ہم ایک ایسے سماج میں جی رہے ہیں جہاں سب کا اپنی اپنی پسند کا ظالم اور مظلوم ہے۔ غیر جانبداری یہ ہے کہ میرے مخالف کو گالی دے کر داد حاصل کیجیئے لیکن میرے "ممدوح” بارے "کلام” کریں گے تو مسلمانی سے جاتے رہیں گے۔ سوا چار عشرے ہوتے ہیں صحافت کے کوچے میں اور درجنوں بار اس کا تلخ تجربہ بھی ہوا۔ لیکن سوشل میڈیانے جو تجربات عطا کیئے ان پر روتا ہوں نا ہنستا۔ سبحان اللہ کی تسبیح پڑھنے کو جی کرتا ہے نہ سورۃ فاتحہ پڑھنے پہ جی آمادہ ہوتا ہے۔ پچھلی شب اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر ایران کے مرحوم صدر حجتہ السلام ہاشمی رفنجانی کی صاحبزادی کو ایرانی عدالت انصاف سے دی گئی 6 ماہ کی قید کے حوالے سے ایک پوسٹ کیا لکھی بس قیامت کے ظہور کی دعوت دے ڈالی۔ سوال یہ ہے کہ آخر آپ (بالخصوص میرے شیعہ برادران) یہ بات کیوں نہیں سمجھتے کہ صحافت کو عقیدے کی لاٹھی سے نہیں ہانکا جا سکتا۔ نظام حکومت کوئی بھی ہو سو فیصد لوگ اس کے حامی نہیں ہوتے۔ اختلافِ رائے خبر کو جنم دیتا ہے۔ صحافی کے لئے خبر اہم ہے۔ کسی بھی طور ممکن نہیں ک ایک خبر جو آپ کے سامنے ہے اسے کفرواسلام کے ترازو میں تولیں۔ گو میرے لئے یہ نئی بات نہیں ہے کہ پاکستان میں برادر اسلامی ممالک (جنہیں ہم برادر سمجھتے ہیں ، ان کے نزدیک ہماری حیثیت کیا ہے ان معاشروں میں چند دن رہ کر دیکھ لیجیئے) کی اندھی محبت کے اسیر اپنے ڈھب کی بات سنتے ہیں صرف۔ غالباََ مجھ سمیت ہر شخص تصویر کا فقط پسندیدہ رخ ہی سامنے رکھنا اور پوجنا چاہتا ہے۔ یہ بالکل وہی رویہ ہے جو پاکستان میں پچھلے کچھ عرصہ سے مقدسات کی محبت اور توہین کے الزامات کے حوالے سے پروان چڑھ رہا ہے۔
چند دن اُدھر اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک عزت مآب جج شوکت صدیقی کے ایک حالیہ فیصلے پر بات کی تو جملہ اسلامیانِ پاکستان لٹھ لے کر چڑھ دوڑے۔ کسی نے یہ نہیں سوچا کہ ان کی عدالت میں توہینِ رسالت ﷺ کے ایشو کو لے کر رٹ دائر کرنے والے حضرت کون ہیں۔ اور جناب شوکت صدیقی کی محبت ناموسِ رسالت ﷺ اس وقت کہاں سو رہی تھی جب ان کے محبوب لال مسجد والے مولوی عبدالعزیز نے برقعہ پہن کر اپنے فرار ہونے کو سنتِ نبوی ﷺ قرار دیا تھا۔ عدم توازن سے محروم سماج میں یک رخی چلتی بکتی ہے۔ ایک قسم کا مسلمان ہونے کے لئے لازم ہے کہ سعودی عرب کی یمن میں جارحیت کو اسلامی جواز دے کر تائید کیجیئے اور شیعہ ہونے کا مطلب یہ ہوگا کہ تسلیم کیجیئےکہ کرہ ارض پر ارض پر ایران کی حکومت حقیقی اسلامی حکومت ہے۔ آپ اگر ہر دو فہموں سے جدا کوئی بات کرتے ہیں تو بھاڑے کے نظریات کی جگالی کرنے والے سامراجی ایجنٹ ہیں۔ اب معیار یہ ہے کہ حلالی ثابت ہونے کے لئے مولوی خادم رضوی کی گالیوں پر داد دیجیئے۔ طاہر اشرفی کے "میٹھے پان” کو شرعی جواز۔ کچھ معیارات اور بھی ہیں انہیں پھر کسی وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔ مجھے بہت عجیب لگتا ہے جب کسی مضمون ، کالم یا سوشل میڈیا کی پوسٹ پر لوگ سوال کریں "آپ شیعہ ہیں یا سنی”؟ اکثر جواب میں عرض کرتا ہوں میری لکھت کو ایک صحافی کی تحریر سمجھیں۔ بدقسمتی سے ان محترم دوستوں کو میری بات سمجھ میں نہیں آتی بالکل ایسےجیسے سپریم جوڈیشل کونسل میں اپنے خلاف دائر دو ریفرنسز کا فیصلہ قریب دیکھ کر جناب شوکت صدیقی کے اندر کا عاشقِ رسول ﷺ انگڑائی لے کر بیدار ہوا ہے اور اب وہ جھنڈے گھاڑنے کا مشن مکمل کرنے کےبغیر واپسی کا راستہ نہیں دیکھ گا۔ سرورِ انبیاء حضرت محمد ﷺ کی ذاتِ اقدس اور دیگر مقدسات کے احترام سے کس مسلمان کو انکار ہے؟ کیا عملی طور پرتعلیماتِ مصطفویﷺ سے پچاس کوس دور رہنے والوں کی جنت عاشقی کےدعوؤں سے پکی ہو جاتی ہے؟ یا پھر یہ کہ اب ہم سب کونئے سرے سے تجدید اسلام عین اس طرح کرنا ہوگی جیسے جج موصوف لال مسجد کے مولویوں کا داماد یا پھر مولوی خادم حسین رضوی چاہتے ہیں؟ انتہاؤں میں بٹے سماج میں نئی قسم کی انتہا پسندی کا نتیجہ کیسا نکلے گا اس پر لمبی چوڑی بحث کی ضرورت نہیں۔ فی الوقت فقط دو باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ اولاََ یہ کہ انسانیت کے اجتماعی شعور کا احترام کیجیئے۔ آزادی اظہار کو عقیدوں کی لاٹھیوں سے سدھارنے یا فتوؤں کی چاند ماری سے اجتناب کیجیئے۔ ثانیاََ یہ کہ جبروستم پر مبنی استحصالی طبقاتی نظام کے تحفظ کے لئے مسلمانوں کے جذبات بھڑکا کراصل مسائل سے توجہ ہٹانے والوں کی سازشوں کو شعوری طور پر سمجھنے کی کوشش کیجیئے۔ مکرر عرض ہے کسی نظامِ حکومت پر تنقید مقدسات کی توہین ہرگز نہیں۔ نظام حکومت انسان ہی تشکیل دیتے ہیں۔ آسمان سے ہرگز نہیں اترتے۔ انسانوں کی فہم میں اختلاف حسنِ زندگی ہے کج بحثی یا کفر نہیں۔ یہ بھی عرض کردوں کہ پاکستان میں چند مولویوں اور ایک جج کے ذریعے عام مسلمانوں کو بھڑکانے کی سازش تیار کرنے والوں کو یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ آگ کسی کی دوست نہیں ہوتی۔ ملک میں قوانین موجود ہیں اگر کسی بدبخت نے مقدسات کی توہین کی ہے تو کارروائی کیجیئے البتہ اگر کسی نے سستی شہرت اور پوشیدہ مقاصد کی خاطر کسی پر من گھڑت الزامات لگائے ہیں تو اس کے خلاف بھی اسی قانون کے مطابق کارروائی کی جانی چاہیے۔ حرفِ آخر یہ ہے کہ پاکستان کے روزمرہ کے مسائل زیادہ گھمبیر بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین ہوتے جارہے ہیں۔ ان کے تدارک کے لئے بھی بااختیار حلقوں کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا چاہیں۔ "شائدکے تیرے دل میں اتر جائے میری بات”
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn