Qalamkar Website Header Image

یہ اللہ ” کریسی ” کے مریض – حیدر جاوید سید

سوال بہت سادہ ہے اگر ہم (مسلمان) وارثانِ علوم ہیں تو وہ علوم ہیں کہاں ؟ اِبن رشد ،یعقوب الکندی ، بوعلی سینا ، نفس ذکیہ ، سید زید شہید اور دوسرے داناؤں کے ساتھ ان کے ادوار میں حکمرانوں ، کٹھ ملاؤں اور جاہل سماج نے جو سلوک کیا اس پر کب اور کس نے معذرت کی ۔امام غزالی نے فلسفے اور دانائی ہر دو کو عقیدے کی مار ماری ۔ہم سے تو عمر خیام کاعلم سنبھالا نہ گیا ۔ ہاں یہ ضرور کر لیا کہ نظام الدین طوسی کے بنائے نصاب تعلیم (درس نظامی) کو جو امورِ مملکت کے معاونین (دفتری اہلکاران ) تیار کرنے کے لئے وضع کیا گیاتھا ، مگر کچھ عرصہ بعد اس نظام تعلیم سے دینی رہنما پیدا کرنے لگے ۔ مایوسی ہوتی ہے تاریخ کے اوراق اُلٹ کر بقائے آدمیت ، ارتقائے دانش اور ستاروں پر کمندیں ڈالنے کے لئے ہم نے کیا کیا ؟ کچھ بھی تو نہیں ۔ پھر اتراتے کس بات پر ہیں ۔ چند برس اُدھر ایک ٹی وی پروگرام کے دوران دوسرے مہمان نے جو ایک عالم دین تھے کہا اللہ نے ہم(مسلمانوں ) سے دنیا پر غلبہ کا وعدہ کیا ہے ۔عرض کیا لوگوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے دوڑاتے رہنے کا فائدہ کوئی نہیں ۔وعدہ الٰہی کے پورا  ہونے کا انتظار تو تب کیجئے جب سامان کر چکیں ۔ یہاں حالت یہ ہے کہ مسلم سماجوں میں ایمان فتوؤں اور جان قاتلو ں کی زد میں ہیں ۔ کپڑا سینے والی سوئی اور عام سی ڈسپرین کا فارمولہ تو بن نہیں پایا دنیا پر غلبے کے خواب ! آپ یہ بات یوں کیوں نہیں سمجھ لیتے کہ ’’خدا جب چاہے جس کو چاہے جہاں چاہے اور جس پہ چاہے غالب لے آئے ‘‘ ۔اور اس میں مسلمان کہاں فٹ آتے ہیں ؟ پروگرام ختم ہوا تو مولانا فرمانے لگے کچھ کچھ الحاد کے قریب جانے لگتے ہیں آپ ۔ عرض کیا منافقت پالنے کا کوئی شو ق نہیں ۔دینداری ہو یا الحاد ،ہونا خالص چاہیے ۔ آدھا تیتر آدھا بٹیر بنے رہنے کا فائدہ ۔ ایک دن فقیر راحموں کہہ رہے تھے ’’ سارا جھگڑا نفس امارہ سے نفس مطمنہ کی سمت بڑھتے رہنے پر کھڑا ہوتا ہے ‘‘ ۔ ایک قہقہہ ہی اس کا جواب تھا ۔اور ہوتا کیا ۔ آرام سے بہنوں کا حصہ داب لو، کاروبار میں بے ایمانی کرو ، جھوٹی قسمیں کھاؤ ،وصول کردہ حقِ خدمت کا حق پورا نہ کرو اور نفس مطمنہ کی طرف پیش قدمی سے جی بہلاتے پھرو ۔
کڑوا سچ یہ ہے کہ ہم انسانیت کو کچھ نہیں دے پائے ۔جن ادوار کو مثالی قرار دیتے ہیں ان میں بھی صاحبان اقتدار نے اتنا خون بہایا کہ عرش کانپ اُٹھا ۔ بادشاہ ٹوپیاں سیتا تھا’کی دھن پر مست لوگوں کو کون سمجھائے کہ بادشاہ نے اباحضور چھوڑے نہ بھائی سب کو دم پُخت کر کے رکھ دیا ۔ منصور و سرمد کا خون بادشاہوں کی گردنوں پر ہی ہے ۔کیسے ترقی کریں گے ہم ۔ان مناظر ہ بازوں کے سر پر جو اپنے فریب کو سچ ثابت کرنے کے لئے اخلاقیات اور شرف انسانیت کے پرخچے اڑاتے پھرتے ہیں ؟ بہت آسان ہے یہ کہہ دینا کہ مغرب والے پہلے بیماریاں بھیجتے ہیں پھر تجربوں کے لئے ادویات مگر کوئی یہ نہیں بتاتا کہ خود ہم نے کیا کیا ۔لمبی چوڑی بحث کو چھوڑیں ہمارے ساتھ کے دیش بھارت کے صوبہ پنجاب میں گندم کی فی ایکڑ فصل اور ہمارے ہاں کافی ایکڑ کا حساب ۔ بنیادی طور پر ہم زرعی ملک میں رہتے ہیں اور حالت یہ ہے کہ ’’کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا ‘‘۔ 70 برسوں کو گولی مارئیے 16 دسمبر 1971 سے اب تک کے تقریباََ 46 برسوں کے دوران زرعی معیشت کو چار چاند لگانے کے لئے تحقیق کے کتنے ڈول ڈالے ’ کتنے زرعی سائنسدان پیدا کئے ؟ ترجموں اور لنڈے کے کپڑوں پر اتراتی مخلوق کے پاس کچھ وقت بچ رہتا ہے تو کافر ‘ مشرک ‘ غدار بنانے پر صرف کرتی ہے ۔ بقول فقیر راحموں ہم دسترخوان پر بھی ایک مشرک‘ ایک کافر اور ایک غدار نہ پائیں تو بدمزہ ہوجاتے ہیں ۔
صاف سیدھی سچی بات یہ ہے کہ عقل کے پیچھے عقیدوں کی ڈانگیں لئے پھرتے ہجوم کو امن ‘ اخوت ‘ترقی اور وقار کی باتیں زیبا نہیں ۔کبھی کسی نے غور کیا دنیا میں ہماری شہرتوں کی جو وجوہات ہیں وہ قابل فخر کیا قابل ذکر تک نہیں ہے ۔ سادہ سا جواب ہے جنہوں نے عقل سے دشمنی نہیں پالی وہ چاند پر پہنچے اور اس سے آگے کی دنیا ئیں تسخیر کرنے میں جُتے ہوئے ہیں ۔یہاں ہم نے کس کس کے کافر اور شیطانی چرخہ ہونے کا فتویٰ نہیں دیا ؟ یہود و ہنود سے کھردری نفرت کے بیوپار بھی کرتے ہیں اور ان کی اشیاء کا استعمال بھی ۔کوئی چیز تو خود بنالی ہوتی سوئی بنانے سے لے کر بھیڑوں کی کلوننگ تک تو وہ کامیاب ہوئے ۔ ہمارے پاس اللہ کریسی کے ’’فلسفے‘‘ کے سوا رکھا ہی کیا ہے ۔ اچھا اگر یہ دنیا اتنی ہی بری چیز ہے توپھر رہنے کی ضرورت کیا ہے ؟ سوال کرو تو نالاں ہوجاتے ہیں ۔عجیب لوگ ہیں غریب زمین زادوں کو آخرت کا ساماں کرتے رہنے کی تلقین کرتے ہیں اور خود ان کے بچوں کی دسترس میں دنیا کی ہر چیز ہے ۔ہمارے بچوں کی محرومیوں پر اپنی نسلوں کی عیاشی کا سامان کرنے والے جب حساب دیں گے تو ہم بھی دے لیں گے ۔ مئلہ فقط یہ ہے کہ کرۂ ارض پر فقط ہم ہی نگو کیوں ٹھہرے ۔ وجہ تو سمجھنے کی ضرورت ہے اور وہ یہ ہے کہ جب ہمارے بادشاہ محبوباؤں کے مقبرے بنوا رہے تھے تو کافر ممالک میں دانشگاہیں (تعلیمی ادارے) بنائے جارہے تھے ۔آج بھی مسلم دنیا میں کتنی ایسی دانشگاہیں ہیں جن پر فخر کیا جاسکے ؟ اپنے ہاں کی جہالت اور ہربرائی کا ذمہ دار یہود و ہنود کو ٹھہرانے والوں نے علم و تحقیق کے میدانوں میں کتنے جھنڈے گاڑے ۔
کڑوا سچ یہ ہے کہ تعصبات ‘جہالت ‘ عدم برداشت کی مالائیں جپتے ہوئے ہمارے لوگوں کی طاقت صرف اپنے ’’ہونے ‘‘ کا زعم ہے ۔ سوچ یہ ہے کہ ہم رب العالمین کی پسندیدہ امت ہیں ۔ خواب دیکھتے رہنے پر کوئی پابندی ہے نہ خوش فہمیوں میں جینے پر ۔ البتہ ایک دن آئے گا جب ہمارے سادہ اطوار لوگ یہ سمجھ لے گے کہ بالادست طبقات اور دینداروں نے مل کر انہیں جاہل رکھا تاکہ اپنے تعصبات ‘ جہالت اور عدم برادشت کے سودے بیچ سکیں ۔بہت احترام کے ساتھ عرض ہے کہ رنگ ڈھنگ بدلنا ہوں گے ۔ ارتقاء کے آگے اُٹھائی گئی دیواریں توڑنا ہوں گی ۔ یہ صرف اسی صورت ممکن ہے جب ہم سے ہر شخص اپنے حصے کا سچ بولے اور کام کرے ۔ دُکھ جھیلے بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں والے معاملات سے نجات حاصل کرنا ہوگی ۔ فیصلہ ہم کو ہی کرنا ہے کہ ہم کیسا سماج اگلی نسلوں کے حوالے کرنا چاہتے ہیں ۔کم ازکم میں تو یہ نہیں چاہوں گا کہ جو ماحول اور سماج ہمارا مقدر ہے یہ ہمارے بچوں کا نصیب بھی ہو ۔بدلنا ہوگا سب کچھ ۔دانشگاہوں کا نصاب‘ دفاتر اور سماج کا ماحول ‘نظامِ عدل اور نظامِ حکومت لیکن ان سب سے پہلے ہمیں خود کو بدلنا ہو گا ۔ انفرادی حیثیت میں تبدیلی کی بنیادرکھنا ہوگی یعنی انفرادی محاسبہ اجتماعی احتساب کے لئے سود مند ہوتا ہے اس کے بغیر تو سراب ہے ۔ بھاگتے رہیے ‘ ہانپتے رہیے ‘از سر نو تمام معاملات کا جائزہ لینے اور حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے ۔ مسائل اور عذابوں کا سورج سوا نیزے پر ہے ۔باقی وہی رہے گا جو چراغ سے چراغ جلانے کی سوچ رکھتا ہو۔ معاف کیجئے گا اندھیرا مزید بڑھا تو اجتماعی نقصان ہوگا ۔ سو اگر ہم اپنے بچوں کو ایک محفوظ اور روشن مستقبل دینا چاہتے ہیں تو مذہب کے اونٹ کو سیاست کے خیمے سے نکالنا ہوگا ۔تعصبات ‘جہالت اور عدم برداشت کے خلاف پوری قوت سے میدان عمل میں نکلنا ہوگا ۔ ایسا نہ ہو ا تو داعیان جہالت ہمارے حال کی طرح آئندہ نسلوں کے مستقبل کو بھی برباد کر کے رکھ دیں گے ۔ صلاح عام ہے ۔غور و فکر کیجئے اور سمت مقرر ۔بہت ہوچکا ۔ جتنی بربادی ہولی اتنی ہی کافی ہے ۔ اس سے زیادہ کا متحمل نہیں ہوا جاسکتا ۔چھری سے پیٹ پھاڑا جاسکتا ہے اور سبزی بھی کاٹی جاسکتی ہے ۔بات صرف سوچنے اور چھری سے کام لینے کی ہے ۔ بات صرف سوچنے اور چھری سے کام لینے کی ہے ، اس سے زیادہ کیا لکھا جائے سوائے اس کے کہ کنواں پیاسے کے پاس چل کر نہیں آتا پیاساکنوئیں کے پاس چل کر جاتا ہے ۔

حالیہ بلاگ پوسٹس