Qalamkar Website Header Image

شہید سرمد ؒ – حیدر جاوید سید

درباری مفتی فتوی صادر کر چکے،زنجیروں میں جکڑے سرمد کو شاہی ہرکارے مقتل کی طرف لے جا رہے تھے ۔ شاہ جہان آباد (دہلی) میں ہر طرف آدم ہی آدم تھا۔قدم قدم مقتل کی طرف بڑھتے ہوئے سرمد نے شان بے نیازی سے کہا .
مکتب عشق میں وہ کب داخل ہو پائے جنہوں نے ذات کو ہی کائنات سمجھا
سپاہیوں میں سے ایک نے کہا ۔بزرگ ، کیوں جان گنوانے کہ درپے ہو ؟
مست والست نے نگاہ بھر کر دیکھا اور کہا ’’تم نہیں سمجھو گے میں نے اسے خرید لیا جو میرا گاہک تھا ۔اب خرید ار کی مرضی رکھے یا لے جائے‘‘ عشق کے مذہب میں کینہ و عداوت سے بڑھ کوئی چیز حرام نہیں ۔یہاں سب سے بڑی عبادت یہ ہے کہ قاتل تیغ لیکر آئے تو سر جھکادیجیے اور ہو سکے تو اس کہ ہاتھوں پر بوسہ دیجیے۔ان سموں فقیر راحموں گویا ہوئے ’’عاشق بد دعا دیتے ہیں نہ انتقام کی وصیت کرتے ہیں‘‘۔ سچ یہی ہے حلاج ہو یا سرمد یا اس راہ عشق کے دوسرے مسافر سبھی نے قاتل کو نامہ بر سمجھا اور تلواردھار پر لہو سے خط تحریر کیا ۔18 ربیع السانی1080 ہجری کو سرمد اپنی گردن قاتل کی تلوار کہ نیچے رکھتے ہوئے گویا ہوئے ۔زمانہ نہیں سمجھا تو کیا ؟ زمانے سمجھ لیں گئے ،بھید آشکار ہو نے کے لئے ہوتے ہیں ، اس راستہ پر گردن کٹنا لازم ہے ، اس کے بناملاقات دوست ممکن نہیں ‘‘۔سرمد کے وطن بارے تقریباََ سبھی محققین متفق ہیں کہ وہ ایرانی النسل تھے،البتہ ان کے آباؤاجدادکے مذہب بارے متحدہ ہندوستان کے محققین کا ایک بڑا حصہ یہ لکھتا ہے کہ وہ یہودی تھے۔فیض عالم دکنی اور مولانا ابوالکلام آزاد نے مجوسی لکھا۔خود ایران میں علی اصغر زادے(1825-1901) نے یکسر نئی بات کی ۔ علی اصغر زادے کے بقول سرمد کے دادا زرتشت عالم تھے لیکن والد اور والدہ نے اسلام قبول کر لیا تھا ۔ملا ممد اللہ قاچانی(وفات 1931 )البتہ علی اصغر زادے سے متفق نہیں ،انہوں نے 16 برس کی عمر میں اپنی والدہ کی تحریک پر اسلام قبول کیا ۔اس وقت ان کے والد وفات پا چکے تھے اور والدہ نے سرمد سے 3 برس قبل اسلام قبول کر لیا تھا ۔ ملا ممد اللہ قاچانی کے بقول سرمد قبول اسلام کے بعد لگ بھگ تین سے پانچ برس تک ملا اکبرالمائدی کے مکتب میں شریک درس رہے۔المائدی چونکہ وحدت الوجود کے پرچارک تھے سو لازم ہے کہ سرمد اپنے اولین استاد کے رنگ میں رنگے گئے ہوں ۔
برصغیر (متحدہ ہندوستان) میں سرمد کی آمد کیسے ہوئی ، لیکن مولوی فیض عالم دکنی کہتے ہیں سرمد علوم کی سرزمین پر مزید علم حاصل کرنے کے لئے آئے اور کچھ ہی عرصہ میں اس مقام(مقام شہادت) کو پاگئے جس کی تمنا ہر صاحب وجود کو بے چین رکھتی ہے۔ متحدہ ہندوستان میں برادر کشی کے کے باوا آدم اورنگزیب عالمگیر کے عہد اور بعد میں لکھے گئے تذکروں میں سرمد بارے محض چند سطریں ہی ہیں۔ کیا تذکرہ نگار ان تعصب سے ’’گھٹ‘‘ تھے یا پھر مقام سرمد شہید سے نا واقف ؟سا دہ جواب یہ ہے کہ شخصیت پرستی (بادشاہ پرستی)کے غلام آقا کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لیتے ۔ مسلم معاشرے کا ابتداء ہی سے یہ المیہ رہا ہے کہ تذکرہ نگاران اور عام لوگوں کی اکثر یت حاکمان وقت کے مزاج کے ساتھ پسند ونا پسند کو باندھے رکھتے تھے۔ یہ مرض نسل در نسل منتقل ہوا۔حیات سرمد بارے ابتدائی کام مرزا محمد کاظم نے کیا مگر تفصیل کے ساتھ سرمد شناسی کی سعادت نواب عنایت اللہ خان کے حصے میں ٓئی۔ البتہ نوخیز لڑکوں کی محبت کے رسیا نواب عنایت اللہ خان بھی سرمد شناسی میں مغالطہ کھا گئے۔ لکھ دیا کہ ’’دوسرے ایرانی سیاحوں کی طرح سرمد بھی سندھ سے ہو کر ہندوستان پہنچے اور سندھ کا مشہور شہر ٹھٹھہ ہی وہ مقام ہے جہاں سرمد ایک ہندو لڑکے پر عاشق ہوئے‘‘۔ عجیب بات ہے حوروں کے حسن کو خاطر میں نہ لانے والے سرمد کو انہوں نے اپنے جیسا خیال کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ اپنے شوق کو سرمد کے سر منڈھ کر نواب عنایت اللہ خان نے اپنے شوق کے جائز ہونے کی سند خود لکھ لی۔ وہ اس حقیقت کو فراموش کر بیٹھے کہ ہندوستان میں سرمد کے تین دوست بنے اور تینوں ہی معروف اشخاص تھے۔ حضرت میاں میرؒ (مدفون لاہور) حضرت موسیٰ پاک شہید ؒ (مدفون ملتان) اور شہزادہ داراشکوہ۔ ان تینوں صاحبانِ علم و فکر کے تذکرہ نگاروں میں سے کسی نے ان میں ہم جنسوں سے عشق کو محسوس کیا اور نہ لکھا۔ کیسے ممکن ہے کہ سرمد کے ان تینوں دوستوں (بلکہ ان میں سے ایک داراشکوہ تو خود کو مرید کہنے پر فخر محسوس کرتا تھا) میں سے کسی کو سرمد کے ٹھٹھہ والے عشق کی بھنک نہ پڑی ہو؟ سو بہت ادب کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ سرمد شہید کے تذکرہ نگاروں نے مفتیان دین مبین اور درباری ملاؤں کی سرمد سے نفرت کو بھانپتے ہندو لڑکے کے عشق والی کہانی گھڑی۔’’عمر گرامی سے ہم کیا حاصل کر پائے، گایے یہی دل بے قرار سے پوچھتے رہتے ہیں۔ رنج و الم کے باوجود میں اس کی راہ سے نہیں ہٹا۔ ہمیں تو ساقی و مے سے محبت ہے۔ کیوں نہ ہو مے خانے ہمارے دم سے آباد ہیں۔ میں نفس سے جنگ میں لذت محسوس کرتا ہوں‘‘۔ یہ سرمد شہید ہی تھے جن کے احترام میں حضرت میاں میرؒ نہ صرف اپنی خانقاہ سے باہر نکلتے تھے بلکہ سینکڑوں مریدوں کے ہمراہ چند میل کی مسافت طے کر کے دوست کے خیرمقدم کو پہنچتے۔ دوست بھی ایسا جو باآوازِ بلند کہہ رہا تھا ’’ہمارا دل تو پابندِ غم الفت دلدار ہے۔ ہر کس اپنا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتا ہے۔ دنیا مجھے مکڑی کے جالے میں پھنسانے کی سعی کرتی ہے مگر میں تو اس کے دیدار کے شوق میں جل رہا ہوں۔ وہ جہاں لے جائے فیصلہ اس کو کرنا ہے‘‘۔ یا پھر یہ کہ ’’دنیاپرستوں سے مل کر شاد نہ ہو اگر یہ تو غافلوں کا ٹولہ ہے۔ ان کی صحبت راہ کھوٹی کرتی ہے، فریب کھانے کے بجائے چلتے رہنا زیادہ بہتر ہے‘‘۔ سرمد کا قصور فقط اتنا تھا کہ انہوں نے بھید کھولا اور وہ بھی کم ظرفوں کے درمیان۔ بھلا درباری ملااور صدقے خور مخلوق کیا جانے عشق کیا ہوتا ہے۔ روٹیوں پر جھپٹنے والوں کے لئے تو نفس پرستی ہی کامل عشق ہے ۔ اور سرمد، وہ تو حلاجی تھے پکے حلاجی۔ نیلا آسمان اپنے نیچے زمین پر ایک نئے اور پرجوش حسین بن منصور حلاج کو دیکھ رہا تھا۔ سرمد ، منصور ثانی تھے۔ اسی راہ کے مسافر۔ دوسرے بہت سارے غلط الزامات کی طرح ان پر ایک الزام یہ بھی تھا کہ انہوں نے لوگوں کو داراشکوہ کے حق اور اورنگزیب کی مخالفت میں اکسایا۔ واہ کیسی بات ہے۔ اورنگزیب بھائیوں کی لاشوں پر تاج پوشی کر کے بھی خادمِ اسلام اور سرمد کلمۂ حق بلند کر کے بھی سزاوار۔ بادشاہ کانوں کے کچے اور تخت کے معاملے میں کتنے حریص ہوتے ہیں۔کبھی سامت کو سولی چڑھاتے ہیں، کبھی حلاج کو اور کبھی سرمد کی گردن مارنے کا حکم جاری کرتے ہیں لیکن ان بادشاہوں سے زیادہ حریص اور عجیب ملاؤں کی مخلوق ہے جو فقط پیٹ کی آنکھ سے دیکھتی ہے اور نفسِ امارہ کے گھوڑے پر سواری کو حاصلِ زندگی سمجھتی ہے۔
18 ربیع الاول 1070 ہجری کو جب زنجیروں میں جکڑے سرمد کو شہادت گاہ کی طرف لے جایا جا رہا تھا تو شوقِ دیدار میں سارا شہد امنڈ آیا۔ شوقِ دیدار کو یا پھر شاہ سے وفاداری کے اظہار کو؟ مگر اس ہجوم میں سینکڑوں ایسے بھی تھے جو منہ لپیٹ کر کہہ رہے تھے’’جاہل ملاں علم کا خون بہانے پر تل گئے ہیں‘‘۔ سرمد کا خون بہا مگر اس سے پہلے انہوں نے ایک شانِ بے نیازی سے بہ تکرار کہا ’’معلوم ہے ہر جگہ ہر بات کے لئے نہیں ہوتی۔ مجھ میں دلدار کے دیدار کے لئے اور انتظار کی تاب نہیں۔ یہ جس کو کفر جان رہے ہیں وہ تو ملاقات کے انتظام کا بہانہ تھا‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ جب جلاد نے ان (سرمد) سے دریافت کیا موت کا خوف تو نہیں ؟ وہ جھوم کر بولے ’’یہ تو ملاقات کا انتظام ہے خوف کیسا‘‘؟ کہتے ہیں جلاد نے بزرگی پر ترس کھاتے ہوئے کہا ’’بادشاہ رحم دل ہے، معافی مانگ لو‘‘۔ سرمد نے قتل گاہ کے اوپر آسمان کو بغور دیکھتے ہوئے کہا ’’بادشاہ ہی تو رحم دل ہے آدمی جانوروں سے بدتر‘‘۔ عشق جس ایثار کا طلب گار ہوتا ہے سرمد اس دولت سے مالا مال تھے۔ راہِ عشق میں ان کے قدم کسی بھی مرحلے پر لڑکھڑائے ہرگز نہیں بلکہ وہ ثابت قدمی سے قدم بہ قدم منزلیں طے کرتے ہوئے بالآخر اس منزل پر آن پہنچے جس کے لئے انہوں نے ایک لمبا سفر کیا تھا۔ کہاں کاشان اور کہاں دہلی۔ سرمد اپنے ہی شعر کی کامل تفسیر بن گئے۔’’ یار کے کوچہ میں سرہتھیلی پر قدم قدم چلنے میں جو سرشاری ہے وہ تاج و تخت میں کہاں۔ عاشق محبوب کو پانے کے لئے اپنی قربانی دیتے ہیں‘‘۔ گو سرمد دربار اور ملا کی ملی بھگت سے شہادت چکھنے والے پہلے شخص نہیں لیکن سچ یہ ہے کہ وہ عاشقوں کی آبرو ہیں اور رہیں گے۔ یہ سرمد ہی تھے جنہوں نے ایک موقع پر کہا تھا ’’یار نے ملاقات کے لئے جو مقام پسند کیا ہے وہ مجھے معلوم ہے یا یار کو‘‘۔ سرمد کہا کرتے تھے’’ زندہ رہنے کے لئے مرنا ایک سودا ہے جو دو دوستوں کے درمیان طے پاتا ہے۔ دنیا کی محبت میں گرفتار کج فہم کیا سمجھیں گے‘‘۔ عہد عالمگیری کے اس مقتول کا جرم وہی تھا جو منصور سے سرزد ہوا تھا۔ حلاج کی طرح فکری استقامت کے مظاہرے نے ان کو اس بلندی پر لے جا کھڑا کیا جہاں دیکھنے کے لئے اورنگزیب عالمگیر کے سر سے تاج گر جاتا

حالیہ بلاگ پوسٹس