وقت کے پاکستانی سفیر صاحبزادہ عمر خان شیر زئی نے یہ نکالا کہ سید حامد سعید کاظمی کو 5 کروڑ روپے کی پیشکش کروائی۔ یہ پیشکش مکہ کے پاکستان ہاؤس میں ہوئی احتجاجی پریس کانفرنس کے بعد کی گئی اور پھر دو دن بعد جدہ میں رقم 5 کروڑ سے بڑھا کر 10 کروڑ روپے کر دی گئی۔ مگر حامد سعید کاظمی بضد تھے کے حاجیوں کے ساتھ جو زیادتی ہوئی ہے اس کا ازالہ کیا جائے۔
پیپلز پارٹی دور کے اس حج کرپشن سکینڈل کو لے کر سب نے اپنا اپنا "مچ” مارا۔ زمینی حقائق اور اس تنازعے پر بات کرنے کا حوصلہ ان طرم خانوں کو بھی نہ ہوا جو دعویدار ہیں کہ آزادی اظہار اور اصولی صحافت کے لئے انہوں نے قربانیوں کی تاریخ رقم کی(ہائے رے رقم کوئی تاریخ نے رقم سے ان کے گھر تو بھر دیئے مگر صحافت منہ چھپائے پھرتی ہے) جناب کاظمی کو اس کیس میں 16 سال سزا ہوئی۔ انہوں کے اپیل کی اب وہ باعزت بری ہوگئے ۔ ان کی اس برئیت کو لے کر پچھلے تین دنوں سے سیاپے جاری ہیں۔ کوئی اسے پی پی پی ، ن لیگ این آر او کہہ رہا ہے اور کچھ کے منہ سے پھول جھڑ رہے ہیں۔ بالائی سطور میں اس کیس کے حوالے سے جس قدر معروضات مکرر عرض کیں یہ کیس کی سماعت اور ہنگامہ برپا ہونے کے وقت ہر دو مراحل پر اپنے کالموں میں عرض کرتا رہا ہوں۔ اب بھی یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ سیاپے کی بجائے حقائق اور ریکارڈ پر بات کی جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ اس کیس کے سارے کردار زندہ ہیں۔ ایک عامل صحافی کی حیثیت سے اب بھی یہی عرض کروں گا کہ جس سعودی شہزادے نے سپریم کورٹ کو خط لکھا تھا وہ اس ٹھیکیداری نظام کا حصہ ہے جو کمپنیاں حجاج کرام کو سہولت فراہم کرتی ہیں۔ سید حامد سعید کاظمی کرپٹ تھے تو سعودی عرب کی حکومت نے 25 ہزار روپے فی کس کے حساب سے پاکستانی حاجیوں کو اس سال رقم واپس کیوں کی؟ رہے اعظم سواتی تو ان کے بارے میں یہی عرض کرسکتا ہوں کہ وہ اس ملک کے لوگوں کو صرف یہ بتا دیں کہ انہوں نے پہلی بار امریکہ کا ویزہ لیتے وقت اپنا تعلق کس مخصوص مذہب کے ان لوگوں سے لکھا تھا جو پاکستان میں ایک آئینی ترمیم اور ضیاء الحق کے خصوصی قانون کی وجہ سے کچھ مسائل کا شکار تھے۔ اس سارے معاملے میں چند باتیں اور حوالے اور بھی ہیں مگر صحافتی اقدار اور اخلاقیات مانع ہیں۔ البتہ وفاقی وزیر حج و مذہبی امور جب بھی صوفی سنی بریلوی بنے گا اس کے ساتھ یہی ہو گا جو حنیف طیب، عبدالستار نیازی یا حامد سعید کاظمی کےساتھ ہوا۔ کیسے بدقسمت لوگ ہیں ہم کے ہمارے ملک میں منفعت بخش وزارتیں بھی فرقہ وارانہ بالادستی کے کاروبارکی بھینٹ چڑھ گئیں۔ اس پر ستم یہ کہ اس مقدمہ کا پس منظر، سازشوں اور دیگر معاملات کو سمجھے بغیر محض اس لئے لاٹھی چارج شروع کر دیا جائے کہ وزیر کا تعلق پیپلز پارٹی یا صوفی سنی بریلوی عقیدے سے تھا؟ لاریب وزارت حج ومذہبی امور کرپشن سے یکسر پاک نہیں ہے۔ حامد سعید کاظمی کے بعد جو لوگ اس وزارت کے کرتا دھرتا بنے وہ گنگا نہائے ہوئے تھے کیا؟ جی نہیں۔ وہ فکری اعتبار سے اس طبقے کے ہمنوا تھے اور ہیں جو حنیف طیب، عبدالستار نیازی اور حامد سعید کاظمی کے لئے رسوائیوں کا سامان کرتے پھرے۔ سماجی اخلاقیات کو جوتے مارتے مردوزن سے کوئی شکوہ فضول ہے۔ افسوس کہ پیپلز پارٹی نے بھی اپنے سابق وزیر کا مقدمہ اس طرح نہیں لڑا جس طرح لڑنا چاہیے تھا۔ وجہ یہی ہے کہ حامد سعید کاظمی سے شکست کھانے والے سید احمد محمود اور ان کے پھوپھی زاد بھائی سید یوسف رضا گیلانی کا آج بھی پیپلز پارٹی میں "طوطی” بولتا ہے۔ "طوطی” کے اس بولنے کی قیمت حامد سعید کاظمی نے چکائی۔ مجھے کم از کم ان سے ہمدردی ہے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس