کل ایک دوست نے دریافت کیا کہ ”شاہ جی آپ یہ کیوں کہہ لکھ رہے ہیں کہ آزادی مارچ میں مذہبی کارڈ استعمال کرنے سے پیدا ہونے والی صورتحال کا انجام 5جولائی1977ء کی طرح نہ ہو؟”۔عرض کیا اس کی دو وجوہات ہیں، اولاً یہ کہ پاکستان ایک کثیرالقومی وکثیر المسالکی(مسلکی) ملک ہے۔ ہر مسلک اپنے اپنے انداز میں اسلامی نظام کی تعبیر پیش کرتا ہے۔ چار چھوٹی قومیں یہ سمجھتی ہیں کہ سیاست میں مذہبی کارڈ کے استعمال سے لوگوں کے جذبات بھڑکائے جاتے ہیں جس سے ہزاریوں پر پھیلی قومی شناخت پر مسلکی تعصبات حاوی ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاًً ملک ایک بار پھر بند گلی میں پھنس کر رہ جاتا ہے۔ ثانیاً یہ کہ سیاسی عمل میں مذہبی جذبات اُبھارنے کی کوششوں کے نتائج کبھی مثبت نہیں ہوتے۔ ایک دو نہیں نصف درجن مثالیں موجود ہیں .
ہم اسے بدقسمتی ہی کہیں گے کہ بھٹو صاحب کیخلاف اُٹھائی گئی 1977ء کی سیاسی تحریک کو مذہبی غذا فراہم کرنے پر این ڈی پی جیسی ترقی پسند اور تحریک استقلالی جیسی سنٹرل لبرل جماعتوں نے تحریک سے راستہ جدا کرنے کی بجائے بڑھاوا دیا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔
محترمہ بینظیر بھٹو پہلی بار وزیراعظم منتخب ہوئیں تو مسلم لیگ(ن) جو اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) کا حصہ تھیں نے عورت کی حکمرانی پر مذہبی جذبات بھڑکانے ”بلکہ کھڑکانے” کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ اگست1990ء میں جب اُس وقت کے صدر غلام اسحق خان نے بینظیر بھٹو کی حکومت ریاستی ٹکسال میں گھڑے گئے الزامات کی بنا پر برطرف کی تو ایوان صدر سے پاکستان ٹیلی ویژن کو حکم ہوا کہ جب بھی محترمہ بینظیر بھٹو اور ان کی برطرف حکومت کیخلاف کرپشن ”کہانی” چلائی جائے بلاول ہاؤس کراچی ضرور دکھایا جائے۔
اس حکم کا مقصد بھی ایک طرح سے یہ تاثر عام کرنا تھا کہ بلاول ہاؤس پر لگا "علم” بینظیر بھٹو کے شیعہ ہونے کا تعارف بنا کر پیش کیا جائے تاکہ اسلامی جمہوری اتحاد اس کا فائدہ اُٹھائے۔بدقسمتی سے منصوبہ کامیاب رہا، اسلامی جمہوری اتحاد کی مذہبی جماعتوں اور نیم مذہبی مسلم لیگ(ن) نے اس نکتہ کو خوب اُچھالا۔ یہ وہ تین وجوہات ہیں جن کی بنا پر مجھ سا طالب علم سیاسی عمل میں مذہبی جذبات بھڑکا کر مخالف فریق یا حکومت وقت کیلئے مسائل ونفرت پیدا کرنے کا ناقد ہے۔
ابھی پچھلے دورحکومت میں اور پھر 2018کی انتخابی مہم میں نواز شریف اور ان کی جماعت پر دو بڑے الزامات لگائے گئے اولاً ختم نبوتۖ کے قوانین میں تبدیلی اور ثانیاً بھارت نوازی تب بھی سیاست وصحافت کے ہم ایسے طالب علم یہ عرض کرتے رہے کہ یہ مناسب رویہ ہرگز نہیں۔ بس اس طرح مولانا فضل الرحمٰن کا یہ کہنا کہ دستور کی اسلامی دفعات کی حفاظت اگر مذہبی کارڈ کھیلنا ہے تو یہ کوئی جرم نہیں، اصولی طور پر غلط ہے۔ دستور کی اسلامی دفعات کو کوئی چھیڑ رہا ہے نا ایسا کوئی ماحول دکھائی دے رہا ہے۔
ان کی جماعت نے اسلام آباد لانگ مارچ کیلئے جو ترانے جاری کئے ہیں وہ بھی مذہبی جذبات کو اُبھارنے میں معاون بنیں گے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ اگر کہیں بدقسمتی سے ”تیرکمان سے نکل گیا” تو نتیجہ کیا ہوگا۔ یہ وہ بنیادی وجہ ہے کہ تواتر کیساتھ سیاسی جماعتوں اور سماج کے سنجیدہ فہم حلقوں کو ماضی یاد دلانے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔ اس پر ستم یہ ہے کہ حکمران جماعت کے بابا کوڈاوں کی سوشل میڈیا پر سرگرم عمل ”فوج” جمعیت علمائے اسلام(ف) اور مولانا فضل الرحمن کے حوالے سے جو زبان استعمال کر رہی ہے وہ بھی صریحاً نامناسب بلکہ قابل مذمت ہے۔ بابا کوڈا نامی سوشل میڈیا پیجز چلانے والوں نے اتوار کی سپہر جمعیت علمائے اسلام(ف) کی جانب سے آزادی مارچ کے حوالے سے ایک جعلی ہدایت نامہ جاری کیا جو اخلاق باختگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
یہاں یہ بھی عرض کردوں کہ ایک وفاقی ادارہ پنجاب اور سندھ میں جے یو آئی(ف) اور اس آزادی مارچ کے ہم خیالوں کی فہرستیں بنانے میں مصروف ہے، بدقسمتی سے اس معاملے میں تحریک انصاف کے کچھ کارکن وہی کردار ادا کر رہے ہیں جو 5جولائی1977ء کے بعد اس ملک میں جماعت اسلامی اور اس کے ہم خیالوں نے ادا کیا تھا۔ (جنرل ضیاء الحق کے مخالفین کی نشاندہی) یہ فہم کسی بھی صورت سیا سی اخلاقیات سے لگاؤ نہیں کھاتی۔ عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آزادی مارچ والے ہوں یا حکومت دونوں تحمل وفراست کا مظاہرہ کریں ایسے حالات پیدا نہ کریں جن سے یہ خدشہ پیدا ہوکہ بند گلی میں پھنس جائیں گے۔
کاش پاکستان کے سیاسی عمل میں شریک جماعتیں اس تلخ حقیقت کو سمجھ سکیں کہ ایک کثیرالقومی وکثیر المسالکی (مسلکی) ملک میں مذہبی سیاست اور کسی خاص عقیدے کی تعبیر سے اُٹھایا جانے والا نظام حکومت تحفظات وخدشات پیدا کرے گا۔ پاکستان جیسے ملک میں جو قومیتوں ومذہبی مکاتب فکر اور دیگر ادیان کے لوگوں کا مشترکہ ملک ہے ایک ایسے نظام حکومت کی ضرورت ہے جو ملک کی جغرافیائی حدود میں آباد تمام لوگوں کے سیاسی، معاشی، سماجی اور مذہبی حقوق کا تحفظ کرے۔
گو1973ء کے دستور میں بنیادی انسانی، سماجی، معاشی اور مذہبی حقوق کے تحفظ وفراہمی کے حوالے سے دفعات موجودہیں مگر بدقسمتی سے ان پر کبھی ان قوانین کی روح کے مطابق عمل نہیں ہوا،
اندریں حالات حکومت وقت ہو یا اس کے مخالفین دونوں کو سماجی وحدت قائم رکھنے کا فرض ادا کرنا چاہئے۔ حکومتی اکابرین کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ ان سے اختلاف کفر وغداری ہرگز نہیں، یہی اصول حزب اختلاف کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔ لاریب دیگر مسائل، شکایات اور تحفظات موجود ہیں ان کے حل کیلئے درمیانی راستہ نکالنے کی ضرورت ہے۔ مذہبی جذبات بھڑکانے کی صورت میں مزید تقسیم ہوگی پاکستانی سماج مزید تقسیم کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
8اکتوبر 2019ء
روزنامہ مشرق پشاور
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn