Qalamkar Website Header Image
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

چند ساعتوں کے لئے غور توکیجئے

آیئے ٹھنڈے دل سے اس بات پر غور کرتے ہیں کہ ہجری سال کے آغاز کے ساتھ ہی 93 فیصد مسلم آبادی والے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اتحاد امت ، سماجی وحدت اور شہری حقوق کے احترام کی اپیلوں کا ،،سیلاب،،کیوں آجاتا ہے؟ ہم اسے بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کوئی بھی شخص اپنی آنکھوں میں پڑے تنکے کو محسوس نہیں کر رہا لیکن دوسروں کی آنکھ میں تیرتے شہتیر کی نشاندہی کا شور مچانا فرض سمجھتا ہے۔ مسلم مکاتب فکر مسلم تاریخ کا حصہ ہیں کیا ہم تاریخ کی سچائیوں سے انکار کر سکتے ہیں ؟۔ایک صورت یہ ہے کہ ہم دستیاب تاریخ اور اس کے ماخذات کا کلی طور پر انکار کردیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کھلے دل سے اس حقیقت کوتسلیم کریں کہ ہمیں تاریخ سے رہنمائی لے کر آگے بڑھنا ہے یہی ہمارا فرض ہے تاریخ سے کامل انکار کبھی درست نہیں سمجھا گیا۔

اختلاف رائے ہوا، ہوتا رہے گا۔ تاریخ تحقیق کا مضمون ہے تحقیق کا عمل رک جائے تو کوئی طبقہ نہیں بلکہ تاریخ والے( ہم وارث بھی کہہ سکتے ہیں) بند گلی میں پھنس کر رہ جائیں گے ۔ اس کامل انکار کا ایک نتیجہ یہ بھی ہو گا کہ اپنے ہونے یعنی مذہب و عقائد جن کے ہم دعویدار ہیں کا جواز کیا دیں گے ؟ زندگی بند گلی میں نہیں نیلے آسمان کے نیچے جستجو یا ان مذاہب کی شاخیں جنہیں ہم عقیدہ قراردیتے ہیں اپنے پیروکاروں سے آخر کس امر کا متقاضی ہے؟

62سال کے سفر حیات میں 50برس کے مطالعے نے رہنمائی یوں کی کہ مذاہب و عقیدے اپنے پیروکاروں سے خیر وسلامتی ، انسانی دوستی ، ایثاراور قربانی کی توقع کرتے ہیں۔ خیرو سلامتی یہ ہے کہ دوسروں میں خوشیاں تقسیم کیجئے کوئی بات ناگوار گزرے تو جواباً ناگوار لہجے میں درگت بنانے کی بجائے فہمیدہ انداز میں رہنمائی آپ کا منصب ہے ۔ انسان دوستی یہ ہے کہ رنگ و نسل مذہب و عقیدہ اور زبان و بیان کی بنیاد پر اختلافات پالنے کی بجائے مکالمے کو رواج دیجئے مکالمہ ایک ایسی چھلنی ہے جو غلط کو باہر کرتا جائے گا اور درست زندگی کے اعمال کا حصہ بن جائے گا۔ لوگوں کی خوشیوں اور دکھ کوذاتی طور پر محسوس کیجئے اس عمل سے قائم ہوئی سماجی وحدت ہی حسن زندگی ہے ۔ ایثار یہ ہے کہ مستحق کو اپنا حصہ دے دیجئے کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ آپ یہ چیز اگلے وقت میں دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں لیکن عین ممکن ہے کہ اس کیلئے مستحق کو دوسرے وقت پھر ہاتھ پھیلانا پڑے اسے بار دیگر ہاتھ پھیلانے سے بچانے کا عمل ایثار کے ساتھ شرف ا نسان کا حقیقی مظاہرہ کہلائے گا۔

یہ بھی پڑھئے:  مگر بتانے اور معلوم کرنے میں کسے دلچسپی ہے؟ - وسعت اللہ خان

قربانی یہ ہے کہ آپ نے اپنے حصے میں کسی کو شریک کیا ،کیسے اپنے شریک حصے میں شریک کرتے ہیں یہ ہر کس و ناکس پر عیاں ہے ۔
کڑوا سچ یہ ہے کہ جس معاشرے میں ہم اور آپ رہ رہے ہیں اس معاشرے میں نفرت ،تکبر ، تعصب اور طبقاتی استحصال کی بدولت پیدا ہوئے مسائل بہت ہیں۔ ان مسائل سے کیسے عہدہ برآ ہونا ہے ان کی شدت کو کیسے کم کرنا ہے اور کیسے ایک ایسے سماج کی تشکیل کو یقینی بنانا ہے جو اپنی مثال آپ ہو؟ یہ ہر گزناقابل عمل نہیں بس تھوڑی سی برداشت پیدا کیجئے یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب آپ کی نگاہ حق بندگی کی ادائیگی پر رہے آپ اپنی تسلط شدہ حدود یا ذات میں خدا بننے کی کوشش نہ کریں۔ ہمیں دو باتیں بطور خاص سمجھنا ہوں گی اولاً یہ کہ ایمان کا معاملہ ہادی اکبرﷺ اور رب العزت کے ساتھ ہے شہری حقوق ریاست دیتی ہے۔ بطور مسلم شرائط ایمان کیا ہے؟ توحید ، رسالت، نماز ، حج و زکواة خمس ، قیامت پر یقین ۔ اس سے آگے کے معاملات عقائد کے ہیں، مجھے آپ کے اور آپ کو میرے عقیدے سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ہم دونوں پر فرض یہ ہے کہ ہم ایک اچھے انسان کی طرح اپنا سفرحیات طے کریں۔ یہ نہ ہو کہ سفر حیات طے کر چکنے پر یہ احساس دامن گیرہوجائےکہ سب رائیگاں گیا۔ اس لئے کہ حق بندگی اس طور ادا نہیں ہو سکا جس طرح خالق متقاضی تھا۔

اسلام تو ہمیں دیگر مذاہب و عقائد کے احترام کی تلقین کرتا ہے یہاں ہم اپنے ہی بہن بھائیوں کی فہم میں کیڑے نکالنے کا شوق پورا کرتے ہیں۔ یہ درست نہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم میں ہر شخص نے عقیدے کو دین کا درجہ دے دیا ہے ۔ عقیدہ تو رہنمائی کرتا ہے دینی ماخذات کی طرف اور یہ کہ کیسے ادا ہوں گے فرائض دینوی اور دنیاوی۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اپنے اپنے عقیدے کو تلوار بنا کر دوسروں کی گردن مارنے کا شوق پالنے کی ضرورت نہیں ۔ ہمیں اپنے حصے کے فرائض پر توجہ دینا ہوگی۔ یہاں میں آپ کی خدمت میں یہ بھی عرض کرنا ضروری خیال کرتا ہوں کہ اصولی طور پر ریاست کا فرض تھا کہ وہ مساوات پر مبنی نظام قائم کرتی۔ دستور میں دیئے گئے شہری ، مذہبی اور سیاسی حقوق کی نہ صرف فراہمی کا فرض ادا کرتی بلکہ دستور کی اس شق پہ عمل کو بھی یقینی بناتی تو کوئی شخص کسی بھی طرح دوسرے کی زندگی میں عمل دخل نہ کرنے پاتے ۔

یہ بھی پڑھئے:  پنجاب میں رینجرز کو کتنے اختیارات ملیں گے؟

افسوس کہ قرارداد مقاصد کی بدولت ریاست بذات خود فریق بن گئی اگلے برسوں میں ریاست پھر کئی امور میں بطور فریق سامنے آئی اور اس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر پچھلے چالیس برسوں سے ان سطور میں یہ عرض کرتا آرہا ہوں کہ ریاست کا فرد کے مذہب و عقیدے سے کوئی لینا دینا نہیں لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ریاست اپنا وزن کسی مذہب اور عقیدے کے پلڑے میں ڈالنے کی بجائے بطور ریاست اپنے کردار کو سمجھے ، آخری بات یہ ہے کہ کسی لشکر یا خاص عقیدے کے لوگوں کی فتوحات کا نتیجہ نہیں ہے یہ ملک ۔ جن معروضی حالات میں یہ معرض وجود میں آیا ان پر آراء کا اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اس حقیقت سے نہیں کہ اگر اسے قائم رکھنا ہے تو پھرایک ایسے عادلانہ نظام کی ضرورت ہے جو دستور کی بالادستی کو یقینی بنائے مذہب و عقیدے کی بنیاد پر کسی کو اچھوت سمجھے نا کسی کو یہ انفرادی حق دے ایسا ہوجائے تو پھر ہجری سال کے آغاز پر ہمیں اتحادامت اور سماجی وحدت کے بھاشن نہیں سننا پڑیں گے۔

 

حالیہ بلاگ پوسٹس