سیاست وصحافت کے ہم ایسے طلباء کیلئے یہ انکشاف بہت اہم ہے کہ 18ویں ترمیم نے وفاق کا دیوالیہ کردیا ہے مگر اس سے بھی زیادہ اہم ہمارے ایک نوانصافی دانشور کا یہ ارشاد ہے ’’این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے رقم تو ساری صوبے لے جاتے ہیں اور قرضے وفاق اتارتا ہے‘‘۔
یقین کیجئے اس ارشاد گرامی کو پڑھ کر اتوار کا دن بستر میں کتابیں پڑھنے‘ سونے اور سوشل میڈیا پر جہاد کے سوا ہم نے کچھ نہیں کیا۔ فقیر راحموں سے درخواست کی ہے کہ وہ ہمیں کسی ایسے دانش سکول میں داخل کروا دیں جہاں نوانصافی تعلیم ملتی ہو۔ لیکن معاملہ اسی پر رک نہیں گیا سوموار کے روز ایک بلند پایہ دانشور نے سیاسی تاریخ کو ستر لاکھ بیاسی ہزار چار سو بیسویں مرتبہ جوتے مارتے ہوئے پرانی پھکی بیچنے کی سعادت حاصل کی کہ ذوالفقار علی بھٹو پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خان کے ذریعے سیاست میں آئے تھے۔
کیسے کیسے نابغے اس ملک کی قسمت میں لکھے اُتارے گئے۔ بھٹو صاحب کی سءاست‘ فہم اور طرزحکومت سے اختلاف کا ہر کس وناکس کو حق ہے وہ آسمانی اوتار تھے ولی نہ امام‘ سیاستدان تھے اور صاحب علم سیاستدانوں کے چندے آفتاب بھی۔ انسان تھے سو ان سے کچھ غلطیاں ضرور سرزد ہوئیں لیکن خوبیاں بھی تھیں۔ اب محض ان سے خاندانی نفرت میں تاریخ کو مسخ کرنا دانشوری نہیں ’’دانشوڑی‘‘ ہے۔ بھٹو صاحب‘ سکندر مرزا کے دوراقتدار میں عملی سیاست میں آئے پہلی بار سکندر مرزا کی کابینہ میں ہی وفاقی وزیر سائنس وٹیکنالوجی اور تجارت بنے۔ جنرل ایوب اس کابینہ میں وزیردفاع تھے۔ تاریخ وسیاست کے طلباء ایوب خان کی کابینہ میں ان کی شمولیت پر اعتراض کرسکتے ہیں اصولی طور پر یہ درست بھی ہوگا۔ مگر یہ کہنا لکھنا کہ انہوں نے آگے چل کر پیپلز پارٹی بھی کسی ریاستی ایجنڈے کے تحت قائم کی صریحاً غلط ہے۔
ایسا ہوا ہوتا تو جناب جنرل یحییٰ خان کی فوجی حکومت کے وزیراطلاعات میجر جنرل شیر علی خان پٹودی 1970ء کے انتخابی عمل کے دوران متحدہ پاکستان کے 27علماء سے بھٹو اور پیپلز پارٹی کیخلاف فتویٰ نہ لاتے۔ معروف ترقی پسند دانشور سید علی جعفر زیدی کی کتاب "باہر جنگل اندر آگ” میں اس فتوے کی تفصیل کیساتھ انتخابی عمل میں تعاون پر امریکہ کو شکر گزاری سے بھرا خط ازطرف میاں طفیل محمد کے حوالے بھی موجود ہیں۔
جب کبھی پچھلے ساٹھ ستر سال کی تاریخ کی دیدہ دلیری کیساتھ ٹھکائی ہوتے دیکھتا ہوں تو ایک طالب علم کے طور پر سوچنے لگتا ہوں کہ مسلمانوں کی باقی تاریخ میں سچ کتنا ملاوٹ کتنی اور دروغ گوئی کتنی ہوگی۔
ہمارے وہ دوست جو 18ویں ترمیم کو وفاق کے دیوالیہ ہوجانے کی وجہ سمجھ کر کل سے بھنگڑے ڈال رہے ہیں کسی دن موقع ملے تو اسے لفظ بہ لفظ غور سے پڑھ لیں۔ ثانیاً یہ امر بھی بہت اہم ہے کہ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی ابھی مزید کرنا ہوگی بہت ساری خرابیاں دور کرنا ہوں گی وفاق اورصوبوں کے درمیان بڑھتی ہوئی بداعتمادی کا علاج دریافت کرنا ہوگا جو لوگ ون یونٹ کی طرف واپسی کا سفر چاہتے ہیں وہ ون یونٹ کے خاتمے کیلئے متحدہ پاکستان کے زمین زادوں کی تاریخ سے آگاہ نہیں۔
یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ کثیرالقومی فیڈریشن کو بتدریج قومیتوں کی فیڈریشن میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ظاہر ہے اس کیلئے آئین میں ترامیم کرنا ہوں گی۔ بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی کیلئے ہی ہم سے طلباء یہ کہتے آرہے ہیں کہ نئی دستور ساز اسمبلی کاچناؤ ناگزیر ہوتا جا رہا ہے۔ قومیتی حقوق اور فیڈریشن کی بات فیشنی نعرہ یا خود پرستی سے عبارت نظریہ ہرگز نہیں۔ مسائل گمبھیر ہیں ان سے آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں۔
اس کالم کے قارئین بخوبی واقف ہیں کہ پچھلے سات آٹھ ماہ سے مسلسل یہ عرض کرتا آرہا ہوں کہ موجودہ قیادت کو لانے والوں کا مقصد 18ویں ترمیم سے نجات کے سوا کچھ نہیں گو ابھی قانون سازی بالخصوص آئینی ترمیم کیلئے مطلوبہ اکثریت موجود نہیں پھر بھی جس انداز سے لوگوں کی ذہن سازی کی جارہی ہے اس پر تحفظات موجود ہیں۔
اندریں حالات یہ عرض کرنے میں کوئی امرمانع نہیں کہ وقت آگے بڑھتا ہے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق قانون سازی ہوتی ہے۔ پاکستان کو 1960ء کی دہائی میں واپس لے جانے کی کوششیں خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں اس لئے مناسب ہوگا کہ کسی بھی ایڈونچر سے پرہیز کیا جائے۔
ہم آگے بڑھتے ہیں اتوار اور سوموار کی درمیانی شب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافہ کر دیا گیا ہے۔ پٹرول 6روپے‘ ڈیزل 6روپے اور مٹی کا تیل 3روپے لیٹر مہنگا ہوا۔ چند دن پہلے اوگرا نے پٹرول 12روپے مہنگا کرنے کی تجویز دی تھی کہا گیا تھا کہ ڈالر مہنگا ہونے سے جو بوجھ پڑا ہے اس کا حل یہی ہے۔
پچھلے ادوار میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ٹی وی چینلوں پر چالیس روپے لیٹر پٹرول فروخت کرنے والے عظیم ماہر اقتصادیات اسد عمر ( موصوف آجکل وزیرخزانہ لگے ہوئے ہیں ) اللہ جانے ان دنوں اپنے حساب کتاب اور کیلکولیٹر سمیت کہاں ہیں ۔ کیونکہ اب وہ عوام کو یہ نہیں بتاتے کہ 99 روپے فی لیٹر پٹرول میں حکومت کا خالص منافع کتنا ہے اور پٹرولیم کمپنیوں کا کتنا
چلتے چلتے دوخبروں پر مختصر بات پہلی خبر یہ ہے کہ آسٹریلیا نے پانچ ون ڈے میچز کی سیریز جیت کر پاکستان کو وائٹ واش کردیا کھیل کے میدان میں ہار جیت کھیل کا حصہ ہے لیکن اس طرح کی سُبکی بھری شکست پر ٹھنڈے دل سے سوچا جانا چاہیے ازسرنو حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے
دوسری خبر یہ ہے کہ وزیراعظم نے سندھ میں اپنے اتحادیوں ( جی ڈی اے ) کی فرمائش پر بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام تبدیل کرنے کا وعدہ کرلیا ۔ دودن سے بلند پایہ دانشور اور نقاد بھاگ لگے رین کی صدائیں بلند کررہے ہیں کوئی یہ سوچنے کی زحمت نہیں کررہا کے باقاعدہ قانون سازی سے قائم ہوئے ایک ادارے کا نام سندھ کی سیاست کے شکست خوردہ کرداروں ان میں بدقسمتی سے ایک وفاقی وزیر بھی شامل ہیں کی فرمائش پر ادارے کا نام کیسے تبدیل ہوگا کیا حکومت کے پاس قانون سازی کےلیے مطلوبہ تعداد موجود ہے ؟
ثانیاً یہ کے اگر کارکردگی کے حوالے سے شکایات ہیں تو بہتری لانا حکومت کی ذمہ داری ہے زیادہ مناسب یہی ہے کہ نفرتوں کا چورن نہ بیچا جائے تاکہ مسائل نہ پیدا ہوں
رقم تو ساری صوبے لے جاتے ہیں اور قرضے وفاق اتارتا ہے‘‘۔
یقین کیجئے اس ارشاد گرامی کو پڑھ کر اتوار کا دن بستر میں کتابیں پڑھنے‘ سونے اور سوشل میڈیا پر جہاد کے سوا ہم نے کچھ نہیں کیا۔ فقیر راحموں سے درخواست کی ہے کہ وہ ہمیں کسی ایسے دانش سکول میں داخل کروا دیں جہاں نوانصافی تعلیم ملتی ہو۔ لیکن معاملہ اسی پر رک نہیں گیا سوموار کے روز ایک بلند پایہ دانشور نے سیاسی تاریخ کو ستر لاکھ بیاسی ہزار چار سو بیسویں مرتبہ جوتے مارتے ہوئے پرانی پھکی بیچنے کی سعادت حاصل کی کہ ذوالفقار علی بھٹو پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خان کے ذریعے سیاست میں آئے تھے۔
کیسے کیسے نابغے اس ملک کی قسمت میں لکھے اُتارے گئے۔ بھٹو صاحب کی سءاست‘ فہم اور طرزحکومت سے اختلاف کا ہر کس وناکس کو حق ہے وہ آسمانی اوتار تھے ولی نہ امام‘ سیاستدان تھے اور صاحب علم سیاستدانوں کے چندے آفتاب بھی۔ انسان تھے سو ان سے کچھ غلطیاں ضرور سرزد ہوئیں لیکن خوبیاں بھی تھیں۔ اب محض ان سے خاندانی نفرت میں تاریخ کو مسخ کرنا دانشوری نہیں ’’دانشوڑی‘‘ ہے۔ بھٹو صاحب‘ سکندر مرزا کے دوراقتدار میں عملی سیاست میں آئے پہلی بار سکندر مرزا کی کابینہ میں ہی وفاقی وزیر سائنس وٹیکنالوجی اور تجارت بنے۔ جنرل ایوب اس کابینہ میں وزیردفاع تھے۔ تاریخ وسیاست کے طلباء ایوب خان کی کابینہ میں ان کی شمولیت پر اعتراض کرسکتے ہیں اصولی طور پر یہ درست بھی ہوگا۔ مگر یہ کہنا لکھنا کہ انہوں نے آگے چل کر پیپلز پارٹی بھی کسی ریاستی ایجنڈے کے تحت قائم کی صریحاً غلط ہے۔
ایسا ہوا ہوتا تو جناب جنرل یحییٰ خان کی فوجی حکومت کے وزیراطلاعات میجر جنرل شیر علی خان پٹودی 1970ء کے انتخابی عمل کے دوران متحدہ پاکستان کے 27علماء سے بھٹو اور پیپلز پارٹی کیخلاف فتویٰ نہ لاتے۔ معروف ترقی پسند دانشور سید علی جعفر زیدی کی کتاب "باہر جنگل اندر آگ” میں اس فتوے کی تفصیل کیساتھ انتخابی عمل میں تعاون پر امریکہ کو شکر گزاری سے بھرا خط ازطرف میاں طفیل محمد کے حوالے بھی موجود ہیں۔
جب کبھی پچھلے ساٹھ ستر سال کی تاریخ کی دیدہ دلیری کیساتھ ٹھکائی ہوتے دیکھتا ہوں تو ایک طالب علم کے طور پر سوچنے لگتا ہوں کہ مسلمانوں کی باقی تاریخ میں سچ کتنا ملاوٹ کتنی اور دروغ گوئی کتنی ہوگی۔
ہمارے وہ دوست جو 18ویں ترمیم کو وفاق کے دیوالیہ ہوجانے کی وجہ سمجھ کر کل سے بھنگڑے ڈال رہے ہیں کسی دن موقع ملے تو اسے لفظ بہ لفظ غور سے پڑھ لیں۔ ثانیاً یہ امر بھی بہت اہم ہے کہ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی ابھی مزید کرنا ہوگی بہت ساری خرابیاں دور کرنا ہوں گی وفاق اورصوبوں کے درمیان بڑھتی ہوئی بداعتمادی کا علاج دریافت کرنا ہوگا جو لوگ ون یونٹ کی طرف واپسی کا سفر چاہتے ہیں وہ ون یونٹ کے خاتمے کیلئے متحدہ پاکستان کے زمین زادوں کی تاریخ سے آگاہ نہیں۔
یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ کثیرالقومی فیڈریشن کو بتدریج قومیتوں کی فیڈریشن میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ظاہر ہے اس کیلئے آئین میں ترامیم کرنا ہوں گی۔ بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی کیلئے ہی ہم سے طلباء یہ کہتے آرہے ہیں کہ نئی دستور ساز اسمبلی کاچناؤ ناگزیر ہوتا جا رہا ہے۔ قومیتی حقوق اور فیڈریشن کی بات فیشنی نعرہ یا خود پرستی سے عبارت نظریہ ہرگز نہیں۔ مسائل گمبھیر ہیں ان سے آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں۔
اس کالم کے قارئین بخوبی واقف ہیں کہ پچھلے سات آٹھ ماہ سے مسلسل یہ عرض کرتا آرہا ہوں کہ موجودہ قیادت کو لانے والوں کا مقصد 18ویں ترمیم سے نجات کے سوا کچھ نہیں گو ابھی قانون سازی بالخصوص آئینی ترمیم کیلئے مطلوبہ اکثریت موجود نہیں پھر بھی جس انداز سے لوگوں کی ذہن سازی کی جارہی ہے اس پر تحفظات موجود ہیں۔
اندریں حالات یہ عرض کرنے میں کوئی امرمانع نہیں کہ وقت آگے بڑھتا ہے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق قانون سازی ہوتی ہے۔ پاکستان کو 1960ء کی دہائی میں واپس لے جانے کی کوششیں خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں اس لئے مناسب ہوگا کہ کسی بھی ایڈونچر سے پرہیز کیا جائے۔
ہم آگے بڑھتے ہیں اتوار اور سوموار کی درمیانی شب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافہ کر دیا گیا ہے۔ پٹرول 6روپے‘ ڈیزل 6روپے اور مٹی کا تیل 3روپے لیٹر مہنگا ہوا۔ چند دن پہلے اوگرا نے پٹرول 12روپے مہنگا کرنے کی تجویز دی تھی کہا گیا تھا کہ ڈالر مہنگا ہونے سے جو بوجھ پڑا ہے اس کا حل یہی ہے۔
پچھلے ادوار میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ٹی وی چینلوں پر چالیس روپے لیٹر پٹرول فروخت کرنے والے عظیم ماہر اقتصادیات اسد عمر ( موصوف آجکل وزیرخزانہ لگے ہوئے ہیں ) اللہ جانے ان دنوں اپنے حساب کتاب اور کیلکولیٹر سمیت کہاں ہیں ۔ کیونکہ اب وہ عوام کو یہ نہیں بتاتے کہ 99 روپے فی لیٹر پٹرول میں حکومت کا خالص منافع کتنا ہے اور پٹرولیم کمپنیوں کا کتنا
چلتے چلتے دوخبروں پر مختصر بات پہلی خبر یہ ہے کہ آسٹریلیا نے پانچ ون ڈے میچز کی سیریز جیت کر پاکستان کو وائٹ واش کردیا کھیل کے میدان میں ہار جیت کھیل کا حصہ ہے لیکن اس طرح کی سُبکی بھری شکست پر ٹھنڈے دل سے سوچا جانا چاہیے ازسرنو حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے
دوسری خبر یہ ہے کہ وزیراعظم نے سندھ میں اپنے اتحادیوں ( جی ڈی اے ) کی فرمائش پر بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام تبدیل کرنے کا وعدہ کرلیا ۔ دودن سے بلند پایہ دانشور اور نقاد بھاگ لگے رین کی صدائیں بلند کررہے ہیں کوئی یہ سوچنے کی زحمت نہیں کررہا کے باقاعدہ قانون سازی سے قائم ہوئے ایک ادارے کا نام سندھ کی سیاست کے شکست خوردہ کرداروں ان میں بدقسمتی سے ایک وفاقی وزیر بھی شامل ہیں کی فرمائش پر ادارے کا نام کیسے تبدیل ہوگا کیا حکومت کے پاس قانون سازی کےلیے مطلوبہ تعداد موجود ہے ؟
ثانیاً یہ کے اگر کارکردگی کے حوالے سے شکایات ہیں تو بہتری لانا حکومت کی ذمہ داری ہے زیادہ مناسب یہی ہے کہ نفرتوں کا چورن نہ بیچا جائے تاکہ مسائل نہ پیدا ہوں
روز نامہ مشرق پشاور
2 اپریل 2019ء
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn