Qalamkar Website Header Image
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

ایک ناقابلِ اشاعت کالم: چند تلخ و شیریں معروضات

بلاشبہ عسکری امور اور خطے میں بھارتی اقدامات سے بڑھتے ہوئے مسائل پر مسلح افواج کا نکتہ نظر مناسب انداز میں آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور ہی پیش کرسکتے ہیں ، لیکن جب وہ تنازع کشمیر کے حوالے سے بلائی گئی خصوصی پریس کانفرنس میں سیاسی مسائل چھیڑتے ہوئے پچھلے دس برسوں کے دوران اقتدار میں رہنے والی دوحکومتوں کے حوالے سے روایتی بات کریں یا یہ کہیں کے ہم معیشت ٹھیک کررہے ہیں جو دس سال میں خراب ہوئی ہے تو پھر ان سے یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ فقط دس برس ہی کیوں تیزی سے بڑھتے ہوئے سیاسی سماجی اور معاشی مسائل کے ذمہ داروں کا تعین کرتے وقت بات اکتوبر 1999ء سے کیوں نہ شروع کی جائے ؟
افسوس کے ان سے یہ بات ہمارے ان دوستوں نے نہیں کی جو اپنے اپنے تئیں آزادیء اظہار کے ” حریت پسند ” کہلاتے ہیں ، دس سال کے حوالے سے ان کے موقف کو لے کے سوشل میڈیا پر خوب بحثیں اُٹھیں ۔ ٹویٹر پر میں نے ان سے سوال کیا کہ” کیا وہ کسی دن یہ بتانا بھی پسند کریں گے کہ جنرل ایوب ، جنرل ضیا ،جنرل مشرف ،جنرل اسلم بیگ ،جنرل حمید گل، جنرل اختر عبدالرحمن اور جنرل اشفاق پرویز کیانی کے خاندانوں کے اربوں پتی ہونے جانے کے پیچھے کیا عمل کار فرما ہے ؟”

ان سابق جرنیلوں میں سے صرف جنرل مشرف کا خاندان تقسیم سے قبل اُس وقت کی مڈل کلاس سے تعلق رکھتا تھا ۔ باقی ماندہ حضرات کے خاندان سفید پوش طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ انہوں نے سوال کو نظر انداز کردیا ۔ غالباً یہ ناپسندیدہ سوال تھا یابلڈی سویلینز کو ایسے سوال پوچھنے کا حق نہیں۔ معاف کیجیے گا اگر آپ اپنے دستوری فرائض کی طے شدہ حد سے تجاوز کرکے آگے بڑھ کر بات کریں گے تو سوالات بھی ہوں گے ۔ثانیاً یہ کہ فقط اب نہیں ہمیشہ سے آئی ایس پی آر اپنی پریس بریفنگ میں سابق و حاضر پیاروں کو ہی دعوت دیتا ہے ۔ عصری شعور کے ساتھ سوال کرنے اور ہر حال میں جمہوریت کی ہمنوائی کرنے والے اسے کیا کسی کو بھی پسند نہیں ہوتے ۔
جناب آصف غفور کو یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ چار مارشل لاؤں پر تنقید فوج کے ادارے پر تنقید ہرگز نہیں ۔ افغان پالیسی اور اس سے جُڑے معاملات پر سوال اٹھانے والے مشکوک حب الوطنی والے غدار نہیں ہوتے۔چالیس سالہ افغان پالیسی سے پیدا ہوئے مسائل اور بعض دوسرے امور کے حوالے سے خود آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ یہ کہہ چکے ہیں ۔ ” ہمارے چالیس سال کے معاملات درست نہیں تھے اپنے وسیع تر قومی و ملکی مفادات کے تناظر میں حکمت عملی وضع کرنے اور آگے بڑھنے کا وقت آگیا ہے "

یہ بھی پڑھئے:  سوشلسٹ مرشد اور نونیوں کا سیاپا | حیدر جاوید سید

جناب باجوہ کے اس موقف پر دوآرا ہرگز نہیں ۔ مسائل اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب ایسی بات کہہ دی جائے جو سوالوں کو جنم دیں پھر سوال ہوں تو کچھ لوگ یہ کہنے لگتے ہیں کہ فوج کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے ۔
پاکستان ابھی اتنا آزاد نہیں ہوا کے ہم پچھلے بہتر سالوں کی عسکری دانش اور پالیسیوں پر سوالات اٹھا سکیں یا تجزیہ کریں ۔
لاریب ہمیں بہت آزادی میسر ہے لیکن یہ آزادی سیاسی عمل میں شریک طبقات اور خاندانوں پر تبرے کرنے ،الزام کو جرم بناکر پیش کرنے اور پھر خود ہی جج بن کر فیصلہ صادر کرنے کی آزادی ہے۔ اور منہ ٹیڑھا کرکے جمہوریت کو بھی گالی دینے کی کامل آزادی میسر ہے۔ ریاست کی سرپرستی میں بڑھتی پھلتی پھولتی اس آزادی نے ہمارے چار اور جو ماحول بنا رکھا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ ہم مطالعے سے بھاگتے ہیں ،مکالمہ کا تمسخر اڑاتے ہیں غوروفکر کو خطرناک بیماری سمجھتے ہیں ۔
بات بات پر یہودوہنود کا ایجنٹ ، مودی کا یار اور نجانے کیا کیا بنا ڈالتے ہیں ۔ یہ رویہ مزاج اور تنگ نظری کیسے پروان چڑھے ؟ زمین میں دفن خزانہ نہیں کہ نکالنے کےلیے کسی ماہر آثار قدیمہ کی ضرورت پڑے گی سبھی جانتے ہیں سیکورٹی اسٹیٹ میں برین واشنگ کیسے ہوتی ہے۔
ہم بحیثیت ملک آج جہاں کھڑے ہیں اس پر مکالمہ اٹھانے سے ہاتھ پاؤں پھولنے لگتے ہیں ۔ بطور سماج ہماری جو شناخت ہے وہ تشفی بھری ہر گز نہیں ڈینگیں جتنی مرضی مارلی جائیں ۔ تقسیم در تقسیم اور درپیش مسائل کی وجہ وہ تجربات ہیں جو ریاست نے کیے ۔

طالب علم کو اس پر کبھی شک نہیں ہوا کے ریاست کے تجربات کو ایندھن بہر طور سماج سے ہی میسر آیا ۔مثلاً ہمارے یہاں کے چار مارشل لاؤں میں سے ہر مارشل لاء بالآخر سیاسی عمل کی نہر ( نظام ) میں اشنان کو ضروری سمجھا لیکن ہر ایک نے اپنی نہر خود بنوائی اور اشنان کے ضابطے بھی نئے بنائے ۔ آخر کیوں نا صاف ستھرے انداز میں جمہوریت کو آگے بڑھنے دیا گیا ؟ ۔ کیا اب کوئی ہمیں اتنی آزادی دے گا کہ ہم جس طرح سیاسی عمل پر لٹھ بازی سے بھرا تجزیہ کرتے ہیں دیگر معاملات پر لٹھ بازی کے بنا تجزیہ کرسکیں ؟
بہت ادب سے عرض کے یہ ملک ہم سب کا ہے اور غلطیاں بھی سبھی سے ہوئیں ۔ بہت سارے سفید پوش و اوسط درجہ کے خاندانوں کے ارب پتی ہوجانے کے سفر پر تحفظات موجود ہیں مگر گدھے گھوڑے ایک ہی لاٹھی سے نہیں ہانکے جاسکتے ۔ کرپشن ہوئی اور اس سے کوئی انکار نہیں کرتا لیکن کرپشن صرف سیاستدانوں نے کی یہ یکطرفہ بات ہے ۔ کرپشن کی دلدل میں اترنے کا موقع جس کو بھی ملا وہ اترا ضرور چار مارشل لاوں اور افغان پالیسی کی برکات سے امیر کبیر ہوئے جرنیلوں کے خاندان اس کا زندہ ثبوت ہیں

یہ بھی پڑھئے:  دیر سے نکلنے والا دن - عامر حسینی

ہم ایسے قلم مزدور صرف یہ عرض کرتے لکھتے رہتے ہیں کہ چوتھائی یا آدھاسچ بولنا خطرناک ہوتا ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ پچھلے چالیس برسوں میں ریاستی چھتر چھایہ میں ہوئے جہادی دھندوں نے سینکڑوں بلکہ ہزاروں سڑک چھاپوں کو ککھ پتی سے کروڑ و ارب پتی بنادیا ۔ کیا ہم ان نودولتیوں سے سوال پوچھنے کا حق رکھتے ہیں یا صرف سیاستدانوں کو گالی دینا حج اکبر کے برابر ہے ؟
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دو طریقے ہیں اولاً کرپشن کے سارے کرداروں پر بحث اور ان کے احتساب کا حق ملنا چاہیے یا پھر کسی میثاق کے تحت آگے بڑھ لیا جائے
ثانیاً یہ کہ رضاکارانہ دعوت دی جائے وہ بھی کراس دا بورڈ ان سب سیاسی مذہبی سابق عسکری خاندانوں کو جن پر کرپشن کے الزامات ہیں وہ اپنی دولت مندی کے جائز ذرائع ثابت کریں یا پھر پچھتر فی صد ملکی خزانہ میں جمع کروادیں
ثالثاً یہ کے اگر میں یہ کہتا ہوں کے فلاں شخص کو تقسیم کے بعد بھارت میں رہ جانے والی جائیداد کے بدلے میں یہاں گیارہ ایکڑ اراضی اور پشاور میں ایک مکان الاٹ ہوا اور اب اس کے پوتے ارب پتی ہیں تو یہ ضرور دیکھا جائے کہ حقیقت کیا ہے ۔

مکرر عرض ہے کہ ریاست کو اپنے فرائض پر توجہ دینا ہوگی ۔ یہ ملک اس میں آباد بائیس کروڑ لوگوں کا ہے اپنی قیادت آزادانہ طور پر منتخب کرنے اور منتخب قیادت کے احتساب کا حق بھی عوام کو ہی ہے قانون سب کے لیے مساوی ہے طبقہ یا ادارہ دیکھ کر قانون کو پتلی گلی سے نکلنے کی عادت ترک کرنا ہوگی ۔
تین بار وزیراعظم رہنے یا سابق صدر مملکت کرپشن کے الزامات میں گرفتار ہوسکتے ہیں تو وہ دوسرے لوگ جن پر کرپشن اور دستور توڑنے کے الزامات ہیں انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کی بجائے اداروں کے تقدس کا تحفظ کیوں فراہم کیا جاتا ہے ؟
فہمیدہ بات یہی ہے کہ سوال سماجی زندگی کا حُسن ہیں ان کا بُرا نہیں منایا جانا چاہیے ۔

حالیہ بلاگ پوسٹس