عقیدت اچھی چیز ہے اگر اعتدال اور شعور کے ساتھ ہو۔ اندھی تقلید سے عبارت عقیدت نے دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کی طرح مسلمانوں کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہر حوالے سے شاندار ماضی رکھنے والے مسلمان آج دنیا میں اس سیاسی مقام و مرتبہ سے محروم ہیں جو سوا ڈیڑھ ارب مسلمانوں کا حق ہے۔ اس حق سے غیروں نے محروم کیا یا خود ہمارے اندر پھوٹتی انتہا پسندی نے؟ بنیادی طور پر سوال اور سوال کرنے والے دونوں پسند نہیں کیے جاتے۔ حالانکہ سوال کرنا اور تشفی بھرا جواب دینا دونوں ہی حسنِ زندگی ہیں۔ مثال کے طور پر 70 سال پہلے قائم ہوئے پاکستان میں آج آپ کسی سے دریافت کیجئے یہ سارے مسائل کس کے پیدا کردہ ہیں؟ جھٹ سے جواب ملے گا سیاست دانوں کے۔ لاریب سیاستدانوں سے غلطیاں ہوئیں مگر کیا چار بار اقتدار پر قبضہ کرنے والے جرنیلوں نے دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں اس ملک میں؟ ایوبی مارشل لاء کے نتائج سقوط مشرقی پاکستان کی صورت میں برآمد ہوئے لیکن ہم سارا ملبہ جنرل یحییٰ خان پر ڈال کر یا کچھ بھٹو صاحب کو ذمہ دار ٹھہرا کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ معاف کیجئے گا ایسا نہیں ہے۔ ٹھنڈے دل سے غور کیجئے تو سابق مغربی پاکستان اجتماعی طور پر مجرم ہے۔ کتنے لوگ تھے جنہوں نے اس وقت راولپنڈی، لاہور، پشاور، کراچی اور کوئٹہ میں احتجاجی جلواس نکالا جب ایک فوجی آمر ایوب نے بنگالی بھائیوں کے لئے تضحیک آمیز انداز میں کہا تھا "بھوکے بنگالی، پستہ قد، مچھلی خور”۔ ساعت بھر کے لئے رکیے، یہ تو بتائیے کہ کتنے ہزار لوگ مغربی پاکستان میں سڑکوں پر نکلے تھے اس وقت جب ون یونٹ کا فارمولہ تخلیق ہوا یا پھر اس فارمولے پر اس کی روح کی مطابق عمل نہ ہوا۔ مساوی حقوق تھے نا اس فارمولے کے تحت مغربی و مشرقی پاکستان کے۔ کیوں نہ عمل ہو پایا اس پر؟ چند درجن یا چند ترقی پسندوں اور دائیں بازو کے دو چار لوگوں کے سوا کس نے مغربی پاکستان میں کہا کہ نفرتیں بونے سے گلاب نہیں اگا کرتے۔ حساب کر کے دیکھ لیجئے 14 اگست 1947 سے ا6 دسمبر 1971 کے درمیانی برسوں کا۔ وفاقی اداروں میں بنگالیوں کا تناسب کیا تھا
1971ء سے 2016ء کے درمیان ماہ و سال میں کامل دیانتداری کے ساتھ سقوط مشرقی پاکستان کے سانحہ پر کتنا لکھا گیا۔ نہیں لکھا گیا توکیا اس کی ضرورت نہیں تھی یا احساس جرم نے منفی پراپیگینڈے پر اکسایا ہوا ہے اور ایک پوری نسل ان کی اس بات پر ایمان لے آئی کہ بنگالی تو تھے ہی غدار، ہندو اساتذہ کے زیرِ اثر، ہندو ثقافت کے رسیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس طرح کا پروپیگنڈہ کرنے والے اور اسے عہد کے سچ کے طور پرپیش کرنے والے عناصر وہی تھے جن کے بزرگ اور جماعتوں نے تقسیم برصغیر کی مخالفت کی تھی۔ سو اب صورت یہ ہے کہ ہمارے کل کے معاملات ہی ہم پر صاف عیاں نہیں۔ تحقیق کا ڈول ڈالنے کی زحمت ہی نہیں کی گئی۔ یہاں تک کہ حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ تک سے لوگ آگاہ نہیں ہیں۔ یہ حال ہے ہمارے قریب ترین اور اور ماہ و سال کی تاریخ کا۔ اس پر ایک ستم یہ ہے کہ 13 اگست 1847 تک انڈس ویلی ( موجودہ پاکستان) کے اقوام جنہیں حملہ آور سمجھتی تھیں 14 اگست 1947 کے بعد انہیں مسلم ہیرو کے طور پر مسلط کر دیا گیا۔ کتنے لوگوں نے یہ سوال کیا کہ جذباتی ضرورتوں سے گھڑے ہوئے یہ ہیرو کون ہیں، ہمارا ان سے کیا تعلق۔ جن چند لوگوں نے سوالات اٹھائے ان کے ساتھ کیا ہوا۔ ترقی پسند سماج کے قیام کے لئے جدوجہد کرنے والوں پر اس ملک میں کیا بیتی۔ لاہور کے شاہی قلعہ کے بوچڑ خانے میں وحشیانہ تشدد سے شہید ہونے والے طالب علم رہنما حسن ناصر کو رات کی تاریکی میں کہاں دفن کیا گیا۔ آج تک کسی کو معلوم نہیں۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دو بلکہ تین حصوں میں تقسیم سماج میں ایک طبقے کے لئے ان کے مسلک کے مولوی عظیم ترین رہنما ہیں۔ دوسرے طبقے کے دستیاب سیاسی کارکن اپنی اپنی قیادتوں کو نجات دہندہ سمجھتے ہیں اور تیسرا طبقہ مارشل لاء کے گیت گاتا رہتا ہے۔
سچی بات یہ ہے کہ آزاد منش تاریخ دانوں نے اگر اپنے حصے کا کام دیانتداری سے کیا ہوتا تو سماجی شعور کے ارتقاء کی راہ مچونے کھوٹی نہ کر پاتے اور جو حالت آج ہماری ہے کم از کم یہ نہ ہوتی۔ لمبی چوڑی 70 برسوں کی تاریخ پر غوروفکر میں ذہن نہ تھکائیں تو ہمیں کم از کم اس سوال کا جواب لازمی تلاش کرنا چاہیے کہ وہ کون سی قوت تھی جس نے اس سرزمین کے مقبول عام عوامی رہنما ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر چڑھوایا، بینظیر کو بیچ سڑک کےمار گرایا۔ کیا ہمارے خلاف ساری سازشیں دہلی، امریکہ اور تل ابیب میں تیار ہوتی ہیں؟ ان سازشوں کی کہانیوں سے ہم کب تک جی بہلاتے رہیں گے؟ کبھی تو اس پر بھی غور کریں کہ ہمارے اندر سے کس نے نمک حرامی کی۔ عالمی استعمار کی چاکری کی، اپنے مفادات حاصل کیے۔ بجا ہے کہ سیاستدانوں نے جی بھر کر لوٹا اس ملک کو لیکن کبھی سابق فوجی آمروں اور ان کےحواریوں کے اثاثے بھی دیکھ لیجئے۔ کیا دیانتداری کے ساتھ مدت ملازمت پوری کرنے والوں کے لندن اور دبئی میں محلات ہوتے ہیں۔ ایوب خان ، ضیاء الحق اور مشرف واقعی اس طرح کے خاندانی پسِ منظر کے حامل تھے جو کہ آج ان کے خاندانوں کے پاس ہے؟
گھٹالے ہیں مذہب و سیاست اور عسکری قیادتوں کے۔ افغان جہاد میں قربان ہونے والے پاکستانیوں کے خاندان کس حال میں ہیں اور انہیں قربانی کی راہ پر لگانے والے مذہبی، سیاسی رہنماؤں اور اس وقت کی جرنیل شاہی کے خاندان کس حال میں، وقت نکال کر موازنہ کر لیجئے گا تو ساری بات سمجھ میں آ جائے گی۔
پیارے قارئین! ہمیں فقط آزاد منش تاریخ نویسوں کی ہی نہیں بلکہ ایسی سیاسی و عسکری قیادت کی بھی ضرورت ہے جن کے پیشِ نظر پاکستان کے بائیس کروڑ لوگوں کے مفادات اور آئندہ نسلوں کا مستقبل ہو۔ ہمیں فرقہ پرستی کا پیزا بیچنے والے مولویوں کی بالکل ضرورت نہیں جو عرب و عجم کی لڑائی کو مسلکی لڑائیوں کی صورت پیش کر کے ہمارا امن تباہ کریں بلکہ ایسے مذہبی رہنماؤں کی ضرورت ہے جو شعوری طور پر اس حقیقت سے آگاہ ہوں کہ انقلاب محمدﷺ مظلوموں کی داد رسی اور محکوموں کی سربلندی کے لئے برپا ہوا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہو گا کیسے؟ سادہ سا جواب ہے اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کیجئے۔ اپنے حصے کا سچ بولئے۔ طمع و لالچ کے گھاٹ پر اترنے سے خود کو روک کر شرفِ انسانیت کی سر بلندی کے لئے اپنا کردار ادا کیجئے جس کا قرآنِ عظیم الشان آپ سے متقاضی ہے۔ مسلمانوں میں نفرتیں پھیلانے والے فرقہ پرست مولوی کو منبر رسول ﷺ سے اتار دیجئے۔ چوروں کے پشت پناہوں اور کمیشن خوروں کو مستقبل میں حق نمائندگی نہ دیجئے۔ متحد ہو کر کوشش کیجئے کہ ہمارے بچے جو تعلیمی نصاب پڑھ رہے ہیں وہ ایسا ہو جو زمین زادوں کو اس حقیقی تاریخ سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ عصری شعور کی دولت سے مالا مال کرے۔ تعلیمی اداروں سے دولے شاہ کے چوہے اور مدرسوں سے نفرتوں کے سوداگر برآمد نہ ہوں۔ یہ سب تبھی ممکن ہے جب ہم میں سے ہر شخص اپنے حصے کا فرض دیانتداری سے ادا کرے گا۔ بصورت دیگر یہی ہو گا جو ہوتا آرہا ہے۔ انصاف حیثیت دیکھ کر ملے گا، ہسپتالوں میں ایڑیاں رگڑیں گے۔ ایک بستر پر تین مریض ڈالے جائیں گے۔ ترقیاتی منصوبوں کے نام پر حکمران کمیشن سے پیٹ بھریں گے۔ قرض کی مے پی کر فاقہ مستی رنگ لائے گی کی سوچ سے جان چھڑانے کی ضرورت ہے۔ یہ ہمار املک ہے سندھیوں، پنجابیوں، پشتونوں، بلوچوں اور سرائیکیوں کا۔ ہم سب اس کے مالک ہیں۔ آخر ہم سوچتے کیوں نہیں کہ مشکل سے 10 فیصد بالادست طبقات نے ستر برسوں سے ہمیں یرغمال بنا رکھا ہے۔ 90 فیصد اپنے حقوق اور حق اقتدار کے حصول کے لئے باہر نہ نکلے تو استحصالی نظام ہماری آئندہ نسلوں پر بھی مسلط رہے گا۔ سو اٹھئے اور اتحاد کی طاقت سے سب کچھ تبدیل کر دیجئے۔
بشکریہ روزنامہ خبریں ملتان
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn