Qalamkar Website Header Image
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

دوباتیں

بڑی گرما گرم صورتحال ہے۔وفاقی کا بینہ نے میڈیا ٹریبونلز بنانے کی تجویز پر رضا مندی ظاہر کی توبریفنگ کے دوران محترمہ فردوس عاشق اعوان نے کابینہ کو اس کے فیوض و برکات سے آگاہ کیا اب کہا جارہا ہے کہ میڈیا ٹریبونلز پر مشاورت کریں گے۔صحافیوں کو قائمہ کمیٹی میں شرکت کی دعوت دیں گے۔
ادھر سی پی این ای،اے پی این ایس اور کارکن صحافیوں کی تنظیموں نے میڈیا ٹربیونلز کو قطعی طور پر مسترد کردیا ہے۔بہت ادب سے کہوں میڈیا ٹریبونلز کا چائلڈ بے بی نعیم الحق کےزرخیزذہن کی پیداوار ہے۔وفاقی کابینہ میں یہ تجویز پیش کیے جانے سے قبل نعیم الحق ،افتخار درانی اور محترمہ فردوس عاشق اعوان کے درمیان مشاورت کی تین نشستیں ہوئیں۔ معاونت کے لیئے دو پیدائشی تجزیہ کار موجود تھے ان دونوں کا صحافتی سفر پاکستان کی عمر سے غالباً زیادہ ہے۔اس لیئے سینئر تجزیہ کار کہلاتے ہیں ایک شہرت تحریک انصاف کے غیر اعلانیہ ترجمان کی ہے تو دوسرے کی  شہرت جناب ہاشوانی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ آخر آزادی صحافت کی”علمبردار“ تحریک انصاف کو میڈیا ٹریبونلز کی ضرورت کیوں آن پڑی؟۔ تحریک انصاف کا خیال ہے کہ کرہ ارض کے جس حصہ پر پاکستان قائم ہے اس حصہ میں ما سوائے تحریک انصاف کے حامیوں موالیوں کے باقی سارے چور کرپٹ ،بردہ فروش  و بھارت نواز بستے ہیں اور یہی لوگ انقلابی تبدیلیوں کے ثمرات سے عوام کو محروم کر رہے ہیں۔ان کے خیال میں میڈیا کا ایک حصہ ان کے مخالفین سے ملا ہوا ہے اس لئے وہ چند رپورٹس خبروں کالموں اور تجزئیوں میں بیان ہو جاتی ہیں جو وفاقی وصوبائی حکومتوں کی اعلیٰ کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں مگر انہیں مسخ کر کے پیش کیا جاتا ہے ۔

کڑوا سچ یہ ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت اور حکومتی زعما چاہتے ہیں ذرائع ابلاغ حزب اختلاف کو چنداں اہمیت نہ دیں اور حکومت بارے اعلیٰ خبروں ،تجزئیوں اور تحریروں سے بھی گریز کریں جس سے عوام میں ساکھ خراب ہوتی ہو۔مثال کے طور پر مہنگائی کے حوالے سے شائع ہونے والی روزمرہ کی خبروں کو بھی سازش کا حصہ سمجھا جارہا ہے۔اختیارات سے تجاوز امن وامان اور صحت عامہ کے حوالے سے شائع ہونے والی خبروں پر بھی محکمہ اطلاعات کے ذمہ داروں کی معرفت برہمی ظاہر کی جارہی ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اٹھائے گئے بعض سوالات پر کہا گیا کہ یہ الزام تراشی ہمارے مخالفین کے کہنے پر کی جارہی ہے۔سادہ سی بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے ذمہ داران آزاد میڈیا سے ماضی کے این پی ٹی والے اخبارات وجرائد کا کردار چاہتے ہیں ۔سب اچھا کی صدائیں ہوں اور”مرزا“ یار آزادی سے گھومتا رہے۔

یہ بھی پڑھئے:  میلے لگیں گے ٹھیلے اُلٹیں گے اور پھر....؟ | حیدر جاوید سید

سوال یہ ہے کہ کیا جمہوریت کا نعرہ مارنے والوں میں برداشت کی کمی ہے؟۔جی بالکل ہے وہ جو کل تک اپنے وقت کی حکومتوں کے کپڑے ٹی وی چینلوں پر اتار نے کو آزادی صحافت سمجھتے تھے آج معمولی سی تنقید کو بھی سازش سمجھتے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ نعیم الحق اتنے اہم ہوگئے کہ وہ دو پسندیدہ صحافیوں کے ساتھ مل کر میڈیا ٹریبونلز کے لئے لابنگ کرتے رہے اور محترمہ فردوس عاشق اعوان وافتخار درانی نے بھی رضا مندی ظاہر کردی ۔اس پر ستم یہ ہے کہ تاثر یہ دیا گیا کہ یہ سب خان صاحب(عمران خان) کے حکم اور مشاورت سے طے ہوچکا ہے۔

بہر طور قلم مزدوروں کی مختلف الخیال تنظیموں کے ساتھ مالکان کی دونوں بڑی تنظیموں نے اس تجویز کو نہ صرف مسترد کردیا بلکہ اسے آزادی صحافت پر حملے کے مترادف قرار دیا ہے۔سو اب یہ کہا گیا کہ حکومت اور وزیراعظم یہ سمجھتے ہیں کہ میڈیا اور صحافی جمہوریت کے لئے رہنمائی کررہے ہیں۔یہ عرض کر دینا بہت ضروری ہے کہ چند میڈیا منیجرز اور ذاتی وفاداروں کے علاوہ قلم مزدوروں کی اکثریت آزادی صحافت پر یقین رکھتی ہے اہل صحافت نے آزادی صحافت کے لئے بے مثال قربانیاں دی ہیں۔حکومت سمجھتی ہے کہ کہیں کچھ غلط ہورہاہے تو وفاقی مشیر اطلاعات صحافیوں سے مشاورتی اجلاس منعقد کرالیں البتہ یہ مشاورت پسندیدہ مخلوق کی بجائے قلم مزدوروں سے ہوتاکہ دونوں اپنا اپنا موقف سامنے رکھ کر اس پر بات کر سکیں ۔

کیا ہم یہ امید کریں کہ پی ٹی آئی کی حکومت آزادی صحافت پر شب خون مارنے کی حوصلہ افزائی نہیں کرے گی؟۔وزیراعظم ان دنوں سعودی عرب کے دو روزہ دورہ پر ہیں اور وہیں سے وہ آٹھ روزہ دورہ پر امریکہ روانہ ہوجائیں گے  ۔بلاشبہ اسلامی دنیا سے بہتر تعلقات کار پاکستان کے لئے اہمیت کے حامل ہیں لیکن خلیج کی موجودہ صورتحال امریکی الزامات کی ون وے ٹریفک سے پیدا شدہ مسائل اس امر کے متقاضی ہیں کہ پاکستان خلیج میں جنم لینے والے کسی بھی تنازع میں فریق نہ بنے۔مسلم دنیا کے وسائل کو بردباد کرنے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے پچھلی  چند دہائیوں میں جو گھناؤنا کردار ادا کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں،اب بھی امریکہ مسلم دنیا کے باہمی اختلافات کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے میں پر جوش ہے۔اس صورتحال میں پاکستان کا امریکی کیمپ میں کسی بھی طور شامل ہونا یا خلیج میں کسی ایک فریق کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کسی بھی طور دانائی پر مبنی فیصلہ نہیں ہوگا۔

یہ بھی پڑھئے:  لاڑکانے چلو‘ ورنہ تھانے چلو

 کیا ہم یہ بھول گئے ہیں کہ ابھی پچھلے ہفتے ہی دو اہم خلیجی ممالک کے وزرائے خارجہ ہمیں یہ سمجھا کر گئے ہیں کہ مسئلہ کشمیر امت مسلمہ کا نہیں بلکہ دو ملکوں پاکستان اور بھارت کا تنازعہ ہے اس تنازعہ کو باہمی مذاکرات سے حل کرنے پر توجہ دی جائے۔عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس مرحلہ پر ہمیں اپنے معروضی حالات مسائل اور دیگر امور کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا۔  خلیج کے تنازع سے اپنا دامن بچا کر رکھنا ہی دانشمندی کہلائے گا ۔ثانیاًیہ کہ خلیج کا تنازع بنیادی طور پر یمنی بحران سے منسلک ہے یمن میں جو ہورہا ہے وہ کسی بھی کو درست نہیں۔یمنی بحران کے آغاز سے ہی ان سطور میں عرض کر رہا ہوں کہ یہ بحران خلیج میں ایک نئی اور ایسی جنگ کا دروازہ کھولنے کا موجب بنے گا جس میں ایک فریق کی قیادت امریکہ کر رہا ہوگا اور اب یہ خطرہ سامنے دیکھائی دے رہا ہے۔

مکررعرض ہے ہم اگر اس بحران کے خاتمے اور کسی ممکنہ جنگ کو ٹالنے میں کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں تو بسم اللہ مسلمان اور انسان کے طور پر اپنا فرض ادا کریں مگر فریق بننے سے بہر صورت گریز کرنا ہوگا۔

21ستمبر 2019ء
روزنامہ مشرق پشاور

حالیہ بلاگ پوسٹس