عامر حسینی نے ایک بار لکھا تھا
”شاہ جی وسیب سے بلاوے (دعوت) کا منتظر رہتا ہے، جیسے ہی کوئی دعوت ملے بیگ اُٹھایا اور چل دیئے ۔ ایک دو دن کے قیام کے بعد واپس جا رہا ہو تو ساہیوال تک پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتا رہتا ہے شاید کوئی واپس بلالے“۔
معاملہ حقیقت میں کچھ ایسا ہی ہے، 61برسوں کی سفرحیات میں مشکل سے14برس جنم شہر میں بیتائے ہوں گے پھر بھی جی یہی چاہتا ہے کہ کوئی آواز سندیسہ آئے اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ملتان کی سمت چل دوں۔
پچھلے چار دن اس کے باوجود سفر اور وسیب میں گزرے کہ وقت روانگی بخار کےساتھ ایک آدھ مسئلہ اور بھی تھا۔ وہی نزلہ زکام کھانسی اور بخار، بدلتے موسم کےساتھ جو ہماری قومی بیماریاں ہیں۔
رحیم یار خان بار ایسوسی ایشن میں ذکر امام حسینؑ کی محفل تھی، بار کے ذمہ داران نے مجھ طالب علم کو گفتگو کی سعادت حاصل کرنے کےلئے دعوت دی، انکار کی مجال کس میں۔ حریت فکر کے امامؑ کے حضور طالب علم نے اپنے مطالعہ کی روشنی میں عقیدت کے پھول پیش کئے۔
دوستوں اور عزیزوں سے ملاقاتیں ہوئیں، دو دن رحیم یار خان میں بیتے تیسرے دن جنم شہر کےلئے روانہ ہوا جہاں ملتانی منڈلی کی سنگت انتظار میں تھی۔ملتانی منڈلی جنم شہر کے دوستوں کا ایک کٹھ ہے۔ صاحبان علم کے درمیان مجھ سا طالب علم اپنی بات آزادی کےساتھ کہتا اور صاحبان علم سے فیض پاتا ہے۔ملتانی منڈلی کے حالیہ کٹھ میں ہمارے وکیل بابو ساجد رضا تھہیم اور میزبان خاور حسنین بھٹہ نے حالیہ یورپ یاترا کی داستان جستہ جستہ بیان کی۔ہمیشہ کی طرح دنیا جہان کے موضوعات پر باتیں اور بحثیں ہوئیں۔خاور حسنین بھٹہ اور فقیر راحموں کے درمیان اتفاق ہوا کہ جمہوریت ہی سارے مسائل کا حل ہے لیکن شرط یہ ہے کہ انتخابات ہر قسم کی مداخلت وسازش اور ہیرا پھیری سے آزاد ہوں۔سچی بات یہ ہے کہ اس ملک میں ایسا ممکن نہیں۔مالکان کب چاہیں گے کہ آزادانہ انتخابی عمل کے ذریعے حقیقی جمہوریت کی طرف سفر شروع ہو۔
ہمارے نوجوان پنجابی قوم پرست کاشف حسین ایک بار پھر تقسیم پنجاب کے غم میں ہلکان تھے۔ مکرر ان کی خدمت میں عرض کرنا پڑا، تقسیم پنجاب تو تب ہو جب ملتان سمیت سرائیکی بولنے والے علاقے کبھی پنجاب کا حصہ رہے ہوں۔ لگ بھگ دو سو سال قبل رنجیت سنگ نے ملتان پر قبضہ کیا تھا ہم تو اس قبضہ سے نجات کی جدوجہد کر رہے ہیں۔سرائیکی صوبہ کے معاملہ پر ہمارے ان پنجابی دوستوں کو اللہ جانے تقدس پنجاب کا دورہ کیوں پڑ جاتا ہے۔ ان میں سے بعض کا بس چلے تو وہ آئین میں ترمیم کرا کے ”حرمت پنجاب“ کا قانون بنوائیں اور پھر سرائیکی صوبہ کا مطالبہ کرنے والوں کو ”حرمت پنجاب“ پر حملہ کرنے کے جرم میں جیلوں میں ڈال دیں یا سنگسار کروادیں۔اپنے وسیب اور جنم شہر میں گزرے چار دنوں کے دوران ایک سوال تقریباً ہر جگہ زیربحث دکھائی دیا، وہ تھا پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا بنگلہ دیش کے قیام کے پس منظر میں یہ کہنا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ نے عقل سے کام نہ لیا تو سندھو دیش اور سرائیکی دیش بھی بن سکتے ہیں۔
سرائیکی خطے کے اُن دوستوں نے جو خود کو قوم پرست قرار دیتے دلواتے ہیں بلاول بھٹو کے بیان کو سیاق وسباق سے الگ کر کے اس کےساتھ جو حشر کیا اس پر حیرانی ہوئی۔ کسی نے خوب تبصرہ کیا کہ اگر بلاول نے یہی بات دوچار مرتبہ پھر دہرائی تو بہت سارے سرائیکی قوم پرست راولپنڈی پہنچ کر یقین دلائیں گے کہ اگر صوبہ نہ بھی بنے تو کوئی بات نہیں ہم اسی حال میں خوش ہیں۔
بلاول کے بیان پر آڑے ہاتھوں لینے والے دوستوں میں زیادہ تر وہ شامل ہیں جنہوں نے2018ءکے انتخابات میں تحریک انصاف کی کھل کر حمایت کی اور سرائیکی وسیب سے اسے جتوانے میں اہم کردار ادا کیا۔
عجیب بات یہ ہے کہ ہمارے ان دوستوں نے قوم پرستوں کی جدوجہد اور کمائی تحریک انصاف کی جھولی میں ڈال تو دی لیکن خواب اور تعبیریں دونوں چوری ہوگئے۔
سال بھر سے کچھ اوپر وقت گزر گیا آج تک وہ خصوصی کمیٹی نا بن پائی جس کےلئے تحریک انصاف نے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ نامی اس تنظیم سے تحریری معاہدہ کیا تھا جو تحریک انصاف میں مدغم ہوئی تھی۔ اصولی طور پر ہمارے ان دوستوں کو بلاول کے بیان پر سیخ پا ہونے یا اپنی حب الوطنی کے ثبوت پیش کرنے کی بجائے معروضی حالات اور دوسرے مسائل کےساتھ سرائیکی علاقے میں بڑھتے ہوئے احساس محرومی کےساتھ آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی سازشوں پر بات کرنی چاہئے۔
رحیم یار خان میں معروف ادبی تنظیم ”بزم فرید“ کی نشست میں بھی بلاول بھٹو کے بیان کےساتھ چند دیگر امور بھی زیربحث آئے۔ حاضرین میں اس امر پر اتفاق تھا کہ وسیب میں ایسا ادارہ ہونا چاہئے جو نئی نسل کی فکری وسیاسی تربیت کرے تاکہ سیاسی عمل کو نوجوان سیاسی کارکن مل سکیں۔ملتانی منڈلی میں بھی سرائیکی صوبے کے سوال پر دوستوں نے اپنی آراءکھلے دل سے پیش کیں۔ خوب بحث ہوئی دیگر موضوعات تو خیر سے تھے ہی ان پر سبھی نے اپنی آراءدیں۔سچ یہی ہے کہ سرائیکی وسیب کے لوگ اپنی قدیم قومی تہذیبی اور تاریخی شناخت کی بنیاد پر فیڈریشن کے اندر قومی اکائی (صوبہ) چاہتے ہیں۔
ستم یہ ہے کہ تقسیم پنجاب کا دکھ انہیں ہے جو 1947ءکے بٹوارے میں یہاں آن بسے اور وہ ہمیں سمجھاتے ہیں کہ عظیم پنجاب کی تقسیم نہیں ہونی چاہئے۔ عجیب سی ضد ہے ہمارے ان دوستوں کی کہ وہ چاہتے ہیں کہ ہم اپنی قومیت کے خانے میں ہزاریوں کی شناخت لکھنے کی بجائے زبردستی مسلط کی جانے والی شناخت لکھیں۔یہ تو ایسا ہی ہے کہ کوئی بندوق کے زور پر کسی سے کہے کہ تم ولدیت کے خانے میں اپنے والد کی بجائے میرے ابا کا نام لکھو۔چار دن پر پھیلا سفر اور دوسری مصروفیات تمام ہوئیں لیکن بیماری سے جان نہیں چھوٹ رہی اسی لئے کالم لکھنے میں غیرحاضریاں ہوئیں۔ دعاوں میں یاد رکھیں تاکہ لکھنے کا سلسلہ ٹوٹنے نہ پائے۔
روزنامہ مشرق پشاور
19 ستمبر 2019ء
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn