Qalamkar Website Header Image
فائل فوٹو - حیدر جاوید سید

وعدے ترجیحات اور حقیقت

عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کے وعدے کرتی حکومت کے ذمہ داران پر لازم تھا کہ وہ سٹیٹ بنک آف پاکستان کی پالیسی کمیٹی کی حالیہ رپورٹ کے مندرجات پر بھی ایک نگاہ ڈال لیتے تاکہ وہ اس ابتر صورتحال اور سنگین ہوتے مسائل سے آگاہ ہوسکتے جن سے عوام کو روزمرہ زندگی میں واسطہ پڑتا ہے۔ سٹیٹ بنک کی رپورٹ میں مہنگائی میں مزید اضافے کی جس طور نشاندہی کی گئی اس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ رپورٹ کے مطابق رواں سال مارچ سے اب تک مہنگائی کی شرح میں 5.8 فیصد اضافہ ہوا ہے جو گزشتہ مالی سال کے مقابلہ میں 3فیصد سے زیادہ ہے۔

غور طلب امر یہ ہے کہ ایک طرف مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے دوسری طرف بجلی‘ پٹرولیم اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مہنگائی کے دو پاٹوں کے بیچ آئے شہریوں کا کیا حال ہوگا یہ سمجھنا دشوار ہرگز نہیں۔ ہمارے لئے یہ امر بجاطور پر حیران کن ہے کہ وفاقی وزیراطلاعات ونشریات فواد چوہدری نے اپنی سیاست کا محور مڈل کلاس کو قرار دیا ہے یعنی آسان لفظوں میں یہ کہ ان کی حکومت اور جماعت کو معاشرے کے نچلے طبقات کے مسائل سے کوئی سروکار ہے نا وہ ان کی تبدیلی کی سیاست کا حصہ ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ مڈل کلاس مجموعی آبادی کا کتنے فیصد ہے۔ اس سوال پر غور کرنے اور جواب پانے کے درمیانی لمحوں میں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ آخر کیسے ایک حکومت جو معاشرے کے مختلف طبقات کے ووٹوں سے اقتدار میں آئی ہو صرف ایک کلاس کو اپنی سیاست کا محور قرار دے رہی ہے؟۔

پاکستان میں اگر طبقوں کی عمومی حیثیت کی بنا پر درجہ بندی کی جائے تو غریب طبقات کی آبادی مجموعی طور پر 82فیصد بنتی ہے۔ باقی ماندہ 18فیصد میں مڈل اور اپر کلاس کے ساتھ نو دولتئے بھی شامل ہیں۔ اس طور اگر کسی حکومت کا ترجمان اپنی سیاست کا محور مڈل کلاس کو قرار دیتا ہے تو اس کا یہ مطلب لیا جائے گا کہ حکومت کی سیاست اور اقدامات محض 13فیصد آبادی کے مفادات پر مبنی ہوں گے،
5فیصد بالا دست اشرافیہ تو ہر دور میں ایوانوں کے اندر اور پالیسی سازی پر گرفت رکھتی ہے۔ یہ بدقسمتی ہی ہوگی کہ تبدیلی کا نعرے لیکر اقتدار میں آنے والی جماعت صرف 13فیصد لوگوں کے مسائل ومشکلات کو دیکھے اور اصلاح کیلئے اقدامات کرے گی۔ باقی ماندہ 82فیصد مخلوق کس کے دروازے پر دستک دے یا اُمید بھری نگاہوں سے کس سمت دیکھے اس پر فی الوقت تو سوالیہ نشان ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  نظریہ ضرورت کا مقتول ۔۔۔ ذوالفقار علی بھٹو - حیدر جاوید سید

ہماری دانست میں موجودہ حالات دانشمندی کے متقاضی ہیں۔ اولین مرحلے پر شہری طبقات کے درمیان موجود خلیج کو کم سے کم کر کے کچلے ہوئے طبقات کا معیار زندگی بہتر بنانے کیلئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے، دوسرے مرحلہ میں ٹیکسوں کے بھاری بھر کم بوجھ میں اس طور کمی لانے کی ضرورت ہے کہ اضافوں کا زیادہ بوجھ بڑے طبقات پر پڑے۔
بیروزگاری کے خاتمے کیلئے ٹھوس اقدامات لازم ہیں لیکن یہاں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجاب میں 3ماہ کیلئے بھٹہ خشت پر پیداواری عمل کی پابندی سے مجموعی طور پر سات سے 8لاکھ خاندانوں کے متاثر ہونے پر کسی نے توجہ نہیں دی۔
اکتوبر سے دسمبر کی سہ ماہی کے دوران ایک طرف مہنگائی کا سیلاب ہوگا اور دوسری طرف صرف ایک صوبے میں 8لاکھ خاندان فاقہ کشی پر مجبور ہوں گے۔ ایسے میں مڈل کلاس کو اپنی سیاست کا محور قرار دیتی حکومت جادو کی کس چھڑی سے ایسی تبدیلی کا آغاز کر پائے گی جس کے ثمرات غریب ترین شہریوں تک پہنچ پائیں؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اپنی پالیسیوں‘ اقدامات اور طبقات نوازی پر مبنی سوچ کا ازسرنو جائزہ لے اور آنے والے دنوں میں طوفان بننے والے مسائل پر قابو پانے کیلئے حکمت عملی وضع کرے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ حکمت عملی کون وضع کرے گا؟
سادہ سا جواب یہ ہوگا کہ ظاہر ہے مہنگائی سمیت دوسرے مسائل کے حل کیلئے ٹھوس اقدامات حکومت کی ذمہ داری ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ حکومت کسی ایک طبقے کو اپنی سیاست کا محور قرار دے نہ لاڈلے پالنے کی روش پر گامزن ہو۔
بالائی سطور میں عرض کر چکا کہ مڈل کلاس صرف 13فیصد ہے۔ 5 فیصد اشرافیہ ہے۔ باقی ماندہ 82فیصد میں لوئر مڈل کلاس ہیں۔ (سفید پوش طبقات) اور خط غربت سے نیچے کی زندگی بسر کرنے والے 50فیصد سے زائد شہری ہیں۔ یوں اگر ہم ترتیب وار معاملے کو دیکھیں تو 50فیصد غریب ترین آبادی ہے 32فیصد لوئر مڈل کلاس‘ 13فیصد مڈل کلاس اور 5فیصد بالادست اشرافیہ۔ ایسے میں اگر حکومت صرف 13فیصد آبادی کو اپنی سیاست کا محور سمجھے گی تو یقینا پالیسیاں وضع کرتے ہوئے اس کے پیش نظر یہی 13فیصد آبادی ہوگی۔
ایسا ہوا تو طبقاتی خلیج مزید گہری ہوگی۔ وسائل کی منصفانہ تقسیم کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔ ضرورت بہرطور اس امر کی ہے کہ تعمیرنو اور ترقی کیساتھ شہریوں کا معیار زندگی بہتر بنانے اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والی آبادی کو استحصال سے محفوظ رکھنے کیلئے ایسی پالیسیاں وضع کی جائیں جن کی بدولت ارتقا کا وہ سفر شروع ہو پائے جو اب ایک دھندلے خواب کے سوا کچھ نہیں۔ کسی بھی سیاسی جماعت کا انتخابی عمل سے گزر کر عنان اقتدار سنبھالنا اس امر کا ثبوت ہے کہ معاشرے کے مختلف طبقات کے رائے دہندگان نے اس پر اعتماد کیا ہے ایسے میں اپنی محبت وسیاست کا محور کسی ایک طبقے کو قرار دینا ہرگز درست نہیں۔

یہ بھی پڑھئے:  پنجاب میں پیپلزپارٹی کی واپسی - اکرم شیخ

حالیہ بلاگ پوسٹس