Qalamkar Website Header Image

سیاسی وسماجی حلقوں میں ہوتی بحثوں کے موضوعات

عصری سیاست کے گرماگرم موضوعات کےساتھ دو اور سوالوں پر سیاسی وسماجی حلقوں اور سوشل میڈیا پر بحث جاری ہے۔  اولاً یہ کہ اقتدار و وسائل کےساتھ حکومت سازی کے عوامی حق کا احترام کرنے کی بجائے اسٹیبلشمنٹ اپنی بالادستی پر کیوں بضد ہے۔  کیوں ہمیں ہر دس برس بعد کرپشن کہانیاں سنائی جاتی ہیں۔  پھر اگر کرپشن ہی واحد مسئلہ ہے تو ایسا کیوں ہے کہ جن حکمران جماعتوں پر کرپشن کے بھیانک ترین الزامات ہوتے ہیں انہیں جماعتوں کے بندے (الیکٹیبل) توڑ کر نئی جماعت کیوں اُٹھائی جاتی ہے؟۔

ثانیاً یہ کہ ریاستی جبر وستم مالکان کی خواہشوں کے آگے بندھ باندھنے کےلئے جو کام پیپلز پارٹی کو کرنا چاہئے وہ مولانا فضل الرحمن کر رہے ہیں تو کیا اب ضروری نہیں ہوگیا کہ ایک نئی ترقی پسند قومی جمہوری جماعت کی تشکیل ہو جو سیاسی گھٹن اور پارٹیوں کے اندر خاندانوں کی بالادستی اور اشرافیہ کے تسلط کا جمہوری شعور کےساتھ جواب دے؟ یہ اور ان سے ملتے جلتے سوالات پر اُٹھتی بحثوں کے دوران مجھے یاد آیا کہ 2008ءکے انتخابی نتائج نے اے این پی کو چاروں صوبوں میں نمائندگی دلوا دی تھی (پنجاب سے ایک آزاد رکن اے این پی میں شامل ہوئے تھے) تب ہم نے ان سطور میں اے این پی کے دوستوں کی خدمت میں عرض کیا تھا ”وقت نے ایک بار پھر آپ کے دروازے پر دستک دی ہے‘ آگے بڑھیں ملک کی پانچوں قومیتوں کے باشعور سیاسی کارکنوں کو ساتھ ملا کر ایک بار پھر 1960ءاور 1970ءکی دہائیوں والی نیشنل عوامی پارٹی کا کردار سنبھال لیں جو ان بیس سالوں کے دوران اس ملک کے ترقی پسندوں اور قوم پرستوں کی آواز اور شناخت تھی”۔ بدقسمتی سے اے این پی کے دوستوں نے اس درخواست پر توجہ نہ دی۔

سو آج پھر یہ سوال ہمارے سامنے ہے کہ اگر پیپلز پارٹی موجودہ حالات میں ایک ترقی پسند قومی جمہوری جماعت کا کردار ادا نہیں کرتی تو کیا کریں؟۔ کیا پیپلز پارٹی کے اندر داخلی سیاست اور ڈھانچے کو ترقی پسند جمہوری شعور کےساتھ منظم کیا جاسکتا ہے یا پھر موجودہ حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ ایک نئی سیاسی جماعت کی تشکیل ہو؟۔ آگے بڑھنے سے قبل ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ پیپلز پارٹی اسی برصغیر پاک وہند کے پاکستانی حصہ کے لوگوں کی جماعت ہے۔  برصغیر پاک وہند (بھارت‘ بنگلہ دیش اور پاکستان) میں زیادہ تر جماعتیں وہ سیاسی ہوں یا مذہبی بنیادی طور پر خاندانوں کی ملکیت ہیں۔ پاکستان میں مذہبی جماعتوں میں صرف جماعت اسلامی خاندانی ملکیت سے محفوظ ہے“ مگر اس پر ایک مخصوص سوچ کے حامل ہمیشہ سے قابض رہے” ترقی پسندوں کے چند دھڑوں (پارٹیاں کہہ لیجئے) کو ملا کر بننے والی ورکرز پارٹی روایتی کمیونسٹ پارٹی والی دھڑے بندھیوں اور پھر بکھرنے کے عمل سے محفوظ نہیں رہ سکی۔ اے این پی ترقی پسند خیالات کےساتھ خالص پشتون قوم پرست جماعت ہے اگر 2018ءمیں اس نے قوم کی بجائے اقوام کی ترقی پسند جماعت بننے کا شعوری فیصلہ کیا ہوتا تو پی ٹی ایم کی تشکیل سے اسے جو نقصان ہوا وہ کم سے کم ہوتا۔

یہ بھی پڑھئے:  پتھر کیوں برس پڑے؟

پیپلز پارٹی بہت ساری خوبیوں کے باوجود 1988ءسے سمجھوتوں کی سیاست کی اسیر ہے۔  بلاول بھٹو نے سیاسی زندگی کے آغاز کے بعد متعدد بار اپنی جماعت کو ترقی پسند چہرہ دینے کی کوشش کی مگر ان کے اردگرد بالادست اشرافیہ گھیرا ڈالے کھڑی ہے۔ ممکن ہے کہ اس کی ایک وجہ یہ ہو کہ اب سیاست نظریات پر نہیں حیثیت کے بل بوتے پر ہوتی ہے لیکن کیا سیاسی جماعت کا کام وقت کےساتھ چلنا ہے یا وقت کو اپنے پیچھے چلنے پر مجبور کرنا ہے؟۔ اصولی طور پر سیاسی جماعتوں کو بہرصورت اپنے نظریات کا پرچم بلند رکھنا چاہئے۔ پیپلز پارٹی کے بانی خاندان اور کارکنوں کی قربانیاں بجاطور پر قابل فخر ہیں مگر کیا محض اس فخر پر ہی سیاست ہوتی رہے گی یا پھر پارٹی کے اندر جمہوری انداز میں تبدیلی لانے کی شعوری کوشش بھی ہوگی؟

لیکن ایک سوال یہ بھی ہے کہ جس جماعت میں عشروں سے انتخابات کی بجائے نامزدگیوں سے کام چلایا جا رہا ہو وہ داخلی جمہوریت (جماعت کے اندر جمہوری تنظیمی ڈھانچہ) کی طرف قدم بڑھا سکے گی؟میری دانست میں پیپلز پارٹی کے پاس وقت کم ہے اس کی قیادت کو فیصلہ کرنا ہوگا جماعت ترقی پسند شعور کےساتھ پھر سے منظم کرنا ہے یا سنٹرل لبرل جماعت کے طور پر سمجھوتوں سے بندھی سیاست ہی رزق رہے گی۔ پیپلزپارٹی اگر فیصلہ کرنے میں تاخیر کرتی ہے تو پھر ملک کی پانچوں قومیتوں کے ترقی پسند سیاسی کارکنوں کو آگے بڑھ کر نئی جماعت کی تشکیل کے امکانات اور ضرورتوں پر غور کرنا چاہئے۔

یہ بھی پڑھئے:  فکری بانجھ پن کا باوا آدم - جنرل ضیاء الحق | حیدر جاوید سید

اب آتے ہیں ابتدائی سطور کے پہلے سوال کی طرف مولانا فضل الرحمن کی سیاسی زندگی جدوجہد‘ ان کے وسیع مطالعے‘ سیاسی جدوجہد میں دی گئی قربانیوں کے باوجود ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ وہ اول وآخر مذہبی جماعت کے سربراہ ہیں۔ دیوبندی مکتب فکر کی اس مذہبی سیاسی جماعت کا دعویٰ ہے کہ وہ جمعیت علمائے ہند کی وارث ہے مگر عجیب بات یہ ہے کہ بھارت کی جمعیت علمائے ہند آج بھی سیکولر نظام حکومت اور رویوں کی حامی ہے جبکہ پاکستان میں جمعیت علمائے اسلام (ف) خالص اسلامی نظام جو اس کے مکتب فکر کی تفہیم پر استوار ہوئی کی علمبردار ہے۔ مولانا کی ساری سیاست پچھلے کچھ عرصہ سے خصوصاً مذہبی مطالبات کے گرد گھوم رہی ہے وہ سیکولر جمہوری نظام کے مخالف ہیں اپنے مخالف کےلئے وہی ہتھیار استعمال کرتے ہیں جو عموماً مذہبی جماعتیں استعمال کرتی ہیں۔

مولانا اپنے آزادی مارچ کا خمیر تحفظ ناموس رسالت کے نعروں سے گوندھ رہے ہیں۔  یہ بجا ہے کہ وہ سیاسی باتیں کہتے کرتے اور کہتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کو بھی للکارتے ہیں مگر اسی اسٹیبلشمنٹ کے بیڈروم میں بیٹھ کر انہوں نے متحدہ مجلس عمل تخلیق کی تھی جسے ملا ملٹری الائنس کہا جاتا تھا۔ مولانا اپنی کھلی ڈھلی گفتگو کے باوجود باطنی طور پر اس امر کے قائل ہیں کہ مذہب کو ہتھیار بنائے بغیر وہ تحریک انصاف کو اُلجھا نہیں سکتے۔  یہ وہ نکتہ ہے جس پر ان کی حمایت نہ کرنے والوں پر تنقید کرتے دوستوں کو غور کرنا ہوگا۔  کیا یہ دوست یا خود مولانا یہ کہنے پر آمادہ ہیں کہ پاکستان کا وفاق ایک سیکولر جمہوری نظام کا متقاضی ہے؟ میرا خیال ہے کہ وہ یہ رسک نہیں لیں گے کیونکہ مذہب ہی ان کی سیاست کا رزق ہے۔

22اکتوبر 2019ء
روزنامہ مشرق پشاور

حالیہ بلاگ پوسٹس