سیاست کے کاروبار بن جانے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ ایک پوری نسل سوشل میڈیا پر سیاست دانوں کے لتے لیتی دکھائی دیتی ہے۔ اس نسل کے خیال میں ملک کے سارے مسائل کا حل ایک ایسی حکومت کے پاس ہی ہوسکتا ہے جو فوج کی نگرانی میں کام کرے۔ اپنے موقف کے حق میں یہ فیس بکی مجاہدین ایسے ایسے دلائل دیتے ہیں کہ سر پیٹ لینے کو جی چاہتا نہیں بلکہ بندہ سر پیٹ کر رہ جاتا ہے۔ دوسرے بہت سارے دوستوں کی طرح میں بھی سوشل میڈیا استعمال کرتا ہوں اور آئے دن اس نسل کے فیس بکی مجاہدین سے واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ ستم یہ ہے کہ ان عزیزوں کو آپ قائدے قرینے سے جواب دیں بھی تو گلے پڑتے ہیں۔ بظاہر یہ سب کیا دھرا سیاست دانوں کی صفوں میں شامل ان کاروباری افرادکا ہے جنہوں نے سیاست کو تجارت بنایا اور کارکنوں کی جگہ اپنے منشیوں ( میں انہیں نالی موری کا ٹھیکیدار کہتا لکھتا ہوں) کو دے دی۔ مگر حقیقت میں اس کی دو جووہات ہیں اولاً اس ملک کی چار فوجی آمریوں کے ادوار میں جمہوریت کے لئے جدوجہد کرنے والے زمین زادوں کی پر عزم داستانوں کا مرتب نہ ہونا اور ثانیاً سیاست میں پیسے کا عمل دخل اور پھر وہ پروپیگنڈا جو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں اتر چھاتہ بردار کرتے ہیں۔ ان چھاتہ برداروں میں سے اکثر تاریخ اور عصری علوم سے بے بہرہ ہیں۔ کچھ ایک خاص برانڈ کا ایجنڈا رکھتے ہیں۔ گو چند ایک کتابیں ضرور لکھی گئیں مگر کتاب دوستی بہت کم ہے۔ آپ اس ابتدائیہ کو اس ایک مثال سے سمجھ لیجئے۔ دو دن قبل لاہور میں ایک جوان عزم سیاسی رہنما جسٹس (ر) سعید حسن ملک وفات پاگئے۔ ایک دو بین الاقوامی اداروں نے تو ان کے بارے کچھ تفصیلات نشر کیں مگر خود ہمارے ہاں قومی اخبارات کہلانے کے دعویدار اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں جسٹس(ر)سعید حسن ملک بارے اگر کچھ شائع یا نشر ہوا تو فقط یہ کہ ”پیپلز پارٹی کے سابق سیکرٹری جنرل جسٹس سعید حسن ملک وفات پاگئے”۔کمرشل ازم کے بھیانک دور میں زندہ حقیقتیں کس طرح نظر انداز ہوتی ہیں اس کا دکھ صرف وہ زمین زادے محسوس کرسکتے ہیں جنہوں نے آمریت کے سیاہ ادوار میں اپنی جان جوکھم میں ڈال کر طلوع صبح جمہور کے لئے جدوجہد کی ہو یا اس جدوجہد کو قریب سے دیکھا ہو۔ جسٹس(ر) سعید حسن ملک اس وقت لاہور ہائیکورٹ کے جج تھے جب 5جولائی 1977ء کو منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر فوج کے سربراہ جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ مارشل لاء کے ابتدائی چند مہینوں میں انہوں نے بطور جج درجنوں سیاسی کارکنوں اور رہنمائوں کو انسانی حقوق کی بناء پر ریلیف دیا۔ ترقی پسند سیاست کے گلی کوچوں سے اٹھ کر آئے جسٹس سعید حسن ملک نے لاہور ہائیکورٹ میں شاندار روایات قائم کیں۔ بہادر’ معاملہ فہم’ ترقی پسند خیالات رکھنے والے انسان دوست منصف نے جرأت رندانہ سے کام لیتے ہوئے اپنی عدالت میں زیر سماعت سیاسی کارکنوں اور رہنمائوں کے مقدمات میں بسا اوقات ان فوجی افسران کو بھی طلب کرلیا جن کے دستخطوں سے گرفتاریوں یا نظر بندیوں کے احکامات جاری ہوئے تھے۔ فوجی حکومت نے اس منصف دیوتا کے پر کاٹنے کے لئے اس وقت کے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس مولوی مشتاق سے کام لیا ار مولوی صاحب نے ایک مقدمہ میں فیصلہ سنا دیا کہ مارشل لاء کے تحت ہوئی گرفتاریوں ار نظر بندیوں کے مقدمات سول عدالتیں نہیں سن سکتیں۔ اگلے مرحلہ پر انہوں نے رجسٹرار کو حکم دیا کہ جسٹس ملک کی عدالت میں مقدمات نہ لگائے جائیں۔ اسی دوران سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قتل کے ایک مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی۔ چیف جسٹس مولوی مشتاق جانتے تھے کہ جسٹس ملک ایک ترقی پسند سیاسی کارکن اور وکیل کا پس منظر رکھتے ہیں لہٰذا بنچ کی تشکیل کے وقت انہیں اوروں سے دور رکھتا گیا۔ جسٹس ملک خود بھی اس صورتحال سے نالاں اور جج کے منصب کو بوجھ سمجھنے لگے تھے۔ لہٰذا انہوں نے جج کے عہدے سے استعفیٰ دیا اور ذوالفقار علی بھٹو کے وکلاء کے پینل میں شامل ہوگئے۔ بھٹو صاحب کے خلاف قتل کے جھوٹے مقدمہ میں انہوں نے عدالت کے اندر دلائل دینے کے ساتھ عدالت سے باہر سیاسی جدوجہد کو منظم کرنے میں شاندار کردار ادا کیا۔ کئی بار مارشل لاء کے احکامات کے تحت گرفتار ہوئے اپنی گرفتاریوں کے دوران انہوں نے لاہور کے بدنام زمانہ ٹارچر کیمپ سی آئی سٹاف چونا منڈی اور پھر شاہی قلعہ میں بھی صعوبتیں برداشت کیں۔ بعد ازاں بیگم نصرت بھٹو نے انہیں پارٹی کا سیکرٹری جنرل بھی نامزد کیا۔ ایک ترقی پسند سیاسی کارکن’ عوام دوست ‘ قانون دان’ انصاف کے اعلیٰ تقاضوں کو سر بلند رکھنے والے جج اور پھر مارشل لاء کی مزاحمت کرنے میں پیش پیش زمین زادے کے طور پر انہوں نے جدوجہد کی اور جس جبر وستم کو برداشت کیا اس سے ہماری یہ نسل قطعاً ناواقف ہے جو سوشل میڈیا پر جمہوریت کو دن بھر پانچ دس گالیاں نہ دے کر اس کا پیٹ نہیں بھرتا۔ بجائے جمہوریت کے نام پر ہوئی جدوجہد اور خود جمہوری نظام کو انتقامی طبقات نے اغواء کرلیا لیکن اس میں ان جمہوریت پرست فرزانوی کا کیا مقدر ہے جنہوں نے اپنے لہو سے چراغ جلا کر مارشل لائوں کے گھپ ٹھور اندھیروں میں روشنی کئے رکھی۔ جسٹس(ر) سعید حسن ملک اس نسل کی باقی رہ جانے والی چند نشانیوں میں سے تھے جنہوں نے سیاست کو خدمت خلق اور منصبوں کو داد رسی کا ذریعہ سمجھا۔ صاف ستھرے اجلے جمہوریت پسندوں کی یہ نسل گو اب دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے لیکن ہماری تاریخ کے ماتھے کا جھومر رہیں گے۔ یہ فرزانے ابھی چند دن قبل ہی کامریڈ روزی خان وفات پاگئے۔ محنت کش’ سیاسی کارکن روزی خان ہوں یا جسٹس(ر) سعید حسن ملک جمہوریت اور عوام کے حق حکمرانی کے لئے ان کی جدوجہد اور قربانیوں کو بھلایا نہیں جاسکتا۔ چراغ بجھتے جا رہے ہیں۔ کاش کوئی ان فرزانوں کی داستان حیات مرتب کرتا۔
بشکریہ روزنامہ مشرق پشاور
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn