توہینِ رسالت ﷺ کے مبینہ الزام میں سزائے موت کے فیصلے کے خلاف دائر اپیل پر سپریم کورٹ نے حقائق و شواہد کو سامنے رکھتے ہوئے مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو بری کردیا۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم بنچ کے فیصلے کے خلاف ایک خاص فہم کے لوگوں نے اپنے پیش نمازوں اور پیروں کے ہمراہ احتجاج کرتے ہوئے جو زبان استعمال کی کیا قرآن و سنت سے اس طرح کی زبان دانیوں کے برحق ہونے کی اسناد مل سکتی ہیں؟ آسیہ بی بی کیس میں دو اہم ترین باتیں روزاول سے ختم نبوت کا کاروبار بنائے مولوی اور پیر لوگوں سے چھپاتے رہے ہیں۔ اولاََ یہ کہ بنیادی جھگڑا ایک مسیحی خاتون کا مسلم خاتون کے ساتھ پانی کے برتن پر ہوا۔ ثانیاَََ یہ کہ مولوی سلامت نامی شخص موقع پر موجود نہیں تھا بلکہ وہ وقوعہ کے وقت ضلع شیخوپورہ سے سینکڑوں کلومیٹر دور بہاولنگر گیا ہوا تھا۔ تیسرا اہم نکتہ مسیحی خاتون کا وہ بیان ہے جو مقامی طور پر مولوی سلامت کے ایما پر وقوعہ سے پانچ دن بعد منعقد ہوئی پنچایت میں آسیہ بی بی نے دیا۔ اور اس بیان کے لیے اسے مولوی سلامت اور ایک سب انسپکٹر پولیس نے یہ کہہ کر آمادہ کیا کہ اگر وہ یہ بیان دے دے تو اسے معاف کر دیا جائے گا۔ آسیہ بی بی نے اس نام نہاد پنچایت میں اور بعد ازاں اپنی گرفتاری کے بعد پولیس اسٹیشن میں اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ بائبل پر حلف دے کر بیان دینا چاہتی ہے لیکن دونوں مرتبہ اسے حلف اٹھانے کا حق دینے کی بجائے اس سے مرضی کا بیان دلوایا گیا۔ افسو اس عمل میں ایک نام نہاد صحافی بھی ملوث تھا۔
بدھ کی صبح سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کی اپیل پر محفوظ فیصلے کو سناتے ہوئے اسے بری کر دیا۔ بریت کے فیصلے میں جو دس اہم سوالات اٹھائے گئے ان کا جواب سڑکوں ار چوراہوں پر منہ بھر کے سپریم کورٹ کے ججوں، آرمی چیف اور وزیراعظم کو گالیاں دینے اور فیصلہ سنانے والے ججوں کو واجب القتل قرار دینے کے بھونڈے فتوے جاری کرنے والے پیش نمازوں اور کاروباری پیروں یا ان کے ہمدردوں کے پاس نہیں ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے بدھ کی شام قوم سے خطاب کرتے ہوئے آسیہ بی بی کے کیس کے فیصلے کے بعد کی صورتحال ، مذہبی تاجروں کے ایک حلقے کی بدزبانیوں کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا وہ نہ صرف درست ہیں بلکہ اس سے یہ تاثر بھی مستحکم ہوا کہ حکومت اور ریاست کو اپنے فرائض کا احساس ہے اور موجودہ حالات میں ذمہ داری کا بھی۔
یہ امر بھی بجا ہے کہ جب استغاثہ سزا کے لیے مطلوب شہاتیں اور ثبوت فراہم نہ کر سکے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ محض ایک مبینہ الزام یا چند مذہبی تاجروں کی خوشنودی کے لیے انصاف کا قتل کر دیا جائے۔ بڑی عجیب بات ہے کہ جو مذہبی حلقے توہین رسالت ﷺ کے مبینہ یا کسی حقیقی الزام کی بنیاد پر ملزم کو پھانسی سے کم سزا پر آمادہ نہیں وہ اس بات کے مخالف ہیں کہ ایسا قانون بنایا جانا چاہیے کہ اگر تفتیش کے عمل میں الزام جھوٹا ثابت ہو تو پھر الزام لگانے والوں کے خلاف توہین رسالت ﷺ کے قانون کے تحت کارروائی ہو۔ سوال یہ ہے کہ کیا من گھڑت الزام لگانا یا محض وقتی فائدے کے لیے انسانی جان کو داؤ پر لگانا عشق رسول ﷺ قرار پائے گا؟ سادہ سا جواب کامل نفی کی صورت میں ہے۔ آسیہ بی بی کیس میں پہلے دن سے لوگوں کے جذبات سے کھیلا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ قانون میں بہتری لانے کے حوالے سے کی گئی گفتگو پر پنجاب کے اس وقت کے گورنر سلمان تاثیر کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ گو سلمان تاثیر شہید کے قاتل کو پھانسی ہو چکی مگر افسوس کے قاتل کو اکسانے والے ملاؤں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
مقام افسوس ہے کہ خود کو دینی اور روحانی رہنماؤں کے طور پر پیش کرنے والوں نے بدھ کے روز سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جس قسم کی زبان استعمال کی ، جس طرح کے فتوے دیے یا عدلیہ اور فوج میں بغاوت کی دعوتیں دیں اس پر ملک کے سنجیدہ فہم حلقے محظ جان کے خوف سے خاموش ہیں۔ مذہب اور تقدسِ مقدسات کی من پسند تشریحات کرنےو الے پیش نمازوں اور کاروباری پیروں کے یہ طور طریقے کسی بھی طور درست نہیں۔ اصولی طور پر ان کے خلاف نظام کو تلپٹ کرنے کی کوششوں اور عدلیہ و فوج میں بغاوت کرنے کی اپیلیں کرنے کے جرم میں مقدمات قائم ہونے چاہییں تاکہ مستقبل میں سستی شہرت کے حصول کے لیے کوئی ذہنی مریض یہ سب نہ کرنے پائے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ آسیہ بی بی کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ ملکی قانون کے عین مطابق اور مبنی بر انصاف ہے۔ اس فیصلے سے جہاں ملک میں مقیم دیگر مذہبی برادریوں کو تحفظ کا احساس ہو گا وہیں مذہبی تاجروں کی بھی حوصلہ شکنی ہو گی۔
مکرر عرض کرتا ہوں مقدس شخصیات ہوں ، کتب یا دیگر مقدسات کوئی بھی ذی شعور انسان ان کے حوالے سے عامیانہ زبان استعمال نہیں کرتا۔ ہر شخص اس امر سے آگاہ ہے کہ دوسروں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے نتائج کیا ہوں گے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ آسیہ بی بی کیس کے فیصلہ کے خلاف بدھ کو سڑکوں چوراہوں پر حامیوں سمیت آئے پیش نمازوں اور کاروباری پیروں میں سے ایک شخص بھی ایسا نہیں جو سنجیدگی کے ساتھ مقدس تعلیمات کی روشنی میں دو منٹ بھی سنجیدہ گفتگو کر سکے۔ ایک معذور پیش نماز تو تین گالیوں کے بعد ایک دھمکی نما بات کرتا ہے۔ اپنے مذموم مقاصد کے لیے انتہا پسند پیش نمازوں نے بدھ کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو غیر مسلم قرار دیتے ہوئے فوج کے مسلمان جرنیلوں سے بغاوت کی اپیلیں بھی کی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ایک مسلمان کو مذموم مقاصد کے لیے کافر قرار دینے والوں کے خلاف قانونی کارروائی نہیں ہونی چاہیے؟ یقین رکھیے اس سوال کا جواب کوئی بھی نہیں دے گا کیوں کہ ہمارا عمومی مزاج بن چکا ہے کہ ہمیں ایک ہی وقت میں ایک کافر، ایک مشرک اور ایک غدار کی ضرورت رہتی ہے۔ اور یہ ہمارے دھندوں کے لیے بہت ضروری ہے۔ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ اگر سلمان تاثیر کے قاتل کو اکسانے والے تین مولویوں حنیف قریشی، پیر افضل قادری اور مولوی خادم رضوی کے ساتھ ساتھ پیچھے بیٹھ کر منصوبہ بندی کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہو جاتی تو آج چند بدزبانوں کو پھر سے نفرتوں کا بیوپار کرنے کی جرات نہ ہوتی۔ یہاں یہ بھی عرض کر دوں کہ پچھلے ایک دن سے جو لوگ مذہب اور قانون کی من پسند تشریحات میں جتے ہوئے ہیں ان میں سے کسی نے بھی سپریم کورٹ کا مفصل فیصلہ تو کیا اس فیصلے میں اٹھائے گئے 10 بنیادی سوالوں کو بھی غور سے پڑھنے کی زحمت نہیں کی۔ وہ دس سوال حسب ذیل ہیں انہیں پڑھ کر فیصلہ کیجئے کہ صحیح کیا اور غلط کیا؟
1- وقوعہ 14 جون 2009 کو پیش آیا لیکن اس کی ایف آئی آر پانچ دن بعد 19 جون کو درج کی گئی جس کی وجہ سے مقدمہ کمزور ہو گیا۔
2- اس مقدمے میں عینی شاہد معافیہ بی بی اور اسما بی بی ہیں جنہوں نے گواہی دی کہ آسیہ بی بی نے ان کے سامنے توہین آمیز الفاظ ادا کیے۔ اس موقع پر 25 سے 35 کے درمیان خواتین موجود تھیں لیکن ان میں سے کوئی بھی گواہی دینے نہیں آیا۔
3- دونوں خواتین گواہوں نے کہا کہ آسیہ بی بی کے ساتھ ان کا پانی پلانے پر کوئی جھگڑا نہیں ہوا تھا جبکہ دیگر گواہوں نے تسلیم کیا کہ یہ جھگڑا ہوا تھا۔
4- سب سے اہم بات یہ تھی مختلف گواہوں کے بیانات میں فرق تھا۔ جب آسیہ بی بی کا معاملہ پھیلا تو ایک عوامی اجتماع بلایا گیا جہاں آسیہ بی بی سے اقرار جرم کرایا گیا۔ یاد رہے کہ اسی اقرار جرم پر ہی ابتدائی عدالت نے ملزمہ کو موت کی سزا سنائی تھی۔ اس لیے یہ اجتماع بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ ایک گواہ نے کہا کہ اس اجتماع میں 100 افراد شریک تھے، دوسرے نے کہا کہ اس میں 1000 افراد شریک تھے، تیسرے گواہ نے یہ تعداد 2000 بتائی جبکہ چوتھے نے 200 سے 250 کے اعدادوشمار دیے۔ ان بیانات کے فرق کی وجہ سے شکوک پیدا ہوئے اور دنیا کے ہر قانون کے مطابق شک کا فائدہ ملزم کو ملتا ہے۔
5- اس عوامی اجتماع کے بارے میں ایک گواہ نے کہا کہ یہ اجتماع مختاراحمد کے گھر منعقد ہوا تھا۔ دوسرے نے کہا کہ یہ عبدالستار کے گھر ہوا تھا، تیسرے نے کہا کہ اجتماع رانا رزاق کے گھر ہوا تھا جبکہ چوتھے گواہ کا بیان ہے کہ اجتماع حاجی علی احمد کے ڈیرے پر منعقد ہوا تھا۔
6- اجتماع میں آسیہ بی بی کو لانے کے حوالے سے بھی گواہوں کے بیانات میں تضاد تھا۔ ایک نے کہا کہ اسے یاد نہیں کہ ملزمہ کو کون لایا تھا، دوسرے نے کہا کہ وہ پیدل چل کر آئی تھی، تیسرے نے کہا کہ اسے موٹر سائیکل پر لایا گیا تھا۔
7- اس اجتماع کے وقت اور دورانیے کے بارے میں بھی گواہوں کے بیانات میں اختلاف تھا۔
8- ملزمہ کی گرفتاری کے وقت کے متعلق سب انسپکڑ محمد ارشد کے بیانات میں تضاد پایا گیا۔
9- ملزمہ سے اعتراف جرم ایک ایسے مجمع کے سامنے کرایا گیا جس میں سینکڑوں لوگ شامل تھے اور جو اسے مارنے پر تلے ہوئے تھے۔ اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی۔ اسے نہ ہی رضاکارانہ بیان قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی قانون کے مطابق سزائے موت جیسی انتہائی سزا کے لیے ایسا بیان قابل قبول ہو سکتا ہے۔
10- آسیہ بی بی نے قانون کے تحت جو بیان دیا اس میں انہوں نے حضور پاک ﷺ اور قرآن پاک کی مکمل تعظیم کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ تفتیشی افسر کے سامنے بائبل پر حلف اٹھانے کو تیار ہے تاکہ اپنی معصومیت ثابت کر سکے لیکن تفتیشی افسر نے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی۔
یہ اب وکلا حضرات ہی بتا سکتے ہیں کہ ان دلائل کی اہمیت کیا ہے۔۔!!!
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn