امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کہتے ہیں ”امید ہے کہ پاکستان کو جو ہدف دیا گیا ہے وہ اسے پورا کرے گا۔ چند ہفتے قبل پاکستانی قیادت سے ملاقات میں واضح کردیا گیا تھا کہ جنوبی ایشیاءسے متعلق امریکی پالیسی تبدیلی نہیں ہوگی۔ توقع ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے نہیں دے گا“
پچھلے چار عشروں سے جنوبی ایشیاء میں جو بحرانی صورتحال ہے اس کے تناظر میں امریکی اہداف کو سمجھنے میں غلطی ممکن نہیں۔ جنوبی ایشیاءکے حوالے سے امریکی خارجہ پالیسی کے تین اہم نکات سے ہر خاص و عام آگاہ ہیں اولاً افغانستان وار زون بنا رہے۔ ثانیاً بھارت کو خطے میں تھانیدار کا درجہ حاصل ہو۔ ثالثاً چیف کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے تاکہ وہ معاشی طاقت کے طور پر خطے اور عالمی میدانوں میں ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجارہ داری نہ توڑنے پائے۔ سوال یہ کہ امریکیوں نے پاکستانی قیادت کو پچھلے دنوں کیا ہدف دیا۔
اس کی وضاحت تو وزارت خارجہ اور حکومت کے بڑوں کو کرنی چاہیے۔ زیادہ مناسب ہوگا کہ ان معاملات کو پارلیمان میں لایا جائے اور حکومت تفصیلات سامنے لانے کے ساتھ اس امر کی یقین دہانی کروائے کہ پاکستان امریکی اہداف کے حصول میں تعاون کے وقت اپنے ملکی مفادات کو بہرطور مدنظر رکھے گا۔
سوویت یونین کے افغانستان کی حکومت سے ایک معاہدہ کے تحت افغانستان میں افواج اور مشیروں کو بھجوانے کے بعد لادین سوویت یونین کے خلاف اہل کتاب کے جس جہاد کا ڈنکا 1980ءکی دہائی میں بجوایا گیا اس کے اثرات سے 40سال بعد بھی نہیں نکلا جاسکا۔ ستم یہ کہ اس وقت پاکستان میں ایک غیرمنتخب حکومت اقتدار پر قابض تھی جس کی امریکہ نوازی نے ایک طرف تو جہادیت کو فروغ دیا اور دوسری طرف پاکستانی معاشرہ بھی دو انتہاﺅں میں تقسیم ہوگیا۔ انتہاﺅں میں تقسیم ہوئے سماج کو چار دہائیوں کے دوران جس جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا وہ کسی سے مخفی نہیں۔
اسے بدقسمتی ہی کہا جائے گا کہ ہماری خارجہ پالیسی کبھی منتخب پارلیمان میں زیربحث آئی نہ پارلیمان نے خارجہ پالیسی کی جزئیات طے کرنے میں اپنے کردار کی ادائیگی کو ضروری سمجھا۔
پچھلے چالیس برسوں سے تو کم از کم یہی صورتحال ہے کہ جنوبی ایشیاءکے حوالے سے ہماری خارجہ پالیسی کی تکمیل امریکیوں کے ہاتھ میں ہے۔
مثال کے طور پر ہم افغان تعلقات کی عمارت امریکہ کی دلجوئی کے لئے اٹھائے ہوئے ہیں مگر دوسری طرف حالت یہ کہ افغان سرزمین پر کسی بھی المیے کی رونمائی کی صورت میں الزام پاکستان پر تھوپ دیا جاتا ہے۔
افغانستان میں موجود عالمی دہشت گرد تنظیموں کو کون منظم کررہا ہے اس حقیقت کو جانتے ہوئے بھی افغان ترجمان حقائق کو مسخ کرتے ہیں۔
اسی طرح یہ امر بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ امریکی خود تو طالبان سے قطر میں مذاکرات مذاکرات کھیلتے اور داعش کو عراق و شام سے افغانستان منتقل کرنے میں معاون ہیں مگر الزام پاکستان پر ہے کہ حکومت مخالف طالبان کا سرپرست پاکستان ہے۔ اس طرح کا الزام لگاتے وقت یہ بھی فراموش کردیا جاتا ہے کہ افغان طالبان کے نظریاتی حلیف اور معاون دہشت گرد گروپوں کی کارروائیوں سے پاکستان کو کیا نقصان پہنچا۔
اندریں حالات اس امر کی طرف توجہ دلانے میں کوئی امر مانع نہیں کہ افغان پالیسی ہو یا خطے کے دوسرے معاملات ان کے حوالے سے امریکی اہداف کے حصول میں کسی قسم کا کردار ادا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
پاکستان اپنی خارجہ پالیسی اور دیگر معاملات کو اپنے مفادات میں استوار کرے۔ پڑوسی ممالک سے تعلقات میں بہتری لانے کے لئے اس بات کا خیال رکھے کہ کئی ہزاریوں سے جغرافیائی تعلق میں جڑے ممالک میں اختلافات یا نفرتوں کے فروغ سے نقصان پورے خطے کا ہے۔
پاکستان کو بھی امریکیوں پر واضح کرنا ہوگا کہ ملک میں منتخب ادارے موجود ہیں اور حکومت اپنی پالیسیوں‘ اقدامات اور خصوصاً خارجہ امور کے حوالے سے پارلیمان کو جوابدہ ہے ایسے میں یہ ممکن ہی نہیں کہ شخصی حکومتوں کی امریکہ نواز پالیسیوں کو آگے بڑھایا جاسکے۔ ثانیاً یہ کہ امریکی مفادات کے تحفظ میں ہم نے اب تک گھاٹے کے جو سودے کئے ان سے صرفِ نظر بہت مشکل ہے۔ اس امر پر دو آراءہرگز نہیں ہونی چاہئیں کہ امریکہ کی خوشنودی سے زیادہ پاکستان کے پیش نظر اپنے مفادات اور خطے میں باہمی تعاون کا فروغ ہونا چاہیے تاکہ اعتماد سازی کا دور دورہ ہو۔ اپنے قومی مفادات کو نظرانداز کرنے کی جتنی سزا بھگت چکے وہی کافی ہے۔
حیران کن بات یہ کہ شام اور عراق سے پسپا ہونے والے داعش جنگجوﺅں کو افغانستان منتقل کروانے میں امریکی جوش و جذبہ اور دیگر معاملات پر ایک سابق افغان صدر حامد کرزئی کے ٹی وی انٹرویو کے جواب میں حکام سال بھر بعد بھی چند لفظوں سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکے۔ انہوں نے تو اپنے انٹرویو میں افغانستان میں موجود ان امریکی مراکز کی فہرست تک دے دی تھی جو داعش جنگجوﺅں کی منتقلی کے لئے استعمال ہوئے لیکن اس سے زیادہ حیرانی اس بات پر ہے کہ پچھلے سال سوا سال کے دوران ہمارے دفتر خارجہ نے اس حوالے سے کبھی امریکیوں سے بات نہیں کی کہ داعش جنگجوﺅں کو افغانستان پہنچانے میں امریکہ کے مقاصد کیا ہیں اور اہداف کیا ہوں گے؟ مکرر عرض کروں گا کہ امریکی وزیر خارجہ کے مذکورہ بیان کی نہ صرف کامل وضاحت کی ضرورت ہے بلکہ اگر کوئی ہدف دیا گیا ہے تو اس حوالے سے بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہوگا۔ خارجہ پالیسی کو مکمل یا جنوبی ایشیاءکی حد تک امریکیوں کے رحم و کرم پر چھوڑا جاسکتا ہے نہ تابع فرمان کرنا ملکی مفاد میں ہوگا۔ ہمارے اپنے مسائل بہت ہیں اور ان میں سے زیادہ تر وہ ہیں جو امریکہ نوازی کا تحفہ ہیں۔
یہ درست ہے کہ پاکستان کے لئے افغانستان میں عسکریت پسندی کا کلی خاتمہ بہت ضروری ہے۔ افغانستان میں امن کا قیام صرف افغان عوام کا نہیں بلکہ خطے کے بھی مفاد میں ہے۔ کیا یہ درست نہیں کہ طالبان کا ظہور امریکیوں کی مرضی و منشا سے ہوا؟ تو پھر طالبانائزیشن سے خطے میں جو تباہیاں ہوئیں ان کی ذمہ داری وہ دوسروں پر تھوپ کر خود معصوم کیوں بن جاتے ہیں؟ امریکی اہداف کے حصول کے لئے ہم اپنی جان عذاب میں کیوں ڈالیں۔ ویسے کیا افغانستان میں پاکستان دشمن عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں سے امریکہ اور افغان حکومت لاعلم ہیں اور یہ ٹھکانے کس نے کن مقاصد کیلئے فراہم کئے۔ کاش کبھی کوئی یہ سوال بھی امریکہ بہادر سے دریافت کرے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn