اپوزیشن کی رہبر کمیٹی نے جمعتہ المبارک 22نومبر سے ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کا اعلان کردیا ہے۔ رہبر کمیٹی ان مظاہروں کو پلان سی کا حصہ قرار دے رہی ہے۔جے یو آئی (ف) کے ذرائع اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ اگر ” حسب وعدہ فروری کے وسط تک معاملات طے شدہ امور کے تحت نہ ہوئے تو آزادی مارچ کی واپسی ہوسکتی ہے اور اس بار آزادی مارچ جے یو آئی (ف) نہیں بلکہ حزب اختلاف کی رہبر کمیٹی کا ہوگا”۔
اطلاع یہ ہے کہ اگر آزادی مارچ کے اگلے مرحلہ کا آغاز لازم ہوگیا تو یہ مارچ چاروں صوبوں سے ایک ہی وقت میں شروع ہوگا۔
چاروں صوبائی دارالحکومتوں سے بیک وقت شروع ہونے والے مارچ کے شرکاءاسلام آباد میں اکٹھے ہوں گے۔پشاور سے مارچ کاآغاز مولانا فضل الرحمن‘ آفتاب شیر پاؤ اور اسفندیار ولی خان‘ کوئٹہ سے محمود خان اچکزئی‘ عبدالغفور حیدری اور میر حاصل بزنجو‘ کراچی سے بلاول بھٹو اور پنجاب کے شہر لاہور سے سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف یا مریم نواز کی قیادت میں ہوگا۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اپوزیشن کی پسپائی( بقول ان کے) شکست و مایوسی کا حصہ نہیں بلکہ حکمت عملی کے تحت ایسا کیاگیا۔
اسلام آباد کا سرد ہوتا موسم بھی حکمت عملی میں تبدیلی کی وجہ بنا اور بعض ذرائع کے ساتھ براہ راست( اقتدار اور ریاست کی اعلیٰ ترین شخصیت کے ساتھ) طے یہ پایا تھا کہ فروری کے وسط تک متبادل انتظام کردیا جائے گا۔
اپوزیشن کے بعض رہنماؤں اور خود تحریک انصاف کے جن زعماءکے خلاف کرپشن کے الزامات اور کیسز ہیں ان کی تحقیقات کے لئے خصوصی کمیشن قائم کیا جائے گا اس کمیشن کو ایک مرکزی اور چار صوبائی سطح کی خصوصی تحقیقاتی کمیٹیوں ( جے آئی ٹیز) کی معاونت حاصل ہوگی۔کمیشن اور کمیٹیاں 90دن کے اندر اپنی ذمہ داریاں ادا کریں گی اور اگلے مرحلہ میں نئے انتخابات کا اعلان کیاجائے گا۔راوی کے بقول اپوزیشن کو عام انتخابات یا ان ہاؤس تبدیلی میں سے ایک راستہ اختیار کرنا ہوگا۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ جے یو آئی (ف) کے قائد مولانا فضل الرحمن انہی یقین دہانیوں کی وجہ سے مطمئن ہیں انہیں قوی امید ہے کہ جو باتیں طے ہوئیں ان سے انحراف نہیں ہوگا۔کیا واقعتاً معاملات اسی طور طے ہوئے جس کے بعد مولانا فضل الرحمن نے آزادی مارچ ختم کرتے ہوئے پلان بی کا اعلان کیا تھا؟ یہ سوال بہت اہم ہے۔ پاکستانی سیاست اور اقتدار کے مراحل پر عوام کے ووٹوں سے زیادہ جن کی گرفت ہے وہ کیا سوچ رہے ہیں اور کیا مولانا کو یقین دہانیاں انہوں نے کرائی ہیں اور کیا موجودہ انتظام کرنے والے واقعی اپنے انتظام سے مایوس ہو چکے ہیں یا پھر انہوں نے حکمت عملی کے تحت مولانا فضل الرحمن کو امیدوں سے بھرے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا ہے؟
مولانا کی شخصیت اور ان کی سیاسی جدوجہد کے مختلف مراحل کو قریب سے جانے والے دوست ( فقیر راحموں سمیت) اس امر پر متفق ہیں کہ مولانا ٹھوس یقین دہانیوں کے بغیر واپسی کا سفر کرنے والے ہر گز نہیں۔ یہ دوست اس امر پر بھی یکسو ہیں کہ معاملات دو مرحلوں میں طے ہوئے پہلے مرحلہ میں چودھری برادران نے مولانا سے بات چیت کی اور دوسرے مرحلہ میں ایک با اثر شخصیت نے چودھری برادران کی معرفت طے پانے والے معاملات پر اپنی رضا مندی کی مہر لگائی۔ کیا مولانا کے پاس کوئی تحریری معاہدہ ہے یا طرفین نے زبانی یقین دہانیوں کو ”مسلمان کی زبان“ کے موجب مان لیا ہے۔ سادہ سا جواب یہ ہے کہ پردہ داری جتنی بھی ہو مگر کچھ نہ کچھ ایسا ہے جس سے مولانا کے موقف کی تصدیق ہوتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ان ہاؤس تبدیلی کے علاوہ کسی اقدام پر پیپلز پارٹی بھی رضا مند ہوگی اور کیا نون لیگ ووٹ کو عزت دو کے اپنے نعرے کے برعکس موقف اختیار کر پائے گی؟ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ پی پی پی اور نون لیگ سمیت اے این پی اور نیشنل پارٹی بزنجو گروپ یہی چاہیں گے جناب اختر مینگل اور ایم کیو ایم کے ساتھ بلوچستان عوامی پارٹی سے تعاون حاصل کرکے پارلیمانی سطح پر تبدیلی لائی جائے تاکہ ان کی سیاسی ساکھ متاثر نہ ہو۔بالفرض ایسا نہیں ہوتا اور معاملات دوسرے انداز میں آگے بڑھانے کی کوشش ہوتی ہے تو پھر بالادستوں کا ساجھے دار بن کر اپوزیشن کیسے نیک نامی کمائے گی؟۔
گزشتہ سطور میں اٹھائے گئے سوالات پر غور و فکر کے ساتھ آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ آخر ایسی کیا وجہ تھی کہ وزیر اعظم نے جمعرات کی سپہر تحریک انصاف کے اطلاعاتی محاذ کے چیف بابا کوڈا کے ذریعے اپنے خیالات میڈیا تک پہنچائے۔ اس چھاتہ بردار پیدائشی تجزیہ نگار کے علاوہ بھی صحافت کے شعبہ میں وزیر اعظم کے ذاتی دوستوں اور تحریک انصاف کے حامیوں کی کمی نہیں پھر اس شخص کا انتخاب کیوں کیا گیا۔ جس کی شہرت یہ ہے کہ وہ حکومت کے مخالفین کے لئے بھرپور بد زبانی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا اور اس پر یہ الزام بھی ہے کہ یہی شخص سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے ہم نوا بابا کوڈاؤں کا چیف ہے۔فقیر راحموں کاخیال ہے کہ معاملات ویسے پرسکون ہر گز نہیں جیسے اس تجزیہ نگار کی زبانی بتلائے گئے۔ اندرونی سطح پر بھونچال ہے نہیں بلکہ بھونچال ہیں۔
البتہ فقیر راحموں اس امر سے اتفاق نہیں کر رہے کہ معاملات نئے الیکشن کی طرف جا سکتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ گو نئے انتخابات انہونی بات ہرگز نہیں ہوں گے مگر کنٹرولڈ نتائج کا حصول بہت مشکل ہو جائے گا اس لئے ان ہاؤس تبدیلی پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا۔
اپنے ہم خیال اور باہمی دلچسپیوں سے عبارت تجزیہ نگار کے ذریعے وزیر اعظم کے جو خیالات سامنے آئے ہیں ان میں وزیر اعظم کے خیالات کتنے ہیں اور تجزیہ نگار کے خواب کتنے اس بات کو یکسر نظر انداز کردینا اس لئے مشکل ہے کہ وزیر اعظم کے ایک ذاتی دوست ( منصور آفاق) جو معروف شاعر اور کالم نویس بھی ہیں اپنی تحریروں میں کچھ اور بیان کر رہے ہیں۔ان معاملات کے بیچوں بیچ اس امر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے کہ بد ترین مسائل اور حالات کے باوجود ایک طبقہ ملک میں ایسا بھی ہے جو غیر پارلیمانی وارداتوں کی تائید نہیں کرے گا۔ اصولی طور پر غیر پارلیمانی واردات کی تائید کسی ذ ی ہوش شخص کو نہیں کرنی چاہئے۔
آخری بات یہ ہے کہ آئینی طریقہ کار کے مطابق تبدیلی کے لئے جدوجہد اپوزیشن کا حق ہے لیکن ایسا نہ ہو کہ اپوزیشن جن پر نتائج تبدیل کرنے کا الزام لگاتی رہی ہے ان کے ساتھ مل کر تبدیلی کی بنیاد رکھے ایسا ہوا تو یہ نئے مسائل کا دروازہ کھولنے والی بات ہوگی۔
ہفتہ 23 نومبر 2019 ء
روزنامہ مشرق پشاور
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn