Qalamkar Website Header Image
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

راکھ میں صورتیں تلاش کرتے لوگ

دھڑ سے لائبریری کا دروازہ کھولتے ہوئے فقیر راحموں نے سوال داغا’ شاہ جی! یہ سستا دانشور کیا ہوتا ہے؟
عرض کیا ایک قصہ سن لیجئے۔ 
زرداری صدر تھے صحافیوں اور اینکروں کا ایک قافلہ ان سے ملاقات کے لئے ایوان صدر گیا ایک صاحب مسلسل پندرہ منٹ تک زرداری کو حکومت کرنے کے کیمیائی نسخے سمجھاتے رہے۔ 
وہ چپ ہوئے تو زرداری بولے
” سئیں! آپ کو سیاست بہت آئی ہوئی ہے تو ایک سیاسی جماعت بنائیں الیکشن میں حصہ لیں اور یہاں تک پہنچ کر اپنے شوق اور ایجنڈا پورا کریں۔ میں ایک سیاسی عمل کے ذریعے یہاں تک پہنچا ہوں مجھے معلوم ہے کہ مجھے وزیر اعظم گیلانی اور ہماری حکومت کو کیا کرنا ہے”۔ 
وہ صاحب ناراض ہوگئے اور اب تک ناراض ہیں مگر اپنی سستی دانشوری کے نسخے بہر طور بیچ رہے ہیں۔ خریدار موجود ہو تو راکھ بھی بکتی ہے۔ 
دو کتابیں بغل میں دبائے فقیر راحموں لائبریری سے چلتے بنے۔ 
چند دن ہوتے ہیں جب میرے برادرِ عزیز محمود مہے نے رسان سے سمجھاتے ہوئے کہا سفر حیات کا 61واں سال چل رہا ہے تلخی کچھ کم کریں ہمیں’ وسیب اور پڑھنے والوں کو آپ کی ضرورت ہے۔ 
اس کی بات ختم ہوئی تو جواں مرگ شاعر انجم لاشاری کی ایک شہرہ آفاق نظم بھوک نگر کا ایک بند اسے سنایا۔


”بھوک نگر کا بھوکا لڑکا۔ نازک سی ہڈیوں کے بل پر ۔ اپنی حیثیت سے بڑھ کر ۔ دن بھر سر پر بوجھ اٹھائے۔’ پھر بھی بھوکا ہی رہ جائے”۔ 
محمود کچھ کہنا چاہتا تھا کہ اس کی بات کاٹتے ہوئے نظم کا ایک اور حصہ عرض کیا
” بھوک نگر کے بھوکے باسی۔ اپنا سب کچھ خود کھا جائیں پھر بھی بھوکے ہی رہ جائیں”۔
چھوٹا بھائی ہے اور کچھ نہیں کہہ سکا بس یہ کہہ کر فون بند کرگیا۔ ہماری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔
سچ یہی ہے کہ دعائیں ہی یہاں تک لائی ہیں ورنہ ہم میں کونسا سرخاب کے پر لگے تھے۔ 
رفعت عباس کہتے ہیں
” ہم پہ جو بیتی ہے وہ لفظوں میں سناتے کیا پھریں تم ایک دن ہماری جھمر میں سارے قصہ دیکھ سن سمجھ لینا”۔ 
جو بیت گئی اس پر ملال نہیں جو بیت رہی ہے اس پر شکوہ کیسا۔ زندگی یہی ہے۔ 
تلی داس ہمیشہ یاد دلاتے رہتے ہیں ” مورکھ چوتھائی روٹی سے جیا جا سکتا ہو تو پوری روٹی پیٹ کے دوزخ میں ٹھوسنے کا فائدہ”۔ 
کبھی کبھی بھگت کبیر یاد آجاتے ہیں
” زمانے کی سانجھ سے کٹ کر جینا زندگی سے فرار ہے”۔ زمانے کی سانجھ کیا ہے’ جواب سید ابوالحسن امام علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ الکریم کے اس ارشاد میں ہے
” اپنے حصہ کا سچ وقت پر بولنا واجب ہے”۔

یہ بھی پڑھئے:  فری لانسنگ کا دور


شاہ حسین کہتے ہیں
” کشتی بھنور میں پھنس جائے تو عاجزی کلہاڑے کی طرح لکڑی کو کاٹتی ہے”۔
مرشد کریم سیدی بلھے شاہ فرماتے ہیں 
” لوگ بس ظاہر تو دیکھتے ہیں باطن وہ جانتا ہے یا بلھا”۔ ایک اور موقع پر ارشاد ہوا
” دوئی یکتائی کے لئے کاٹی جاتی ہے۔ تبھی تو اس سے ملاقات ہو پاتی ہے’ لوگ بھی کیا ہیں خود سے ملتے نہیں اور عمر ساری اس کی تلاش میں برباد کرلیتے ہیں”۔ 
خواجہ غلام فرید نے کیا خوب کہا
” تیرے انوار کے صدقے’ میں تو بس ہر سو تجھے ہی دیکھتا ہوں”۔ 
یہ ہر سو اسے ہی دیکھنے کی منزل وہی ہے جہاں پورے وقار سے سولی پہ چڑھتے حسین بن منصور حلاج نے کہا تھا 
” مجھے مارنے والے نہیں جانتے کہ زندگی جینے کا نہیں موجود رہنے کا نام ہے’ میرا نغمہ تو گونجتا رہے گا”۔ 
لاریب حلاج کا نغمہ ہی گونج رہا ہے۔ مارنے والوں کا ذکر کون کرتا ہے۔
شاہ لطیف کے بقول
” زندگی کا نغمہ سولی پر الاپنا ہی زندگی ہے”۔
سب الاپتے ہیں اپنی اپنی زندگی کا نغمہ لیکن سبھی منصور تو نہیں ہوتے۔
رفعت عباس کہتے ہیں
” ہمارے ‘ بیلے اور دریا خریدنے والے یہ نہ بھولیں ہم حاکموں کی تجارت کے حصہ دار نہیں اصلی مالک ہیں”۔

 
ایک دن رفعت عباس یوں بھی کہہ رہے تھے
"فوجیں اگر بیرکوں میں واپس چلی جائیں تو اچھا ہے ہمیں جھمر کے لئے اپنا میدان درکار ہے”۔ 
تحریر یہاں تک آن پہنچی ہے۔ مجھے حافظ شیرازی یاد آنے لگے
” کہتے ہیں دلبروں کے نخرے کون اٹھائے جو خود دلبر کہلائے”۔
یہ دلبری بھی عجیب چیز ہے’ ممتاز حیدر مرحوم کہہ اٹھے ” دل جل کر راکھ ہوا وہ آئے تو اس کی راکھ کو پھر ولنے لگ گئے۔ ممکن ہے تمہاری صورت تلاش کر رہے ہوں”۔
شاہ حسین کہتے ہیں
” عقل کا چراغ روشن کیسے رکھو’ رات جیسی بھی ہو کٹ جائے گی’ سوال کرنے سے بہتر ہے کہ نفس کی سرکشی پر قابو پالو”۔ 
مرشدی بلھے شاہ تو نفس کے سرکش گھوڑے پر کاٹھی ڈالے رہنے کی تلقین کرتے رہے۔ 
کیا عجیب سی بات ہے کہ زندگی کے بازار سے گاہے خریدار خالی واپس پلٹتے ہیں۔ اچھا ایک اور سوال ہے زندگی کے بازار میں اتنی کشش کیوں ہے؟۔
سیدی نفس ذکیہ رضوان اللہ کہتے ہیں
” زندگی کے بازار میں آدمی خود کو کھوہ بیٹھتا ہے سوائے اس کے جو اس حقیقت کو جان لے کہ اس بازار کو بھی ایک وقت بند ہوجانا ہے”۔

یہ بھی پڑھئے:  سسٹم - سخاوت حسین

 
شاہ حسین کے بقول
” خریدار خالی ہاتھ تب جاتا ہے جب بازار میں صرف وعدے فروخت ہوتے ہوں”۔
ارے معاف کیجئے گا 60سال زندگی کے بازار کو دیکھتے بھالتے مولتے تولتے بیت گئے۔ وعدے ہیں تسلیاں’ خوابوں کی تجارت ہے۔ بھلا خوابوں سے پیٹ بھرتا اور وعدوں سے تن ڈھانپا جاسکتاہے؟۔ 
پھر سے یاد یار کی دستک سنائی دے رہی ہے۔
حسین بن منصور حلاج کہتے تھے
” یاد یار سے غافل جو رہا اس نے سب کھو دیا”۔
فقیر راحموں ایک دن سمجھا رہے تھے شاہ جی!” یار کی خوشی میں خوشی اور ملاقات کے سامان کی تیاری ضروری ہے”۔
اس بھلے مانس کو کون سمجھائے کہ شاعر نے کہا تھا
” شام ڈھلتی تو چند تصویریں اتر آتی ہیں دل کو بہلانے کے لئے”۔ 
ان سموں شاہد اقبال یاد آئے۔ وہ کہتے ہیں
شہر کا رستہ پوچھنے والو شہر کاموسم ٹھیک نہیں
اجڑی گلیاں، تپتے آنگن ، دکھ ویرانی تیز ہوا
چار اورکے حالات سے بچ کر کون جیتا ہے۔ موسم ہوں کہ حالات اثر انداز تو ہوتے ہیں۔ ہم بھی دونوں کا اثر محسوس کرتے ہیں لیکن۔ 
سرمدی نغمہ میں جو سرشاری ہے وہ زندگی میں کہاں۔

حالیہ بلاگ پوسٹس