پنجاب کے سابق وزیر تعلیم اور شہباز شریف کے دست راست رانا مشہود نے منگل کے روز نون لیگ اور ریاستی اداروں کے درمیان تعلقات کی بحالی اور معاملات طے پاجانے کے حوالے سے دیئے گئے اپنے ایک بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ نے کہا کہ رانا مشہود کا بیان غیرذمہ دارانہ ہے اور ملکی استحکام کے لئے نقصان دہ ہے۔ خود نون لیگ کے رہنماؤں نے بھی بیان کو ذاتی خیالات قرار دیا۔ بحث و مباحث کا طوفان اٹھانے اور نیم دلانہ تردیدوں کے بکھیڑے میں پڑنے کے بجائے یہ امر غور طلب ہے کہ نون لیگ کے اہم ترین رہنماؤں میں سے ایک نے اس طرح کا بیان کیوں دیا۔
بظاہر اس کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں اولاً بدھ 3اکتوبر کو پنجاب میں سینیٹ کی ایک نشست کے لئے ہونے والے انتخاب کے ضمن میں اپنی جماعت کے ارکان کو یہ امید دلانا ہے کہ ”ہم لَوٹ رہے ہیں“ معاملات طے پاچکے۔ لیگی رہنما پہلے ہفتہ بھر سے تواتر کے ساتھ یہ کہتے آرہے ہیں کہ بس ایک دو ماہ کی بات ہے پنجاب نون لیگ کو واپس مل جائے گا۔مسٹر مشہود کے موقف کو ان بیانات کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔دوسری وجہ بہت واضح ہے وہ یہ کہ نون لیگ اپنی قیادت پر مالی بے ضابطگیوں کے مقدمات‘ انتخابی شکست اور چند دوسرے معاملات کو ریاستی اداروں کے اقدامات قرار دیتی آئی ہے۔ پچھلے ایک سال سے نون لیگ ہر سطح پر یہ تاثر دے رہی ہے کہ بھارت سے بہتر تعلقات کی اس کی پالیسی پر فوج ناراض تھی اور اس ناراضگی کی سزادی گئی۔ رانا مشہود کے بیان سے ایک دن قبل عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈہ پور کے ایک بیان کو نون لیگ کے ہم خیال میڈیا نے جس طرح توڑموڑ کر پیش کیا اور پھر اگلے روز مسٹر رانا نے جو کچھ کہا دونوں کو ملاکر دیکھنے کی ضرورت ہے۔
خرم گنڈہ پور کے مسخ شدہ بیان اور مشہود کے بیان کے مندرجات دونوں سے ایک ہی تاثر ابھارا گیا کہ ملک میں جو بھی کچھ ہورہا ہے وہ جی ایچ کیو کی مرضی سے ہوتا ہے اس لئے اب ہماری قیادت نے جی ایچ کیو سے اپنے معاملات بہتر بنالئے ہیں اور جی ایچ کیو کو بھی ہمارا موقف سمجھ میں آگیا۔ سیاسی جماعتیں اپنی سیاست میں معروضی حالات اور مسائل کو سامنے رکھ کر پالیسی بیان دیتی ہیں۔ نون لیگ کی سیاسی حکمت عملی کا اس کی سیاسی زندگی کے حوالے سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ 1993ءاور پھر 1999ءمیں نون لیگ کی حکومتیں بدترین کرپشن کے الزامات پر برطرف ہوئیں۔ ان مواقع پر بھی نون لیگ نے ریاستی اداروں خصوصاً فوج کو ہدف تنقید بنایا اور قدم قدم پر یہ تاثر دیا کہ فوج کے بعض جرنیل سول قیادت کو اپنے تابع فرمان رکھنا چاہتے ہیں۔ 2007ءمیں جلاوطنی ختم کرکے ملک واپس آنے کے بعد میاں نوازشریف کا ہدف ریاستی ادارے ہی رہے۔ پیپلزپارٹی کے مقابلہ میں انہوں نے ریاستی ٹرائیکا سے جو اتحاد بنایا تھا اس کا مقصد ایوان اقتدار تک رسائی کے ساتھ یہ تاثر بھی دینا تھا کہ دیکھا ہم نہ کہتے تھے کہ جرنیل شاہی کے تعاون و سرپرستی کے بغیر اس ملک میں کچھ نہیں ہوسکتا۔
منگل کو پنجاب کے ایک سابق وزیر اور شریف فیملی کے دست راست کا بیان درحقیقت ایک بار پھر اپنی سیاست کو آگے بڑھانے کی کوششوں کا حصہ ہے جو نون لیگ پچھلے سال سوا سال سے کررہی ہے۔ رانا مشہود نے کسی غلط فہمی یا خودفراموشی کی حالت میں بات نہیں کی ان کے بیان کی تردید کرنے والے بھی محض اداکاری کررہے ہیں۔ مشہودکے بیان سے نون لیگ جو فائدہ اٹھانا چاہتی تھی وہ اٹھاچکی۔ ریاستی ادارے دفاعی پوزیشن پر کھڑے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس بیان کی ایک تیسری وجہ بھی ہوسکتی ہے وہ یہ کہ نظام اور اداروں کو اتنا متنازع بنادو کہ لیگی قیادت کو ماضی کی طرح محفوظ راستہ مل جائے اور پھر یہ دہائی دی جائے کہ ہم نہ کہتے تھے کہ فیصلوں کے پیچھے کون کھڑا ہے۔ سوال یہ بھی اہم ہے کہ پھر نون لیگ کی قیادت اس امر کا اعتراف کرنے پر بھی آمادہ ہوگی کہ خود ان کی سیاسی تربیت و اٹھان اور اقتدار ریاستی اداروں کا مرہون منت رہا ہے۔ اداروں کو متنازع بنانے کی لیگی سیاست کی ساری تاریخ اس طرح کے خیالات سے عبارت ہے۔ ان خیالات و جذبات اور حکمت عملی کے پیچھے ایک ہی سوچ کارفرما ہے وہ یہ کہ ”ہم نہیں تو پھر کچھ بھی نہیں“۔ کسی سیاسی جماعت کی یہ سوچ اور منفی رویہ قابل مذمت ہے۔ اداروں کو اپنے حالات کا ذمہ دار قرار دینے کے بجائے لیگی قیادت کو چاہیے کہ وہ اپنی اداؤں پر بھی غور کرلے۔
مگر یہاں اصل المیہ یہ ہے کہ اپنی اداؤں پر کوئی بھی غور کرنے کو تیار نہیں۔ یہ سطور لکھ رہا تھا کہ لیگی قیادت کے ان بیانات کی آوازیں کانوں میں پڑیں جو رانا مشہود کے بیان کی تردید میں دیئے گئے۔ سادہ سا سوال ہے وہ یہ کہ کیا رانا جی خود سے یہ کہہ سکتے تھے؟ جی بالکل نہیں۔ پتہ پھینک کر حالات کا جائزہ لینے‘ تماشا دیکھنے اور بھاگنے سے پہلے ”ہدف“ پر وار کرنے کی چال تھی۔ طالب علم الحمدللہ کبھی جی ایچ کیو کا طبلچی و میڈیا منیجر نہیں رہا‘ آگے بھی اللہ محفوظ رکھے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جو لیڈر اور جماعت ساری عمر جرنیلوں کی سرپرستی اور تابعداری میں فخر محسوس کرتی رہی ہو‘ جس نے میثاق جمہوریت کے برعکس کیانی پاشا جوڑی سے پیپلزپارٹی کے خلاف اتحاد کیا ہو اور پھر افتخار چودھری کی نگرانی میں بدترین پروپیگنڈہ مہم چلائی ہو اسے پرانے آقاؤں کے لتے لینے سے قبل ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہیے۔ حرف آخر یہ ہے کہ اگر واقعی فوج نے جناب نوازشریف کو نکلوایا تھا تو کیسے باقی ماندہ آئینی مدت ان کی جماعت کو پوری کرنے دی؟ اداروں کے آئینی کردار پر ماتم جمہوریت کرتے دوستوں کو یہ تو سوچنا چاہیے کہ اداروں کے آئینی کردار کا خیال 2009ءسے 2013ءکے درمیان کیوں نہ آیا؟ مسلم لیگ (ن) ان دنوں کیا عشروں سے نسبی جاگیرداروں والی سیاست کررہی ہے‘ گلے پڑنے کا ماحول بناؤ نہ بن سکے تو پاؤں پڑجاؤ۔ صاف سیدھی بات یہ ہے کہ لیگی قیادت کو اپنے معاملات درست کرنے ہوں گے۔ مان لیتے ہیں تحریک انصاف کو وہی قوتیں لائی ہیں جن کی طرف رانا مشہود نے اشارہ کیا ہے۔ کوئی یہ تو بتلائے کہ 2013ءمیں نون لیگ کو کون اقتدار میں لایا تھا؟
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn