یہ غالباً جماعت دہم کے زمانے کی بات ہے فلمیں دیکھنے کی عادت پڑ گئی’ بس پھر کیا تھا اتوار کا دن یوں گزرتا کہ کم از کم دو فلمیں تو ضرور دیکھی جاتیں۔ اس آزاد روی کی ایک وجہ یہ تھی کہ طالب علم کی سرپرست آپا سیدہ فیروزہ خاتون وفات پا چکی تھیں اور ان کی وفات کے بعد دو تبدیلیاں آئیں۔ پہلی آپا مرحومہ کے گھر سے سکول کے ہاسٹل میں منتقل ہونا اور ثانیاً کراچی کے ایک اخبار میں بچوں کا صفحہ بنانے کے لئے ملازمت کا آغاز۔ یہ وہ حالات تھے جن کی وجہ سے فلم بینی کی عادت پڑی۔ خود بھی عجیب لگتا تھا مگر بچپن سے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہوئے طالب علم کو ”زیاں” کا احساس اس طرح نہ تھا جیسا اب ہے۔ فلم بینی کا ہفتہ وار پروگرام چند ماہ ہی چل پایا۔ ایک اتوار لیرک سینما پر فلم دیکھنے گیا تو وقفہ کے دوران ایک بزرگ نے شفقت کے ساتھ کاندھا تھپتھپاتے ہوئے دریافت کیا’ صاحبزادے کیا کرتے ہیں آپ؟ میں نے انہیں حیرانی کے ساتھ دیکھا اور ادب سے عرض کیا فلاں سکول میں جماعت دہم کا طالب علم ہوں اور شام کو فلاں اخبار میں کام کرتا ہوں۔ انہوں نے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ایک دو سوال اور کئے اور جواب سن کر بولے۔ میرے عزیز اس عمر میں فلم بینی کی لت اچھی نہیں۔ طالب علم ہو اس لئے فلمیں دیکھنے اور وقت برباد کرنے کی بجائے مطالعے پر توجہ دو۔ جی بہتر میں نے عرض کیا۔ وہ بولے مجھے بزرگ سمجھ کر وعدہ کرو آئندہ اتوار فلم دیکھنے کی بجائے ریگل والے بس سٹاپ پر مجھ سے ملو گے۔ کس لئے اب میں نے سوال کیا۔ شفقت سے بولے تشریف لاؤ گے تو معلوم ہو جائے گا۔ فلم ختم ہوئی تو ان سے دوبارہ ملاقات ہوئی۔ انہوں نے آئندہ اتوار کی ملاقات کے لئے پھر اصرار کیا اور میں وعدہ کرکے رخصت ہوگیا۔ فلم بینی کے اس سر چڑھے شوق میں یہ پہلا مرحلہ تھا کہ اگلے دن شام کو جب دفتر میں ہمارے لئے مقرر معاون نے پوچھا۔ شاہ جی اتوار کے لئے ایڈوانس بکنگ کروانی ہے تو اسے منع کردیا۔ معاون نے حیرانی کے ساتھ میری طرف دیکھا تو میں نے عرض کیا’ آئندہ اتوار مجھے ایک بزرگ کو ملنے جانا ہے۔
ہفتہ بھر میں سوچتا رہا نجانے کون ہیں’ کیوں بلایا ہے مگر اتوار کو ہاسٹل سے اجازت لے کر ریگل سٹاپ پر ان سے ملنے چلا گیا۔ بزرگ پہلے سے ہی وہاں منتظر تھے۔ مجھے دیکھتے ہی انہوں نے خوشی کا اظہار کیا۔ ایک دو باتوں کے بعد کہنے لگے ”ایک ہفتے میں فلمیں دیکھنے پر کتنے پیسے خرچ کرتے ہو۔ یہی دس بارہ روپے۔ بولے نکالو دس روپے۔ دس روپے نکال کر انہیں پکڑائے تو وہ مجھے ساتھ لے کر بس سٹاپ پر قائم بک سٹال کی طرف لے گئے۔ کچھ دیر کتابوں کو دیکھتے رہے اور پھر انہوں نے تین کتابیں منتخب کیں۔ شورش کاشمیری کی ”شب جائے کہ من بودم” یہ حج کا سفر نامہ ہے۔ معروف صحافی حمید اختر (مرحوم ) کی کتاب کال کوٹھڑی اور سواگ ملوک پرشاد کی ”زنداں نامہ” تینوں کتابیں 19روپے میں آئی تھیں۔ کتابیں میرے سپرد کرتے ہوئے بولے’ لو صاحبزادے ان کتابوں کو پڑھو یہ فلم کی طرح ضائع بھی نہیں ہوں گی اور تمہارے کام بھی آئیں گی۔ انہیں باقی کے پیسے دینا چاہے تو بولے دو کتابیں میری طرف سے تحفہ سمجھ لو اس بات کا کہ اب تم فلمیں دیکھنے کی بجائے پھر سے مطالعہ پر توجہ دو گے۔ یوں کتاب دوستی کا دوسرا دور شروع ہوگیا۔ پہلا دور آپا سیدہ فروزہ خاتون کی وفات پر ختم ہوگیا تھا۔ کتاب دوستی کا یہ دوسرا دور ابھی تمام نہیں ہوا۔ پچھلے چوالیس برسوں سے میں ہر ماہ باقاعدگی کے ساتھ کتابیں خریدتا اور پڑھتا ہوں۔ جب بھی کوئی نئی کتاب خریدتا ہوں تواپنے اس محسن بزرگ کے لئے دعا ضرور کرتا ہوں۔ صحافت کے ابتدائی دنوں کے ہمارے استاد مکرم جناب فضل ادیب اور پھر بہت برسوں بعد صحافت کی دنیا میں ملے شفیق بزرگ اور استاد جناب سید عالی رضوی مرحوم فرمایا کرتے تھے’ طالب علم رہنے میں فائدہ یہ ہے کہ انسان ہر چیز پڑھ لیتا ہے۔ پڑھا کو تو نخرے بہت کرتے ہیں۔ استاد محترم حمید اختر کا فرمانا تھا تقابلی مطالعہ ہی زندگی کے لئے رہنما کا کام دیتاہے۔ چوالیس برس ہوتے ہیں کتاب دوستی کے دوسرے مرحلہ کو شروع ہوئے کتابوں کی خریداری اور مطالعہ دونوں کا م جاری ہیں۔ پچھلے چند برسوں سے تو اپنے مطالعہ والے کمرے میں ہی رہتا ہوں۔ کبھی کبھی ملال ہوتا تھا کہ زندگی کا سفر مکمل ہوا تو اس ذخیرہ کتب کا کیا ہوگا؟ مگر اب اطمینان ہے میری صاحبزادی فاطمہ کو کتب بینی سے دلچسپی ہے۔ کبھی تو اس کی فرمائش پر بھی کتاب لانا لازم ٹھہرتا ہے۔ اپنے چار اور خواہشوں کے پیچھے سر پٹ بھاگتے لوگوں’ دوستوں اور عزیزوں کو دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں یہ مطالعے اور علم سے اتنے دور کیوں ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب گلی محلوں میں آنہ لائبریریاں ہوا کرتی تھیں اب ان کی جگہ اشیائے خورد و نوش کی دکانوں نے لے لی ہے۔ چند ماہ قبل ایک دوست سے جو ہر ہفتے کم از کم دو بار فیملی سمیت ہوٹلنگ کرتے ہیں عرض کیا اگر آپ 8 کی بجائے مہینے میں 7بار ہوٹل میں کھانا کھائیں اور ایک بار کے بل کی رقم سے کتابیں خرید لیاکریں تو کتنا اچھا ہو۔ انہوں نے جواب دیا’ شاہ جی زیادہ پڑھنے سے بندہ پاگل کہلاتا ہے۔ یہ فقط فرد واحد کی سوچ نہیں بد قسمتی سے اس معاشرے کے 90فیصد لوگ اس طرح سوچتے ہیں۔ کاش ہمارے سماج کے لوگوں نے کتابوں سے محبت سیکھی ہوتی۔ مطالعے کو رواج دیا ہوتا تو ایک ایسا اجتماعی شعور پروان چڑھتا جو حقیقی انقلاب کاراستہ ہموار کردیتا۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn