ایسی بھی کیا ایمرجنسی تھی کہ قانون سازی کے لئے پنجاب اسمبلی کا اجلاس بلانے کی بجائے صوبہ کے ٹیچنگ ہسپتالوں کو بورڈ آف گورنرز کے حوالے کرنے کے لئے گورنر پنجاب سے آرڈیننس جاری کروایاگیا۔
سادہ لفظوں میں کہیں تو ٹیچنگ ہسپتالوں کی نجکاری کرنے کا عمل شروع ہوگیا ہے۔
وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کی وضاحتیں حقیقت سے مختلف ہیں۔
جو لوگ اس فیصلے کو مفاد عامہ پر مبنی قرار دے رہے ہیں وہ آرڈیننس کو پڑھ لیں مزید تسلی کرنا ہو تو ٹیچنگ ہسپتالوں کے لئے مجوزہ بورڈ آف گورنرز کے لئے پنجاب کی دو اہم شخصیات کی نگرانی میں تیار ہوئی لسٹیں حاصل کرکے ان میں شامل "نابغوں” بارے معلومات حاصل کرلیں چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔
صوبائی حکومت نے پنجاب میں پہلے مرحلہ پر ہسپتالوں میں مفت ادویات دینے کا سلسلہ بند کیا اگلے مرحلہ میں ہسپتالوں میں معمولی سی فیس پر ہونے والے ٹیسٹوں کے نرخ بڑھائے
اسی دوران یہ شکایات سامنے آئیں کہ بعض ٹیچنگ ہسپتالوں کے ڈاکٹرز کو ان کے اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں کے دفاتر میں طلب کرکے حکم دیاگیا کہ مریضوں کے لئے نسخہ لکھتے وقت فلاں فلاں ادویہ ساز اداروں کی ادویات لکھی جائیں۔
طب کے شعبہ سے منسلک لوگ سال بھر سے شور مچا رہے تھے کہ پنجاب کی وزیر صحت اور چند دوسری شخصیات چند ادویہ ساز اداروں کے مفادات کے تحفظ میں پرجوش ہیں۔
چند آوازیں بلند ہوئیں تو کہا گیا شرپسند پنجاب کو ترقی کرتا نہیں دیکھ سکتے۔
پنجاب نے کتنی ترقی کی یہ جاننے کے لئے آپ رحیم یار خان میں تین چار روز قبل ایک فاتر العقل شخص کے پولیس تشدد میں ہلاک ہونے کی تفصیلات پڑھ لیجئے۔
اے ٹی ایم توڑ کر اپنا اے ٹی ایم کارڈ نکالنے اور کیمرے کی طرف منہ کرکے منہ چڑھانے والا یہ چور ذہنی طور پر مستند پاگل تھا۔
لیکن اس نے مرنے سے قبل پولیس والوں سے یہ پوچھ کر کہ
"ایک بات بتاﺅ تم لوگوں نے مارنا (قتل کرنا) کہاں سے سیکھا ہے”
غیر پاگل کہلانے والے سماج کو ہلا کر رکھ دیا۔
پولیس والوں نے اس کا جسم گرم استری سے جلایا‘ بد ترین تشدد کیا اور وہ جاں بحق ہوگیا۔
پچھلے چند دنوں میں لاہور کے اندر 3افراد پولیس تشدد سے ہلاک ہوئے۔
لیکن ہم تو ساہیوال کا افسوسناک سانحہ بھول گئے جس میں متعدد افراد پولیس کی فائرنگ سے جاں بحق ہوئے اور پھر دہشت گردوں سے مقابلہ کی جھوٹی کہانی گھڑی گئی تھی ۔
ہم اصل موضوع پر بات کرتے ہیں‘ پنجاب کے ٹیچنگ ہسپتالوں میں ایم ایس اور پرنسپل کے عہدے ختم کرکے ان کی جگہ کوارڈینیٹر مقرر کئے جائیں گے۔ میڈیکل کالجوں اور ہسپتالوں کا عملہ پروفیسرز ڈاکٹرز اور نرسنگ سٹاف کے سروں پر بورڈ آف گورنر کی خوشنودگی کی تلواریں لٹکتی رہیں گی۔
صاف سیدھی بات یہ ہے کہ حکومت (وفاقی) اٹھارہویں ترمیم سے جان نہیں چھڑا پائی تو اب اس کے تحت جو محکمے صوبوں کو ملے ہیں ان کا کریا کرم شروع ہو گیا ہے۔
اس سارے عمل کی نگرانی دو افراد نے کی اولاً ڈاکٹر یاسمین راشد جو پنجاب کی وزیر صحت ہیں اور ثانیاً ڈاکٹر شہباز گل جو پنجاب حکومت کے چیف ترجمان بلکہ اصلی وزیر اعلیٰ ہیں۔
کہتے ہیں کےیہ موصوف پی ایچ ڈی ہیں‘ طب کے شعبہ سے ان کا ساٹھ میل دور کا بھی کوئی تعلق نہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ بورڈ آف گورنر ٹیچنگ ہسپتالوں اور کالجز کے امور چلائیں گے۔
متعلقہ سامان کی خریداری بورڈ کی منظوری سے مشروط ہوگی یعنی اقربا پروری کا نیا دروازہ کھلنے کو جا رہا ہے۔
پنجاب میں چند میڈیکل کالجوں میں نا اہل جعلی ڈگریوں والے اور ریٹائرمنٹ کی عمر سے زائد افراد کو پرنسپلز لگائے جانے کی تفصیل پچھلے ایک کالم میں عرض کرچکا۔
ان تقرریوں پر شعبہ صحت کے اندر سے اٹھنے والی آوازوں اور بعض امور میڈیا و سوشل میڈیا پر آجانے کے بعد گورنر پنجاب کے پی اے پنجاب کے محکمہ اطلاعات پر دباﺅ ڈالتے رہے کہ خبر دینے والے صحافیوں سے پوچھا جائے کس نے انہیں معلومات دیں۔
سوال یہ ہے کہ ایسے کام کرتے ہی کیوں ہیں یہ لوگ کہ خبر بن جائے تو شور مچانے لگتے ہیں۔
میں ذاتی طور پر ان اطلاعات سے متفق نہیں ہوں کہ پچھلے دو ماہ کے دوران پنجاب میں تین ایسی فرمیں رجسٹرڈ ہوئی ہیں جو ہسپتالوں کو ادویات اور دیگر طبی آلات و مشینری فراہم کرنے کی اہلیت رکھنے کی دعویدار ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ان فرموں کے پیچھے بڑے لوگ ہیں اور ان کا کاروبار اب خوب پھلے پھولے گا۔
حیران کن بات یہ ہے کہ ایک طرف صوبے میں 6کروڑ لوگوں کو صحت کارڈ دینے کے اعلانات ہو رہے ہیں دوسری طرف یہ نیم نجکاری
تو کیا یہ کہنا درست ہوگا کہ سارا کھیل چند شخصیات کو قانونی طور پر نوازنے کے لئے رچایا جا رہا ہے؟۔
یہ بجا ہے کہ نواز لیگ کے دور میں بھی بڑے ہسپتالوں کی نجکاری کا پروگرام بنا تھا۔ ایک سروے کروایا تھا شہباز شریف کی حکومت نے اس سروے میں 81فیصد افراد نے ہسپتالوں کی نجکاری کو عوام دشمنی قرار دیا تھا۔
اب یہ کہنا کہ ایسا پروگرام تو شہباز شریف کابھی تھا‘ ہم نے عمل کرلیا تو کونسی قیامت ٹوٹ پڑی ہے در ست نہیں ہے۔
پچھلی حکومتوں کو چور ڈاکو اور غدار قرار دینے والوں کو ان اقدامات سے گریز کرنا چاہئے جو چوری چکاری اور اقربا پروری کے بڑھاوے میں معاون ثابت ہوں۔
طبی حلقوں کی یہ رائے درست ہے کہ گورنر کا جاری کردہ آرڈیننس عوام دشمن تو ہے ہی اس کے ساتھ ساتھ اس عبوری حکم (قانون سازی کے بغیر) سے ہزاروں پروفیسرز ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل عملہ کو سرکاری ملازمت کے تحفظ قانون کی چھت سے باہر نکال کھلے آسمان کے نیچے کھڑا کردیاگیا ہے۔
عجیب بات ہے اٹھتے بیٹھتے یورپ کی تعمیر و ترقی اہداف اور نظام کا حوالہ دینے والے اتنا بھی نہیں جانتے کہ یورپ میں تعلیم اور صحت کے شعبے ریاستوں کی ذمہ داری ہیں ہمارے یہاں ان شعبوں سے جان چھڑائی جا رہی ہے۔
حرف آخر یہ ہے کہ گورنر کے آرڈیننس کو واپس لیا جانا چاہئے اور صحت و تعلیم کے شعبوں میں حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔
روزنامہ مشرق پشاور
5ستمبر 2019ء
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn