مردم بیزاری کبھی مرغوب نہیں رہی پھر بھی پچھلی پانچ دہائیوں کے دوران درجنوں بار (کم از کم ایک صد بار تو ضرور) ایسا ہوا کہ سورج کی سنہری کرنوں کا استقبال دریا کنارے کی ٹھنڈی ریت پر آڑھی ترچھی لکیریں بناتے ہوئے کیا۔ سندھو (سندھ) چناں (چناب)، ستلج، راوی کنارے کہیں بھی مل جائیں گھنٹوں گزرتے ہیں۔ دریائے سندھ (میں اسے ہمیشہ سندھو دریا یا سندھو ندی لکھتا ہوں۔ شائد سچل، شاہ اور سامی کا اثر ہے) کے کنارے کے دو مقام بہت پسند ہیں۔ اولاََ ڈیرہ اسماعیل خان اور ثانیاََ سکھر کے مقام پر۔ 1970ءاور 1980ءکی دہائیوں میں کئی برس ایسے بھی گزرے جب چودھویں کے چاند کا لبھاتا ہوا منظر دیکھنے کے لیے ہر ماہ یا پھر ایک آدھ ماہ کے وقفہ سے لمبی مسافت بھگت کر ڈیرہ اسماعیل خان میں سندھو کنارے حاضری دی۔ ان سالوں میں ابھی دریا میں پانی تھا سو دریا کا پاٹ دور نظر سے آگے ہوتا۔ چودھویں کی رات تو ایسا لگتا جیسے چاند سندھو ندی کے اندر سے ابھرتا ہوا آسمان پر رونق افروز ہونے کے سفر میں ہے۔ دریاؤں کے باقی کنارے ابھرتے سورج کے وقت جو منظر باندھتے ہیں وہ انسان کو اپنے حصار میں لے لیتا ہے۔
اب بھی کبھی کبھی جی چاہتا ہے سندھو یا چناں کنارے کہیں چھوٹی سی کٹیا ڈال کر بونس کے باقی ماہ و سال بیتائے جائیں۔ لیکن پیٹ کا دوزخ اور دوسری ضرورتیں راستہ روکتی ہیں۔ آدمی بھی کیا چیز ہے ۔ کوئی خواہشوں کی تکمیل کے لیے ہم جنسوں کو روندتے ہوئے بڑھتا چلا جاتا ہے اور کسی کو خواہشیں روند دیتی ہیں۔ چناں کنارے کی کسی ایک صبح میں فقیر راحموں نے مجھ سے کہا تھا ”زندگی کو دان کرنے کے لیے کچھ نہ ہو تو ذات کی حد میں رہنا چاہیے“۔ اس سے بہتر کون جانتا ہے کہ ساڑھے پانچ دہائیاں ذات کی حد میں رہتے ہوئے ہی بسر ہوئی ہیں۔ تجاوز کی خواہش کا روگ پالنے کا سودا کبھی سر میں نہیں سمایا۔ ایک لمبے وقفے کے بعد پچھلی صبح (ان سطور کے لکھے جانے سے ) چناں (دیائے چناب) کنارے افق سے ابھرتے سورج کی سنہری کرنوں کا خیر مقدم ریت پر آڑھی ترچھی لکیریں بنا کر کیا۔ برسوں کی یادیں تازہ کیں۔ خوب باتیں ہوئیں۔ ڈھیر سارے بھولے بسرے قصے یاد آئے۔ اب تک کے سفر میں بچھڑے دوستوں کو ایک ایک کر کے یاد کیا۔ یادوں کے چراغ جلے تو اندر کا اندھیرا چھٹنے لگا۔ عین ان سموں فقیر راحموں نے کہا ”جہل کے اندھیرے سے بچ کر رہنا لازم ہے ۔ یہ کمبل ہو جائے تو ایک آدھ آدمی کیا پورا عہد کھا جاتا ہے۔“
دریا کا کنارا ہو، نرم ٹھنڈی ریت، ابھرتا ہوا سورج نئے منظر بن رہا ہو تو یہ کیسے ممکن ہے فقیر راحموں چپ رہے۔ پچھلی صبح بھی وہ خوب بولا اور یادوں کی پھوار بھی خوب برسی۔ جل تھل ہو گیا اندر کا ماحول۔ شیخ سعدی ؒ بہت یاد آئے۔ مالک کون و مکاں کے حضور عرض کرتے ہوئے شیخ سعدی ؒ ۔ ”میرے کریم میری کوتاہیوں اور کج رویوں کا دفتر کھولنے کے بجائے اپنی رحمت کی بارش کر۔ خاک کے پتلے نے تو زیاں کرنا ہی ہے پر مالک یہ سب تیرے عفو وکرم کے یقین پر ہوا“۔ فقیر راحموں گویا ہوا ”طلب دنیا سے بندھی زندگی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین لیتی ہے۔ آدمی ادھوری خواہشوں کا بار اٹھائے فریب کھاتا ہے۔“ عربی کے قادر الکلام شاعر امراؤ القیس نے کہا تھا ”گھوڑے کی پشت پر بیٹھا شہسوار لمحوں کو کاٹتا ہوا فتح کے نشے میں چور ہوتا ہے۔ کاش کبھی کوئی اسے کوچہ جاناں میں سر کے بل جاتا دیکھے“ عامری یاد آئے رفحان بن عامر السودا۔ کہا ”وہاں سر کے بل جانا تو کوئی کمال نہیں سبھی جاتے ہیں کمال تو یہ ہے کہ آدمی آنکھیں موندے اور پہنچ جائے“۔ شاہ! تم قیس اور عامری کی باتیں کرنے اور سنانے کے لیے ٹھنڈی ٹھار صبح میں یہاں لائے ہو“؟ فقیر راحموں نے پوچھا۔ کیوں یار۔ ”ہم کوچہ جاناں اندر چھپائے سفر حیات طے کررہے ہیں۔ جب اکلاپا کھانے کو دوڑتاہے تو اندر اتر کر محفل سجا لیتے ہیں۔ “ ہاں لیکن حلاج نے کہاتھا”اس کی طرف اٹھنے والا ہر قدم نئی قربانی کا طلب گار ہوتا ہے۔“ شہید سرمدؒ کے بقول یہ راہ ہی ایسی ایسی ہے ۔ اس پر آنے کا شوق سبھی پالتے ہیں مگر آتا وہی ہے جسے ”ہونے“ کا یقین ”پانے“ تک قدم قدم چلاتا ہے۔
فقیر نے پھر مداخلت کی (یہ مداخلت ازخود نوٹس کی طرح لگی مجھے) اور کہا ” پو پوٹھنے والی ہے لمبی سیاہ رات کی۔ اس اور سے سورج نکلے گا۔ نجانے حیاتی پر مسلط اندھیروں کو کاٹنے والا سورج کب طلوع ہوگا؟“ بہت سی باتیں اور بندے برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ سو کیجئے۔ کر ہی تو رہے ہیں۔ ٹکا سا جواب دے کر روپیلی کرنوں پر نگاہ جما دی۔ چند ساعتوں کی خاموشی کے بعد اس نے پھر کہا”زندوں سے کلام کیا کرو، ریت پر آڑھی ترچھی لکیریں بنانے کا کیا فائدہ؟“۔ ”نفع نقصان کی کون سوچتا ہے۔ قرض کے سانسوں پر اترانا کیسا“ فقیر نے قہقہہ بلند کیا اور کہا ”جہل کے اندھیرے کو فکر کی روشنی سے ڈر لگتاہے۔“ ”ہاں“ مجھے اقرار کرتے بنی۔ بات سچی یہی ہے۔ بحث اٹھانے کا کیا فائدہ۔ لیکن یہاں جہل کے اندھیرے کو زندگی کی معراج سمجھنے والے شمار کرنا مشکل ہے۔ اس نے جواب دیا۔ حضرت سچل سرمست ؒ نے تو کہہ دیا تھا ”وہ (صاحب عقل) کیا جانے کہ میرا یار تو میرے اندر ہی موجود ہے لیکن یہ قرب و وصال اسی کو حاصل ہوتا ہے جو درجات کا طالب نہ ہو“۔ ”درجوں کا خواہش مند کون نہیں ہوتا؟ ساری بھاگ دوڑ اس کے لیے ہی تو ہے۔ “رسان سے اس نے کہا۔ ان سموں مجھے حضرت سید جلال الدین سرخ بخار یؒ یاد آئے۔ فرمایا”حسد اور جہل سگے بھائی ہیں۔اللہ ان کا ساتھ کسی کو نہ دے۔“ چند دن ادھر کی ایک شام ان کی خانقاہ پر حاضر ہوا تو یوں لگا جیسے فرما رہے ہوں“تمامی کے پیچھے بھاگتا آدمی آخری سانس تک ناتمامی سے جان نہیں چھڑا پاتا“۔
بلھے شاہ ؒ نے کہا تھا ”ہم تو قتل منصور کا قصاص مانگتے ہیں۔ انہوں نے ارجن کو لہو کا غسل دے دیا“ فقیر راحموں بولا ”منصور ہوں کہ سرمد، ارجن ہوں یا سامت، آدمیوں کے جنگل میں انسانوں کا کیا کام۔ سرابوں کے پیچھے بھاگتے دوڑتے لوگ زندگی کی سچائیوں کا ادراک کب کر پاتے ہیں۔“ عمر خیام نے کہا تھا ”مرنے کے لیے جیتے لوگوں کو علم کی عین کا مطلب سمجھ میں آجائے تو حق زندگی ادا کرنے لگیں گے۔“ ”حق زندگی“ ، سوال سن کر فقیر راحموں نے دریا کی اس اور دیکھا اور گویا ہوا”زندگی کا حق کب ادا ہو پاتا ہے۔ آدمی کو تو سانسوں سے زیادہ زر شماری مرغوب ہے“۔ کچھ دن ہوتے ہیں ایک صاحب دانش کے حضور عرض کیا تھا”آدمی خواہشوں کا بوجھ اٹھائے کنار گور تک گھسیٹا کیوں جاتا ہے“؟ شفقت سے بولے”آدمی جو ہوا، انسان بننے کی کوشش کی ہوتی تو دنیا بدل جاتی“۔ ان کے جواب نے لگ بھگ اڑھائی دہائیاں پیچھے کی ایک سپہر میں لے جاکر کھڑا کیا۔ سن گاؤں میں مرشد جی ایم سید کی اوطاق میں نیاز مندوں کے ہجوم میں سے ایک سوال ہوا”سائیں! شاہ (شاہ عبدالطیف بھٹائی) نے سرمدی نغمہ الاپنے کو کہا ہے۔ ہم کیسے الاپیں اسے“؟ سن رسیدہ لیکن حاضر جواب جی ایم سید بولے ”بابا نصف صدی سے الاپ ہی رہاہوں۔ کبھی ذہن پر چھایا غبار صاف کر کے سنو تو، یہی سرمدی نغمہ ہے کہ اپنے لوگوں کے لیے جیا جائے، داد کی خواہش کے بنا“۔
یاد پڑتا ہے اس شام فقیر راحموں نے مجھ سے کہا تھا ”پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے زندگی بیتانے والوں پر سرمدی نغمہ کا اسرار کھل بھی جائے تو بے سود ہے“۔ ”وہ کیوں“؟ دریافت کیا۔ حافظ شیرازی نے کہا تھا”آواز دوست سب کو راہ دکھاتی ہے ۔ اب کوئی اسے واہمہ سمجھے تو اس کا نصیب“۔ مختصر خاموشی کے بعد وہ پھر گویا ہوا۔ ”پانے کے لیے جس ثابت قدمی کی ضرورت ہے اسی سے بھاگتے ہیں لوگ۔ ہتھیلیوں پر سرسوں جمانے کے شوقین جب عمر کی نقدی ختم ہونے پر حساب کا دفتر کھولتے ہیں تو وہ دھول سے اٹا ہوتا ہے۔“ سامی نے کہا تھا ”آدمی اپنے دکھ سکھ خود لکھتا ہے۔ اور دوش کسی اور کو دے کر بری الذمہ ہوجاتا ہے“۔ چناں کنارے کی ٹھنڈی صبح کو دھوپ کاٹنے لگی تو واپسی کا سوچا۔ سکون سے بھرے چند گھنٹوں کے بعد ہنگاموں سے بھری دنیا کی سمت۔ ”پھر کب آئیں گے یہاں“؟ فقیر راحموں نے دریافت کیا۔ ”وقت کون مقرر کر سکتا ہے، سوائے اس کے جس کے لیے وقت کی کوئی قید نہیں۔ سانس چلتے رہے تو پھر یہاں تک آئیں گے“۔ عین ان سموں مجھے حضرت سید ابوالحسن امام علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم یاد آئے۔ فرمایا”علم، مال اور اقتدار امتحان ہے ۔ سخت اور کڑا امتحان جو اس میں سرخرو ہوئے وہ اپنے رب سے ملیں گے۔ جنہوں نے تینوں کا غلط استعمال کیا وہ خسارے میں رہیں گے۔ دائمی خسارہ ان کا مقدر ہے۔“
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn