پنجاب میں تبدیلی سرکار کے چھوٹے بڑے اور 42 ترجمانوں کے لشکر جرار کو ایک ہی کام ہے وہ یہ کہ مخالفین پر چاند ماری کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نا جانے دیں ، سچ کہیں تو پنجاب کی حکومت سوشل میڈیا پر جتنی سرگرم اور انصاف کی دیالو ہے اس سے نوے فیصد حقیقت میں ہوتو صوبے میں بہت کچھ بہتر ہوسکتا ہے ، مہنگائی اور دوسرے مسائل تو چلیں سابقہ حکومتوں کے تحفے ہوں گے لیکن دوسرے امور اور بالخصوص امن و امان کے حوالے سے بھی تبدیلی سرکار کی کارکردگی صفر ہے
ہفتہ دس دن قبل صوبائی دارالحکومت سے 38 کلومیٹر پر واقع شیخوپورہ میں شرقپور روڈ پر نامعلوم دہشت گردوں کی فائرنگ سے معروف سماجی شخصیت اور زمیندار چودہری سجاد حیدر ورک جاں بحق ہوگئے ، وہ اپنی گاڑی میں شرقپور روڈ سے شہر کی طرف جارہے تھے ،
مقتول چودہری سجاد حیدر ورک ہمارے عزیز دوست آصف منظور ورک کے بہنوئی تھے ۔ آصف منظور ورک تحریک انصاف کے بانی رکن اور سابق ضلعی جنرل سیکرٹری ہیں ،
یہ وسیع مطالعہ اور متحرک سیاسی کارکن اور خود مقتول کا خاندان پچھلے آٹھ دس دنوں سے ایک سے دوسرے دفتر کا چکر لگاتے جوتیاں چٹخاتے پھر رہے ہیں ، مگر کہیں شنوائی ہوتی ہے نا کوئی ذمہ دار افسر وقوع کے حوالے ہونے والی اب تک کی تفتیش بارے کچھ بتانے پر آمادہ ہوتا ہے
شیخوپورہ پولیس اور دوسرے سرکاری افسران کےلیے لمبی کمائی کے مرکز کی شہرت رکھتا ہے لیکن فی الوقت تو صورت یہ ہے کہ ڈی پی او ہوں یا منظور شُرلی کا خفیہ والا دستہ سبھی پرانی مذہبی و سیاسی دھڑے بندیوں کو مزید ہوا دینے اور چند لے پالکوں کے نخرے اٹھانے میں مصروف ہیں
دوسری طرف عام شہری یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ دہشت گردی کی ایک واردات میں قتل ہوئے چودہری سجاد حیدر ورک کے با اثر خاندان والے ہی اگر سرکاری دفاتر کے دھکے کھاتے پھر رہے ہیں تو عام شہری کی داد رسی کون کرے گا ، شہریوں کا اس طور سوچنا کچھ غلط بھی نہیں مقتول کے برادر نسبتی آصف منظور ورک تحریک انصاف کے با اثر رہنماوں میں شمار ہوتے ہیں تو سگے بھائی ایک اہم ریاستی ادارے میں فرائض ادا کررہے ہیں ، ایک ہفتہ سے زیادہ وقت گزر جانے کے باوجود مقامی پولیس کی تفتیش پہلے قدم پر رکی ہوئی ہے وہی فرسودہ سوال ” مرنے والے کی کسی سے کوئی دشمنی تھی ، کبھی یا حال ہی میں کسی نے کوئی دھمکی دی ”
مقتول کے لواحقین کی متعدد درخواستوں کے باوجود آج تک کوئی مشترکہ انویسٹی گیشن ٹیم نہیں بن سکی اس پر ستم یہ ہے کہ جس جماعت کو آصف منظور ورک نے اپنی جوانی کے بیس سال دیے اس جماعت کے کسی ذمہ دار رہنماء یا حکومتی شخصیت نے اس اندھے قتل کی تفتیش کے لیے کوئی خصوصی تحقیقاتی ٹیم بنوانے میں دلچسپی نہیں لی ۔ رہی مقامی پولیس تو وہ دیہاڑی داری کرے یا ذمہ داریاں ادا کرنے پر توجہ دے
غور طلب بات یہ ہے کہ جو حکومت اپنی ہی جماعت کے سرگرم بانی رہنماہ کے خاندان کو انصاف نہیں دلا سکتی وہ 63 فیصد آبادی والے صوبہ میں خاک کارکردگی دیکھاپائے گی ۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn