Qalamkar Website Header Image
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

خبریں ہیں کچھ تبصرے اور مشورے

جنم شہر ملتان میں چار دن بسرکرکے پچھلی شام واپس حصول رزق کے ٹھکانہ پر لوٹا ہوں۔ ان چار دنوں میں کوشش یہی رہی کہ اخبارات پڑھوں نا شور مچاتے چینلز دیکھوں لیکن اس کوشش میں 80فیصد کامیابی اور 20فیصد ناکامی ہوئی۔
بات وہی ہے
” گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گا تو کھائے گا کیا؟”۔
اخبار نویس کتنی دیر اور دن خبروں اور اطلاعات کی دنیا سے دور رہ سکتا ہے۔
اب خبریں یہ ہیں کہ سونا 400روپے تولہ سستا اور ڈالر شریف مہنگا ہوگیا ہے۔ پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن نے 17جولائی کو ملک گیر ہڑتال کا اعلان کردیا ہے۔ کل بروز جمعہ جب لالہ سراج الحق میرے جنم شہر ملتان میں مہنگائی اور بیروزگاری کے خلاف ” عوامی” مارچ کی قیادت فرما رہے تھے تو میں شہر سے رخصت ہو رہا تھا۔ ان کاموقف ہے کہ
” تحریک انصاف نے لوگوں کو سبز باغ دکھائے اور کالا باغ پہنچا دیا”۔ 
کوئی لالہ کو بتائے کہ سندھ دریا کے کنارے واقع کالا باغ بہت خوبصورت جگہ ہے۔ لالہ یہ بھی کہہ گئے کہ پی ٹی آئی دس ماہ میں ستر سال کاسفر کر گئی۔ ” درویش” آدمی ہیں لالہ سراج الحق ان کی باتوں اور تنقید کا برا نہیں منانا چاہئے۔ 
جس وقت یہ سطور لکھ رہا ہوں تاجروں کی ہڑتال جاری ہے۔ ہڑتال کے معاملے پر تاجر تقسیم کیسے ہوئے یہ ویسی ہی کہانی ہے جیسی وکیلوں کی ہڑتال کے وقت دہرائی گئی تھی۔ 
” گاجریں اور ڈنڈے” 
ادھر ہمارے عظیم الشان وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ ننکانوی نے دھمکی دی ہے
” جو ہڑتال کرے گا اس کی دکان کے تالے توڑ کر مال ضبط کرلیں گے”۔
کیا شان حکمرانی ہے مگر خاموشی مناسب ہے اس لئے مطالیب و معانی اپنے بل بوتے پر کیجئے۔ 
سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قومی صحت نے مطالبہ کیا ہے کہ ریسٹورنٹس میں شیشہ پینے پر پابندی ختم کی جائے، اس پر سبحان اللہ کہہ کر آگے بڑھ جائیں۔ 
جج صاحب والی ویڈیو نے بھونچال برپا کر رکھا ہے۔ پوری کی پوری تحریک انصاف اس ویڈیو کو لے کر میدان میں ہے۔ پنجاب حکومت کا پی ایچ ڈی چیف ترجمان اس حوالے سے وہ کہہ لکھ اور بیان کر رہا ہے کہ لوگ دانتوں میں انگلیاں دبا کر پوچھ رہے ہیں۔ 
یہ صاحب پی ایچ ڈی ہیں؟
نئے پاکستان کی ڈکشنری میں موٹا اور کمینہ کہنا گالی ہے مگر ” رنڈی ان منڈی” کہنا لکھنا ٹرینڈ چلانا مکافات عمل ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  تمدنی مکالمہ یا سوفسطائی حیلے (پہلا حصّہ) - عامر حسینی

ویڈیو سے متنازعہ ہوئے جج صاحب کی عدالت میں زیر سماعت 50اہم مقدمات احتساب عدالت نمبر1 میں منتقل کردئیے گئے ہیں۔

وسطی پنجاب کے مقابلہ میں جنوبی پنجاب کے نام سے پکارے جانے والے سرائیکی وسیب میں لوڈشیڈنگ کی بھرمار ہے۔ کڑاکے دار گرمی اور جان لیوا حبس کے اس موسم میں گرم ترین علاقوں کے لوگوں پر جو بیت رہی ہے اسے گولی ماریں۔ 
آپ یہ جان کر خوش ہوں گے کہ وفاقی حکومت ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کھاد فیکٹریوں’ سیمنٹ اور دیگر بڑی انڈسٹری کے لئے 200ارب روپے معاف کرنے کاسوچ رہی ہے۔ بجلی اور سوئی گیس کی مد میں انڈسٹری کے چند بڑے کرداروں کے ذمہ 200ارب کے بقایاجات ہیں ، فقیر راحموں نےکیا خوب بات کہی کہ 5000 کا نادہندہ جیل جائے اور 200ارب کے نادہندگان کے لئے رعایت و معافی کا قانون پھر بھی اگر لوگ نئے پاکستان کی تعمیر نو اور اٹھان پر شک کرتے ہیں تو ان کی قسمت۔ 
دو عدد ایمنسٹی سکیموں کی بدولت موجودہ حکومت 3832 ارب روپے حاصل کر پائی۔ کہا جا رہا ہے کہ سابقہ حکومت نے معاملات اس قدر بگاڑ دئیے تھے کہ ہدف حاصل کرنا مشکل ہوگیا تھا۔ 
فقیر راحموں کئی ماہ سے اپنے دوست عمران خان کی تلاش میں ہیں جو کبھی کہا کرتے تھے ایمنسٹی سکیم چوروں اور ملک دشمنوں کے لئے ہوتی ہے۔ خدا خوش رکھے عمران خان اور بھی بہت کچھ کہا کرتے تھے مگر وہ پرانے پاکستان کی باتاں ہیں۔
ارے ہاں ایک تازہ خوشخبری یہ ہے کہ سٹیٹ بنک کی سابق گورنر ڈاکٹر شمشاد اختر کو بھی وزیر اعظم کاخصوصی مشیر مقرر کردیاگیا ہے۔ کیا پی ٹی آئی کے منتخب لوگوں میں امور مملکت چلانے کی اہلیت نہیں یا اعتماد کا فقدان ہے؟ 
چلیں ہمیں کیا نظام مملکت چلانے والے بہتر سمجھتے ہیں کہ کس کو وزیر اور کس کو مشیر بنانا یا بنوانا ہے۔
ایک اور خبر یہ ہے کہ حکومت کے 26ارکان سینٹ نے سینٹ کے ڈپٹی چیئر مین سلیم مانڈوی والا کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروادی ہے۔ دوسری طرف یہ اطلاعات بھی ہیں کہ صدارتی حکم جاری کروا کے چیئر مین سینٹ کے خلاف عدم اعتماد کی رائے شماری کچھ وقت کے لئے موخر کروادی جائے۔ 
خدا کرے ایسا نہ ہو اور پارلیمانی قواعد و ضوابط پر ان کی روح کے مطابق عمل ہو دوسری صورت میں انگلیاں جس طرف اٹھیں گی وہ جانتے سب ہیں بولتا کوئی نہیں۔

یہ بھی پڑھئے:  سامراجی اشرافیہ کا دودھاری تلوار بجٹ | حیدر جاوید سید

سکہ بند سیاسی رہنما شیخ رشید کی وزارت ریلوے بحران اور حادثوں کی شکار ہے۔ کرائے بڑھا دئیے گئے ہیں’ سہولتوں کا فقدان ہے’ اے سی بزنس اور لوئر اے سی کلاس میں سفر کرنے والے مسافر روتے پھر رہے ہیں۔ ٹرینیں تین سے چار گھنٹے تاخیر کا شکار ہیں’ دس ماہ میں 18 حادثے’ انگنت انسان موت کی وادی میں اتر چکے مگر شیخ جی ہیں کے روزانہ ایک سیاسی پریس کانفرنس پھڑکاتے ہوئے جی بہلاتے ہیں حرام ہے کہ اپنی اصل ذمہ داریوں پر توجہ دیں۔ 
نئی بوگیاں خریدے بغیر 20نئی ٹرینیں وہی چلا سکتے ہیں شیخ صاحب جب جب بھی وزیر ریلوے بنے یہ ادارہ بحران در بحران کاشکار ہوا۔ 
کھوکھلے دعوے اور ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کے ہنر میں یکتا شیخ جی اس ملک اور ریلوے پر کب رحم کھائیں گے۔ یہ صرف اللہ ہی جانتا ہے البتہ فقیرراحموں کہتے ہیں ریلوے کی وزارت کا نیا نام ” وفاقی وزات ریلوے و بہبود آبادی ” ہونا چاہیے 
فقیر راحموں اور جناب شیخ ایک دوسرے کو 45 برسوں سے بخوبی جانتے ہیں اس لیے ان کے معاملے میں پڑنے کی ضرورت نہیں 
کچھ دیر قبل ایک صحافی دوست نے اطلاع دی ہے کہ حکومت نے ہڑتالی تاجروں کے قائدین اور حامیوں سے آہنی ہاتھ سے نمٹنے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ پنجاب حکومت اور نان بائی ایسوسی ایشن کے درمیان مزاکرات کی کامیابی کے باوجود کل اور آج روٹی سابقہ نرخ 6 روپے کی بجائے 8 روپے اور بعض جگہوں پر روغنی نان 18 روپے جبکہ سادہ نان 12 روپے میں فروخت ہوئے ، اب دیکھتے ہیں کل سوموار کو کیا ہوتا ہے ؟ 
کالم میں شامل بعض خبریں اخبارات کی ہیں اور بعض ذاتی اطلاعات پر آپ کی مرضی اعتبار کریں ناکریں ۔ راوی چین لکھتا ہے _ لاہور کی مختلف مارکیٹوں ہڑتال ہے پولیس کی کوششیں ناکام رہیں ۔ بہتر یہی ہے کہ حکومت اور کاروباری حلقوں کو مد مقابل آنے کی بجائے درمیانی راستہ نکالنا چاہیے تاکہ عوام کو ریلیف ملے

حالیہ بلاگ پوسٹس