عوامی شکایات اور تجاویز سے وزیراعظم کو براہ راست آگاہ کرنے کیلئے پاکستان پورٹل کا افتتاح اتوار کے روز کر دیا گیا۔ اس موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ عوامی شکایات کے ازالے اور تجاویز پر غور کے عمل کی وہ خود نگرانی کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس نطام سے سزا وجزا میں آسانی رہے گی۔ماضی میں اس طرح کے تجربات ہوتے رہے ہیں، محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے بھی اپنے ادوار میں وزیراعظم شکایات سیل قائم کئے تھے۔ مسئلہ نئے تجربات کرنے یا وعدوں کا نہیں بلکہ یہ ہے کہ اصلاح احوال، کرپشن کے خاتمے اور دیگر حوالوں سے جو قوانین موجود ہیں ان پر عمل میں امر مانع کیا ہے؟۔
اختیارات سے تجاوز، کرپشن، قبضہ گیری اور دوسری خرابیاں بدرجہ اتم موجود ہیں اور ان کے تدارک کیلئے قوانین بھی، پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ ماضی میں جو شکایات سیل بنائے گئے ان کی کارکردگی بہتر تو کیا قابل ذکر بھی نہیں۔ اب ایسا کیا ہوگیا ہے کہ فرشتہ صفت لوگ دسیتاب ہوئے ہیں اور یہ اُمید دلائی جارہی ہے کہ وزیراعظم کی ذاتی نگرانی کی بدولت شکایات کا ازالہ ہوگا اور تجاویز پر عمل بھی؟۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ قانون کی کونسی شق کہتی ہے کہ احتساب سے فلاں شخص یا ادارہ ماورا ہے۔ سزا وجزا کے قوانین موجود ہیں اور نظام بھی اصل مسئلہ ان پر عمل سے گریز کا ہے ۔
مناسب ہوتا اگر قوانین پر عمل کو یقینی بنانے پر توجہ دی جاتی تاکہ نیا ڈھانچہ کھڑا کرنے پر محنت کرنا پڑتی نہ خرچہ۔ بجا ہے کہ وزیراعظم کو لوگوں کی حالت زار اور مسائل سے روزمرہ بنیادوں پر آگاہ ہونا چاہئے لیکن اس کیلئے تو مقامی سسٹم پہلے سے ہی موجود ہے۔ اس موجود سسٹم میں خرابی کیا ہے اور اعتماد سے محروم کیوں ہوا، اس کاجائزہ لینے کی ضرورت تھی۔ اس کے دو فائدے ہوتے اولاً سسٹم بہترہوتا ثانیاً عوام کا اداروں اور قوانین پر اعتماد بحال ہو پاتا۔ یہاں کسی کو وزیراعظم کے اخلاص اور مسائل حل کرنے کی فہم پر شک نہیں ایک منتخب قیادت کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کو ان کے مسائل ومشکلات سے نجات دلوائے جو ان کی زندگیاں اجیرن بنائے ہوئے ہیں۔
تحریک انصاف جن وعدوں پر رائے عامہ کی مقبول جماعت بنی ان میں عوامی مسائل کو کم سے کم وقت میں حل کرنے، اقربا پروری اور کمیشن کا خاتمہ اور بلاامتیاز احتساب کے وعدے شامل ہیں۔وزیراعظم نے جس شکایات سیل کا اتوار کو افتتاح کیا ہے اس سے ایک تاثر یہ بھی پیدا ہوا ہے کہ عوامی شکایات کے ازالے کیلئے کوئی نیا سسٹم بنائے بغیر توقعات پر پورا نہیں اُترا جا سکتا۔ یہ امر اپنی جگہ بجا ہے کہ محض مہنگائی، غربت، بیروزگاری ہی مسئلہ نہیں عام طبقات کا انصاف سے محروم رہنا، دیوانی مقدمات کا کئی سالوں تک چلتے رہنا، بالادست طبقات کی اقربا پروری، عدم مساوات جیسے مسائل بھی موجود ہیں۔ ثانیاً یہ کہ کرپشن صرف سیاستدان اور بیوروکریٹس ہی نہیں کرتے دیگر بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اس طور ضرورت اس امر کی تھی کہ پہلے سے موجود قوانین کو بہتر بنانے اور اداروں کو فعال بنانے پر توجہ دی جاتی۔
یہاں سب کو معلوم ہے کہ دودھ کا دھلا کون ہے اور کرپشن کمیشن میں گردن تک دھنسا ہوا کون۔مکرر عرض کرنا بہت ضروری ہے کہ اپنے وعدے کے مؤجب وزیراعظم ایک ایسے نظام کی تشکیل کی طرف بھی توجہ دیں جس میں عام شہری کو کم سے کم وقت میں انصاف ملے، مساوات کا دور دورہ ہو وسائل میں ہر شخص کو حصہ ملے۔ تعلیم، صحت اور روزگار کے شعبوں میں ماضی کے مقابلہ میں بہتری دکھائی دے۔ اُمید واثق ہے کہ طرز حکمرانی کو درست کرنے کے وعدے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے وزیراعظم ہر ممکن اقدامات کریں گے تاکہ تبدیلی کے ثمرات عوام تک پہنچ پائیں۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر قوانین کے اطلاق اور اداروں کی کارکردگی پر نگاہ رکھنے کا انتظام ہو تو اضافی کام نہیں کرنا پڑتے۔ چاروں صوبوں میں لوگوں کو سب سے زیادہ شکایات طبی سہولتوں کی کمی، پینے کا صاف پانی کی کم مقدار میں دستیابی اور پولیس کے نامناسب برتاؤ کے حوالے سے ہے۔ دوسرے نمبر پر نظام انصاف کے حوالے سے شکایات ہیں۔ تیسرے نمبر پر بیروزگاری اور پھر گلی محلوں میں اٹ آئے قبضہ گروپ ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ ڈپٹی کمشنروں کی پرائس کنٹرول کمیٹیاں کہاں ہیں۔ کیا کبھی حکومت نے صحت کے شعبہ کیلئے رکھے گئے فنڈز کو عام آدمی پر تقسیم کر کے دیکھا ہے کہ سال بھر میں فی کس کیا بنتا ہے۔ (یاد رہے اس حساب پر پچھلی حکومتوں کو بھی غور فرمانا چاہئے تھا)۔ بار دیگر عرض ہے سابقین ہوں یا حاضر حکمران تینوں پر شک غیر ضروری ہے۔ جس امر پر توجہ نہیں دی جاسکی وہ نظام کو بہتر بنانا اورقانون کا بلاامتیاز اطلاق ہے۔ وزیراعظم کہتے ہیں کہ کئی چیلنج درپیش ہیں۔ ان حالات میں ہونا یہ چاہئے کہ وہ نظام میں بہتری لانے کیلئے ٹھوس اقدامات پر توجہ دیں تاکہ وہ اپنی بھرپور توجہ چیلنجوں پر مرکوز کرسکیں۔
حرف آخر یہ ہے کہ وفاقی وزیر اعظم سواتی کی شکایت پر آئی جی پولیس اسلام آباد کا تبادلہ درست اقدام نہیں۔ اعظم سواتی نے اپنے فارم ہاؤس کے قریب کچے گھر میں بسنے والے ایک خاندان کی گائے کے فارم ہاؤس میں داخلے کو جس طرح مسئلہ کشمیر بنا کر پیش کیا اس پر افسوس کیا جاسکتا ہے۔ اس سے زیادہ افسوس اس بات پر ہے کہ آئی جی کے تبادلے کےساتھ ہی ان کے پرائیویٹ گن مین، دو خواتین سمیت پانچ افراد کو زبردستی اُٹھا کر تھانے لے گئے اور دھونس سے انہیں حوالات میں بند کروا دیا۔ کیا اس ملک میں عام آدمی کو بھی ایسی دھونس اور پولیس گردی کا حق ملے گا؟۔
مشرق پشاور
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn