پروپیگنڈے کی دھول چھٹتے چھٹتے چھٹے گی، فی الوقت تو سانس لینا دوبھر ہوا ہے۔سچ کیا ہے اور داستانیں کتنی ابھی کسی کو کچھ معلوم نہیں، خارجہ پالیسی کتنی کامیاب ہے۔ ڈھول کے شور سے اندازہ لگانا چاہئے یا پھر زمینی حقائق جاننے کی کوشش؟سوالوں سے دامن بچانے میں عافیت ہے۔ بہت ادب سے عرض ہے کہ ہٹلر کے گوئبلز کی روح بھی شرمساری محسوس کرتی ہوگی۔ اچھا ان باتوں کا فائدہ کیا ہے‘ کچھ بھی نہیں۔ اقوام کی برادری میں ہم کہاں کھڑے ہیں، چند بیانات اور دعوؤں کو مان لیتے ہیں تو ہم اقوام کی برادری کی آنکھوں کا تارا ہیں لیکن کیا بیانات اور دعوؤں سے تاریخ بدل سکتی ہے؟
مجھے معاف کیجئے گا کم از کم میں انکار کو اقرار اور شرمندگی کو عزت وکامیابی لکھنے سے قاصر ہوں۔ڈھکوسلوں سے جس کو بہلانا ہے بہلاتا رہے‘ بلا کا حبس ہے۔ اس پر یہ کہ ناکامیوں کے سیلابِ بلا تعاقب میں ہیں پھر بھی ہم اپنے لوگوں کو پورا آدھا نہیں چوتھائی سچ بتانے سے گریزاں ہیں۔ جنیوا سے نیو یارک تک کی کہانیاں رنگ برنگی ہی نہیں شرمندگی بھی لئے ہوئے ہیںہم مگر اس پر خوش ہیں کہ ہمارے ملتانی مخدوم (وزیر خارجہ) چرب زبان بہت ہیں۔ کوئی انہیں سمجھائے پیر سائیں‘ گدی چلانے اور وزارت خارجہ چلانے میں بہت فرق ہے۔ جدید دنیا کے پالیسی سازوں‘ میڈیا مینوں اور تھرپارکر سے تعلق رکھنے والے خاندانی مریدوں میں بہت فرق ہوتا ہے۔
مریدین کےلئے پیر کا فرمایا حرف آخر لیکن پالیسی ساز اور میڈیا مین صرف سوال ہی نہیں کرتے بلکہ چبا کر بولے گئے الفاظ کا پوسٹ مارٹم بھی کرتے ہیں۔ یہ پوسٹ مارٹم ہمیں کچھ اور کہانی سنا رہا ہے۔ کہانی‘ دعوؤں اور اخبارات کی شہ سرخیوں سے یکسر مختلف ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں سوال کرنے والے کبھی بھی اچھے لوگوں میں شمار نہیں ہوئے۔ان کی حب الوطنی مشکوک بنا دی جاتی رہی۔ رویوں میں اب بھی کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی۔ مگر کیا اس ملک کے بدقسمت لوگوں نے ہمیشہ ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگتے ہی رہنا ہے؟ فقیر راحموں کہتے ہیں ”نصیب کا لکھا یہی ہے“معذرت نصیب کا لکھا یا سچ کاسامنے کرنے کی بجائے سرابوں کے تعاقب میں جی بہلاتے رہنے کی عادت ہی ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگتے رہنے کی وجہ ہے؟۔آپ سوچ رہے ہوں گے اصلی بات کرنے کی بجائے حرف جوڑے جا رہے ہیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر کہیں اور کیا کروں ”حب الوطنی“ مشکوک بنالوں سرکاری بیانیہ کو غلط کہہ کر؟۔ ساتویں دہائی کے پہلے سال میں کھڑے زندگی کے مسافر میں اب گالیاں سہنے کا حوصلہ نہیں۔ اسلئے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن والی داستان لکھنے کا یارا نہیں ہے۔
ہماری خارجہ پالیسی کتنی کامیاب ہے اس کے نظارے امریکہ میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر پر عالمی دنیا میں سے کتنے ممالک ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔ انگلیاں زیادہ ہیں اسلئے شمار کرنے میں شرمندگی ہوگی۔اس کے باوجود ہمیں یہ باور کروایا جا رہا ہے پیر سائیں شاہ محمود قریشی کی زبان دانی اور تعویذ دھاگوں سے دنیا مودی پر تھوتھو کر رہی ہے۔ افسوس کہ تعویذ دھاگے بھی کسی کام نہ آپائے۔ ”نظر بندی“ کے سارے حر بے رائیگاں ہوئے۔ اصولی طور پر ہمارے ساتھ یہی ہونا تھا وجہ یہ ہے کہ ہم کچھ حقائق اپنی قوم سے چھپانے کےلئے جھوٹ پر جھوٹ بولے چلے جا رہے ہیں۔
معاف کیجئے گا جس عالمی تنہائی سے ہم ان دنوں دوچار ہیں ایسی تنہائی پچھلے بہتر برسوں میں کبھی ہمارے پلے نہیں پڑی۔فرنٹ فٹ پر کھیلنے کی بجائے جب نیپال‘ مالدیپ اور چلی کے وزرائے خارجہ سے ٹیلیفون پر تبادلہ خیال کو خارجہ پالیسی کی عالمگیر کامیابی بنا کر پیش کیا جائے تو یہی ہوتا ہے ورنہ سوال تو یہ بھی اہم ہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن میں ہمیں مطلوبہ حمایت کیوں نہ مل سکی؟سوال مگر یہ بھی ہے کہ یہ سوال کس سے کریں ارباب اختیار سے‘ پالیسی سازوں سے یا اپنے ملتانی پیر سے؟مناسب یہی ہے کہ سوال کرنے کی بجائے بیانات اور دعوﺅں سے جی بہلاتے رہیں۔
اب اس مہنگائی سے بنے حالات میں کتنی دیر تک ملکی و عالمی مسائل پر غور و فکر ہو؟
چلیں ہم بھی سرکاری بیانیہ کے ہمنوا ہوئے۔ حضور! سب اچھاہے‘ دنیا قدم قدم پر ہماری باتیں توجہ سے سن رہی ہے‘ مودی اور اس کے بھارت کو ہم نے دیوار سے لگا دیا ہے‘ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 27ستمبر کو ہمارے وزیراعظم کی شاندار تقریر اس دیوار کو مودی اوربھارت پر گرادے گی‘ اب خوش ہیں آپ؟ معاف کیجئے گا مجھے اپنی حب الوطنی بہت عزیز ہے‘ لے دے کر اب یہی تو باقی بچی ہے اسے بھی اگر سوالوں کی بھینٹ چڑھادوں یا چوتھائی سچ لکھنے پر قربان کردوں تو پلے کیا رہے گا۔ فقیر راحموں کا مشورہ ہے‘ جان ہے تو جہان ہے۔ ہم کونسا آواگون (جنم جنم) کے قائل ہیں کہ اگلے جنم میں اس جنم کا نقصان پورا کرلیں گے۔اچھا وہ جو پچھلے چار ساڑھے چار عشروں کے دوران سرکاری بیانیوں سے ہٹ کر باتیں کہیں لکھیں ان کا فائدہ کیا ہوا ہے‘ کچھ بھی تو نہیں بس اپنے دل کو اس بات سے ہی بہلا پائے کہ ” جو ہمیں سچ لگتا تھا عرض کردیا“۔
یقین کیجئے کہ آج بھی جو سچ لگتا ہے وہی عرض کرنے کی خواہش ہے مگر فقیر راحموں حساب کتاب کا رجسٹر کھولے ہمارا منہ چڑھا رہے ہیں۔ چند لمحے قبل پچھلے چار ساڑھے چار دہائیوں کا آنکھیں بند کرکے جائزہ لیا پھر آنکھیں زبردستی کھولیں دل نہیں چاہ رہا تھا۔ فی الوقت معاملہ یہ ہے کہ اعتبار کس پر کریں، اپنی حکومت اور پیر سائیں پر یا عالمی میڈیا پر۔ فقیر راحموں کا کہنا ہے کہ عالمی میڈیا یہود وہنود کے زیراثر ہے۔ یہ امریکہ اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی زبان بولتا ہے۔ کھلا کافر عالمی میڈیا اسلامی دنیا کی ایٹمی طاقت کی کامیابیوں کو ہضم نہیں کر پا رہا۔61برس کاساتھ ہے فقیر راحموں سے تردید کرکے انہیں ناراض کرنے کاحوصلہ نہیں ہو رہا، اسلئے کھلے دل سے مان لیا۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اقوام کی برادری میں جس قدر شاندار اور تاریخی کامیابیاں نصیب ہوئیں بھارت اور مودی اس کی گرد کو بھی نہیں پاسکتے۔
ہمارے وزیر خارجہ نے مودی کو کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔ وہ کل مودی نے دنیا کا سامنا کرنے کی بجائے امریکہ میں مقیم بھارتیوں کا اجتماع کرکے جی بہلایا اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی تاکہ دنیا یہ نہ جان پائے کہ ہم نے کیسے مودی کو دھول چٹوائی ہے۔ پیارے قارئین بھارت کے سوا ساری دنیا کشمیر ایشو پر ہمارے ساتھ ہے۔ بھارت اپنی تنہائی کو امریکہ میں جلسہ کرکے چھپانے کی ناکام کوشش میں بھی کامیاب نہیں ہوسکا۔
24ستمبر 2019ء
روزنامہ مشرق پشاور
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn